کپتان اور مولانا کی محبت پر آپ کو کیوں اعتراض ہے؟


ویسے مولانا اور کپتان کی محبتوں کی کہانیاں تو آپ نے سن رکھی ہوں گی لیکن میری مراد ان محبتوں سے نہیں جو کبھی کبھار اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں اور آپ چائے کی چسکیوں کے ساتھ ان خبروں کے بھی چسکے لیتے رہے ہیں۔ کپتان اور مولانا کی ادھر ادھر کی گئی دیگر محبتوں کے علاوہ آپس کی محبت بھی لازوال ہے جس کے تزویراتی بندھن کی زنجیروں میں وہ دہائیوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس محبت کا آغاز ایک عظیم جنرل حمید گل کی سوچ کی گہرائی سے ابھرنے والے اس منطق سے ہوا کہ ملک کے سارے نوجوان جو کرکٹ کے دیوانے ہیں اور کپتان کے شیدائی ہیں اگر ان کو مولانا کے فلسفہ شہادت سے مہمیز کردیا جائے تو ان میں عقابی روح پیدا ہو سکتی ہے۔ مولانا نے جہاں اپنے حقانی دروازے دنیا بھر سے آنے والے نوجوانوں کے لئے کھول رکھے ہیں وہاں جانے کے لئے بھی ان کے دروازے ہمیشہ وا رہتےہیں تاکہ دنیا میں کہیں بھی جا کر نوجوان اس فلسفے پر عمل پیرا ہو سکیں۔ حقانی جذبے سے سرشار نوجوان اپنی شہادت کی اطلاع دنیا کے کسی بھی حصے سے حقانی مدرسے میں دے دیتے ہیں جہاں ان کا قل مدرسے کے وسیع و عریض میدان میں میٹھے چاولوں کے علاوہ ایمان افروز تقاریر کے ساتھ منایا جاتا ہے تاکہ ان کی کمی پورا کرنے کے لئے یہیں سے عشاق کے مزید قافلے تیار ہوں۔

کپتان اور مولانا کی لازوال محبت کی حالیہ کہانی جس میں مدرسہ حقانیہ کو ستاؤن کروڑ روپے پاکستانی سکہ رائج الوقت کی دو اقساط ادا کرنے پر ملک کے لبرل اور نام نہاد ملحد بلا وجہ سیخ پا ہیں۔ اعتراضات کی فہرست لے کر بیٹھے حاسدین کہتے ہیں کہ صرف مدرسہ حقانیہ اور مولانا کو ہی یہ رقم کیوں دی گئی ہے؟ ہم تو جان گئے ہیں اگر آپ کو معلوم نہیں ہے تو بتا دیتے ہیں کہ شبلی فراز نے کپتان کو بھی اپنے باپ کے فلسفہ محبت یعنی محبت میں بھی توحید کا قائل کردیا ہے جس کا اظہار ثانی الذکر نے صرف ایک ہی مولانا اور اس کے مدرسے کو نگاہ یار میں محبوب بنا کرکیا ہے۔ کسی ایک کو محبوب بنائے رکھنے کے سواد کو اہل وفا ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کچھ بابو لوگ یہ اعتراض لے کر بیٹھ گئے ہیں کہ ترقیات کے لئے مختص سرکاری پیسہ بغیر پی سی ون نامی دستاویز کی منظوری کے جاری نہیں ہوسکتا۔ یہ لوگ نہ جانے کن وقتوں کی بات کرتے ہیں، اب تو پیسہ جاری پہلے ہوتا ہے اور کاغذات بعد میں بنتے رہتے ہیں۔ اگر کاغذ نہ بھی ہو تو سرکاری خزانے سے پیسے فائل پر لگا کر نکالنے میں کیا چیز مانع ہوتی ہے۔ کپتان کو معلوم ہے کہ اگر پی سی ون نامی دستاویز جہاد اور جذبہ شہادت کے راستے میں رکاوٹ بن جائے تو یہ بھی مولانا کے ایک فتوے کی مار ہے۔

اعتراض کرنے والے اب یہ لے کر بیٹھ گئے ہیں کہ جامعہ حقانیہ کے لیٹر پیڈ پر شاہ فرمان بطور وزیر دستخط کر کے پیسے جاری کرنے کا فرمان جاری نہیں کر سکتا۔ اعتراض کرنے والے بھول گئے کہ ماضی میں سگریٹ کے پیکٹ یا ٹشو پیپر پر لکھ کر کروڑوں روپے ایسے عظیم مقاصد پر خرچ کرنے کے فرامین جاری ہونے کی نظائر سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ یہ تو پھر بھی عربی و انگریزی رسم الخط میں لکھا لیٹر پیڈ ہے جس پر اس سے بڑے احکامات اور فتاوے جاری ہوچکے تو اتنی معمولی سی رقم کاحکم کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ خیبر پختونخواہ میں ایک معمولی سی رقم کے لئے کئے گیا معاہدہ بھی پکے پیلے کاغذ پر معاہدہ کی رقم کی مالیت کے مطابق سرکاری ٹکٹ لگانے کے بعد ہوتا ہے مگر یہاں بات دوسری ہے۔ یہ رقم ایک عظیم مقصد کے لئے دی جارہی ہے جو سرکاری ٹیکس یا کسی بھی دوسری کٹوتی سے مبرا ہونے کے ساتھ عائلی قوانین کے بندھنوں سے بھی آزاد ہے۔

 یہ پیسے جن مقاصد کے لئے دئے گئے ہیں اس میں ایک مقصد حقانیہ تعلیم القران ہائی سکول کو ڈگری کالج کا درجہ دینا نمایاں ہے۔ عام حالات میں کسی سکول کو کالج اور پھر اس کو ڈگری کالج کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ویسے تو ملک بھر میں گریجویشن کو چارسال کا کرنے کے بعد ڈگری کالجوں کا معیار بھی بلند کرنے کا منصوبہ ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سکول واحد ہوگا جو میٹرک کے بعد ہی طلبہ کو گریجویشن کی ڈگری انرز کے ساتھ دے گا۔ ابھی یہ معلوم نہیں کہ اس کالج کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہوگا یا جامعہ حقانیہ ڈگری بھی بقلم خود مع دستار عطا کیا کرے گی۔

حقانیہ انسٹی ٹیوٹ فار ماڈرن لینگویجز (عربی، فارسی، انگلش، فرنچ چائنیز) کا قیام اس معاہدے کا حصہ ہے۔ ان زبانوں کو پڑھانے کے بعد ملک کا امیج بلند کرنے کے لئے ایک جدید کمپیوٹر لیب کے لئے بھی پیسے دئے جارہے ہیں جس میں بیٹھ کر یہاں کے بچے ان زبانوں میں دنیا کودرس اخلاق دیا کریں گے۔ ایک جدید سائنس لیبارٹری بھی اس رقم سے بنا دی جائے گی جہاں بچے کائنات کی وسعتیں تلاش کیا کریں گے۔ ویسے بھی ڈی این اے کی لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخواہ کی تبدیلی والی سرکار لاہور میں چوروں اور نااہلوں کی بنائی لیبارٹری کے محتاج ہیں مگر اب دارلعلوم حقانیہ کی جدید سائنس کی لیبارٹری سے نیک اور صالح سائنسدان ہر جرم کا ثبوت ڈھونڈ نکالنے میں صوبے کی مثالی پولیس کی مدد کیا کریں گے۔

مدارس میں جدت لانے کے لئے نئے علوم پڑھانے کے لئے میتھس، سائنس، سوشل سائنسز، پولیٹکل سائنسز، انٹرنیشنل لاء اور جغرافیہ کے مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ویسے تو میتھس کو ریاضی بھی کہتے ہیں جو عربی زبان کی وجہ سے ہمارے ہاں پہلے سے مستعمل بھی ہے مگر تعلیم میں جدت لانے کے اپنے مصمم ارادے کے اظہار کے لئے ان مضامین کا نام ااردو میں لکھنے کے بجائے بہ زبان انگریزی لکھا گیا ہے تاکہ لفظ سائنسز پر زور دیا جاسکے جیسا کہ علم سیاسیات میں وہ جدت نہیں جو پولیٹیکل سائنسز کہنے میں آتی ہے۔ ویسے تو سوشل سائنسز کے مضمون کو اردو میں عمرانیات بھی کہتے ہیں مگر کپتان نے محسوس کیا کہ ایسا لکھنے سے خود نمائی کا پہلو نظرآتا ہے لہذا انگریزی میں لکھ دیا جائے۔ جہاں تک قانون پڑھانے کی بات ہے تو ملک کے قانون کو پڑھانے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ یہ اینگلو سیکسن لاء ہے مگر سعودی، عرب، مصر اور ترکی کے قوانین پڑھانے سے قرون وسطیٰ کے قوانین میں جدت آتی ہے تو اس پر اعتراض کیوں کیا جانا چاہیئے؟

اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اس صوبے میں ایک ضلع کوہستان بھی ہے جہاں سکول ہے تو استاد نہیں اور استاد ہے تو سکول نہیں، اگر سکول اور استاد دونوں ہیں تو بچے نہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس صوبے کے دور دراز کے اضلاع مثلاً ٹانک، دیر کوہستان، چترال اور شانگلہ کے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کپتان کی ریلیوں اور دھرنوں میں زیادہ اور اپنے سکولوں میں کم حاضری دیتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر کہتے ہیں کہ شانگلہ کے ایک استاد نے تو نہ صرف باقاعدہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیتا بلکہ پانچ سال بھی پورے کئے۔

مولانا اور کپتان کی محبت نے دارلعلوم حقانیہ کو جدید خطوط پر ڈالنے کے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان کا ثمر آنے والے انتخابات میں نظر آنے شروع ہو جائے گا جب دیگر سیاسی جماعتیں بھی علماء اور مدارس کا ووٹ اور سپورٹ حاصل کرنے کے لئے ایسے معاہدے کریں گی اور بعض تو انتخابات جیتنے سے پہلے ہی رقوم کا اجرا بھی کریں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مولانا فضل الرحمان تو اپنے مدارس کو جدید خطوط پر ڈالنے کے لئے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ دونوں صوبوں کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کریں گے۔ مگر، اگر ایسا ہوا تو وہ کرپشن ہوگی جس کی سزا نااہلی ہوگی کیونکہ اس میں کپتان اور مولانا کی محبت شامل نہیں ہوگی۔

برصغیر میں تاج محل پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ شاہجہان نے اگر اس کے بجائے ایک یونیورسٹی یا جدید تعلیم کا ادارہ بنا دیا ہوتا تو آج ہم مغرب سے بہت آگے ہوتے۔ مولانا اور کپتان نے اپنی محبت کی یادگاردارلعلوم حقانیہ کو ایک جدید یونیورسٹی میں بدل کر شاہجہان کی اس کوتاہی کا ازالہ کیا ہے تو اس پر اعتراض کیوں۔ تاج محل کے بارے میں ایک دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ اگر منصوبہ بندی، ترقیات، مالیات اور اکاونٹ کے ادارے اور ان کے ضابطے شاہجہان کے دور میں ہوتے تو تاج محل کبھی نہ بن پاتا۔ مولانا اور کپتان نے اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان اداروں اور ان کے ضوابط کو ایک طاقچے میں رکھ کر ہی اپنی محبت کی یادگار کے کام کو آگے بڑھایا ہے۔ اگر ایک اعلیٰ مقصد کے لئے انگریزوں اور لادینوں کے بنائے قواعد و ضوابط کو چند دنوں کے لئے بالائے طاق رکھا جائے تو اس پر آپ کو اعتراض کیوں ہے؟

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan