نظام انصاف …چند معروضات


انصاف کی بنیادی شرط یہی ہے کہ یہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ بلا تفریق امیر و غریب طاقتور اور کمزور سب کے لیے برابر انصاف ہی انصاف کے نظام کی بنیادی شرط ہے۔ جہاں امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ نظام انصاف موجود ہو اسے انصاف نہیں کہا جاتا۔ اس لیے سب کے لیے یکساں نظام انصاف ہی انصاف کے نظام کی بنیادی شرط ہے۔

اس تناظر میں اگر ایک چور کو سزا دے دی جائے اور باقی چور آزاد پھریں تب بھی انصاف نہیں ہے۔ سب کو سزا ملنی ضروری ہے۔ نظام کی خرابی کے باعث اگر کوئی بچ بھی جائے تب بھی نظام انصاف کو ہر وقت یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتا اور ایک ترازو میں تولتا ہے۔ اسی لیے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے۔

انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی نظر آتی ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ جب تک طاقتور کو انصاف کے شکنجے میں نہیں جکڑا جائے گا کمزور کے ساتھ انصاف بھی نا انصافی ہی تصور ہو گا۔کچھ اسی قسم کی صورتحال اس وقت ملک میں عدلیہ کے ساتھ بھی ہے۔

عدلیہ بطور ادارہ ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن عدلیہ اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔ اگر آج عدلیہ کے ذمے داران اس ادارہ کی عزت اور وقار کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئے تو کل یہ ادارہ پاکستان میں اپنی ساکھ کھو دے گا۔ نظام انصاف اور عدلیہ کسی بھی مہذب معاشرہ کے بنیادی ستو ن ہوتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی اور عام آدمی کے حقیقی نگہبان ہوتے ہیں۔ کمزور طاقتور سے اپنا حق لینے کے لیے نظام اور عدلیہ سے ہی رجوع کرتا ہے۔ لیکن اگر کسی ملک میں عدلیہ ہی اپنا وقار کھو دے تو وہاں انصاف نا پید ہو جائے گا۔

گلی گلی متوازی نظام انصاف قائم ہو جائے گا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام آجائے گا۔ آج ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ملک کے نظام انصاف اور عدلیہ کو للکار رہی ہے۔ گلی گلی للکا رر ہی ہے۔ اس جماعت کی قیادت اپنے خلاف آنیو الے فیصلوں کے خلاف رد عمل میں عدلیہ اور نظام انصاف کو چیلنج کر رہی ہے۔ عدلیہ کی ساکھ کو متنازعہ کر رہی ہے۔ جلسوں اور جلوسوں میں ان کو للکارا جا رہا ہے۔

عدلیہ اور نظام انصاف کو سیاست کے میدان میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی عدلیہ اور نظام انصاف کی بقا اور ساکھ سب خطرہ میں آگیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کو نظام انصاف کی کارکر د گی کے حوالے سے پہلے ہی بہت سے خدشات اور تحفظات ہیں۔ مقدمات میں تاخیر کی وجہ سے لوگ نظام انصاف پر سوال کرتے ہیں ۔ ایسے میں اگر اس کی ساکھ بھی چلی گئی تو باقی کچھ نہیں بچے گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے۔ عدلیہ نے اسی لیے توہین عدالت کے حوالہ سے اپنا رویہ نہایت سخت کر دیا ہے۔ یہ اعلان کر دیا ہے کہ اب توہین عدالت کرنے والوں کو معافی مانگنے پر بھی معافی نہیں دی جائے گی۔ غیر مشروط معافی کا راستہ بھی بند کر دیا ہے۔ دیکھیں نہال ہاشمی کو سخت سزا دی گئی ہے۔ جیل بھیج دیا گیا ہے۔ دو وفاقی وزراء طلال چوہدری اور دانیال عزیز جو بے وجہ بہت زیادہ بولتے تھے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن رہے تھے۔

سیاسی طور پر غیر اہم ہوتے ہوئے بھی اہم بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھیں بھی توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے گئے۔ کیا یہ کافی نہیں۔ لیکن اگر صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ کافی نہیں ہے۔ صورتحال ویسے کی ویسی ہے۔ عدلیہ کی ساکھ پر حملہ کی شدت میں کمی نہیں آئی ہے۔ صورتحال صاف ظا ہر کر رہی ہے کہ عدلیہ کی جانب سے اپنی حفاظت کے لیے کیے جانے و الے اقدمات ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ توہین عدالت کے قانون کے حوالے سے نرمی برتی جا رہی ہے۔جو اس ساری گیم کے ذمے دار ہیں ان کو توہین عدالت کے نوٹس نہیں دیے جا رہے۔ چھوٹے موٹے مہروں کے مرنے سے یہ لڑائی ختم نہیں ہو گی۔ ان کی سیاست داؤ پر ہے، انھیں نہال ہاشمی دانیال عزیز او ر طلال چوہدری کو سزا ہونے کی کیا پرواہ۔ بلکہ وہ اس کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کریں گے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن اس لڑائی میں یہ نظا م زمین بوس ہو جائے گا۔ عدلیہ کو بہت سخت اور مثالی فیصلوں کے ساتھ سامنے آنا ہو گا۔ عدلیہ پر تنقید کے زمرے میں آنے والے ہر قسم کے بیانات پر پابندی لگنی چاہیے۔ الفاظ سے اور عوام کے جذبات سے کھیلنے کی اس طرح اجازت نہیں دی جا سکتی۔

لیکن صرف یہ کافی نہیں ہو گا۔ عدلیہ کو عوام میں اپنا وقار اور ساکھ قائم رکھنے کے لیے اپنے اندر بنیادی اصلاحات کرنا ہو ںگی۔ اب مزید تاخیر اس نظام کو زمین بوس کر دے گی۔ مقدمات میں تاخیر اور تاریخ پر تاریخ کے کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے بھی ایک یکساں پالیسی کے ساتھ سامنے آنا ہو گا۔ ایسے نہیں چلے گا کہ طاقتور کو تو تاریخ مل جائے اور کمزور کو نہ ملے۔ طاقتور نظام سے بچنے کی راہ تلاش کر لے لیکن کمزور پھنس جائے۔

گزشتہ دنوں محترم چیف جسٹس صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم جیوڈیشل کونسل کی کارکردگی میں تیزی لائی جا رہی ہے۔ اور زیر لتوا ریفرنسز کو نبٹایا جا رہا ہے۔ یہ نہایت خوش آیند ہے۔ عدلیہ کو اپنے اندر ایک متحرک نظام انصاف پیدا کرنا ہو گا تا کہ یہ سوال پیدا نہ ہو سکے کہ عدلیہ کے احتساب کا بھی کوئی بیرونی نظام ہونا چاہیے۔

محترم چیف جسٹس نے بتایا کہ ایک جج صاحب کے خلاف اس بات پر ریفرنس تھا کہ ان کے فیصلوں میں تضاد تھا۔ اس بات سے قطع نظر کے وہ کون جج صاحب تھے اور کیا تضاد تھا۔ تضاد کے کیاقانونی پہلو تھے۔ لیکن فیصلوں میںتضاد کے حوالے سے بھی بہت سخت پالیسی ہونی چاہیے۔ ایک جیسے مقدمات میں اگر امیر کو ریلیف مل جائے کیونکہ اس نے وکیل اچھا کیا اورغریب کو نہ ملے کیوںکہ وہ اچھا وکیل نہ کر سکا، انصاف نہیں کہلائے گا۔ ضمانت کے مقدمات میں اکثر ایسا ہو تا ہے کہ ایک جج صاحب کے بارے میں عام رائے ہوتی ہے کہ وہ ضمانت منظور کر لیتے ہیں جب کہ دوسرے جج صاحب کے بارے میں عام رائے یہ ہوتی ہے کہ وہ ضمانت کے معاملے میں سخت ہیں۔ یہ بھی انصاف کے تصور کے برعکس ہے۔

مجھے امید ہے کہ محترم چیف جسٹس پاکستان کو حالات کی سنگینی کا ادارک ہو گا۔ ایسے میں یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف توہین عدالت کے قانون پر سختی سے بھی معاملات مکمل حل نہیں ہوںگے۔ یہ وقتی ریلیف ہو گا۔ بالا آخر عدلیہ کو ملک میں نظام انصاف کے اندر اصلاحات لانی ہوںگی۔ مقدمات کو جلد از جلد نبٹانے کی کوئی نہ کوئی راہ تو تلاش کرنی ہو گی۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).