پھر عزیز ہم وطنو ؟


”مکافات عمل“ والی بات بہت پرانی ہو گئی۔ اصل شے Big Picture ہوا کرتی ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد سیاسی عمل کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی بآسانی دریافت کر سکتا تھا کہ ہماری ریاست کی سیاسی گیم طے کرنے والے اب ان چہروں سے اُکتا چکے ہیں جو 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سے اقتدار کے کھیل پر چھائے ہوئے تھے۔

سیاسی عمل میں لوگوں کے دل جیتنے میں اہم کردار ”بیانیہ“ ادا کرتا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری کی اپنے منصب پر بحالی کے بعد سے ”بیانیہ“ یہ بناکہ ہمارے سیاست دان ”چور اور لٹیرے“ ہوا کرتے ہیں۔ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر اسمبلیوں میں آجاتے ہیں۔ اہم سرکاری ملازمتوں پر اپنے چہیتوں کو فائز کرواتے ہیں اور وحشیانہ انداز میں قومی دولت کو سمیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ قوم کی لوٹی دولت غیر ملکی بینکوں میں جمع کروائی جاتی ہے یا اس کے ذریعے دوبئی اور لندن جیسے شہروں میں قیمتی جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ اس بیانیے کو افتخار چودھری نے بہت مہارت کے ساتھ خود کو وہ مسیحا ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جس کا ہم اپنے معاشرے کے بے رحم احتساب کے لئے برسوں سے انتظار کر رہے تھے۔ شومئی قسمت کہ بالآخر وہ مسیحا بھی ارسلان کا ابو ہی ثابت ہوا۔
”چوروں اور لٹیروں“ کے خلاف برپا سیاپا فروشی ہی نے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے لئے وسیع تر Space پیدا کی۔ 2011 کی آخری سہ ماہی میں لاہور کے مینارِ پاکستان پر ایک پرہجوم و پرجوش جلسے کے ذریعے انہوں نے بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف جہاد کا آغاز کر دیا۔

جہاد میں فوری کامیابی ممکن نہیں ہوتی۔ پاکستان خود کو ”جمہوری“ مملکت کہلوانے کا ویسے بھی بہت شوقین ہے۔ بروقت انتخابات اس شوق کی تسکین کے لئے ضروری ہیں اور انتخاب لڑنے کی اپنی ایک مخصوص Dynamics ہوتی ہے۔ 1980 کی دہائی سے ملکی سیاست میں وارد ہوا شریف خاندان اس کی باریکیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ 2013 کے انتخابات وہ جیت گیا۔ وفاق اور پنجاب میں بھائیوں کی جوڑی نے اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔

شریف خاندان معاشی ترقی کو پاکستان کا اصل ”بیانیہ“ سمجھتا ہے۔ اسے Mega منصوبے بنانے کا جنون ہے۔ موٹروے، ہائی ویز، انڈر اینڈ اوورہیڈ پل اور سگنل فری سڑکیں وغیرہ۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اسے گھروں میں بیٹھے صارفین ہی کے لئے نہیں بلکہ صنعتوں کو رواں کرنے کے لئے بھی درکار ہے۔ ان سب منصوبوں کو محض مقامی سرمایے سے لیکن پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ صد شکر کہ اپنا یار چین ان دنوں One Belt One Road کے نام پر دنیا بھر کے کئی ممالک میں بھاری بھر کم سرمایہ کاری کو تیار ہے۔ اس کا صوبہ سنکیانگ ویسے بھی گوادر سے ملانا ضروری تھا۔ چینی سرمایہ کاری آئی۔ اس کی بدولت ہمارے معاشی منظر نامے پر رونق بھی نظر آنا شروع ہو گئی۔ ٹی وی سکرینوں پر لیکن کرپشن کے خلاف جہاد کا بیانیہ ہی چھایا رہا۔ سیاست دانوں میں عمران خان اس بیانیے کے واحد ترجمان نظر آئے۔

کرپشن کے خلاف برپا کئے طوفان ہی نے بالآخر ریاست کے دائمی اداروں میں موجود سماج سدھار مشنریوںکو یہ اخلاقی قوت پہنچائی کہ وہ اپنے تئیں ”گڈ گورننس“ کے لئے اقدامات اٹھائیں۔ آغاز اس عمل کا سندھ سے ہوا۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری۔ ماڈل ایان علی کی رسوائی اور بالآخر ایم کیو ایم کی شکست وریخت۔ ”گڈ گورننس“ کی خاطر سندھ میں اٹھائے ان تمام غیر معمولی اور انقلابی دِکھنے والے اقدامات کا نواز شریف کی وفاقی حکومت نے دل وجان سے خیر مقدم کیا۔ کئی حوالوں سے بلکہ وہ ان اقدامات کی سہولت کار بھی نظر آئی۔

سندھ میں اپنے سیاسی مخالفین کی رسوائی اور بے بسی کا حظ اٹھاتے ہوئے نواز حکومت نے غالبکی طرح یہ سوچنے کی کوشش ہی نہ کی کہ ”کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد“۔ وہ غافل رہے اور اپریل 2016 میں پانامہ ہو گیا۔ اس کے بعد والے واقعات حالیہ تاریخ ہیں۔ انہیں کیا دہرانا۔

تازہ ترین قصہ یہ ہے کہ پنجاب میں احد چیمہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اپنی تفیش کے دوران وہ شہباز شریف کے بارے میں ”سب کچھ بتا دیں گے“۔ طوطے میں جان۔ ویسی ہی ایک اور کہانی جو کبھی ڈاکٹر عاصم کے بارے میں سنائی جاتی تھی۔ وہ پوری طرح قابو نہ آئے تو خبر آئی کہ آصف علی زرداری کی ”جان“ کا حامل ایک اور ”طوطا“ عزیر بلوچ گرفتار ہو گیا۔ عزیر نے اپنی تفتیش کے دوران ریاست کے دائمی اداروں کو جو کچھ بتایا وہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ہے۔ شاید احد چیمہ سے متوقع کہانیاں اپنا رنگ دکھا دیں تو کھیل کے آخری راﺅنڈ میں عزیر بلوچ کو بھی میدان میں لانا پڑے۔

بات ویسے بھی بیانیے کی ہو رہی تھی۔ کرپشن کے خلاف برپا ہماری ٹی وی سکرینوں اور ذہنوں پر کئی برسوں سے چھائے بیانیے کے خلاف نواز شریف نے ”مجھے کیوں نکالا“ کی دہائی مچا دی۔ اس دہائی نے کم از کم پنجاب میں بہت اثر دکھایا۔ 1985 سے نواز شریف کو ووٹ دینے والا مسلم لیگی ووٹر قائل ہو گیا کہ موصوف کے ساتھ انصاف نہیں زیادتی ہو رہی ہے۔ اس بیانیے کے ساتھ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ آئندہ انتخابات میں جاتی تو واحد اکثریتی جماعت بن کر ضرور ابھرتی۔
”مجھے کیوں نکالا“ کی دہائی ہی نے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کو تتر بتر نہ ہونے دیا۔ امید اس کے اقتدار کے عادی افراد کے دلوں میں یہ بھی بندھی کہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد ”اداروں“ کی جی حضوری کے قائل ہوئے ان کے موقع شناس بھائی شہباز شریف معاملات کو کسی نہ کسی صورت سنبھال لیں گے۔ ”لوٹا“ کہلانے کی تہمت اپنے سر کیوں لی جائے۔

نواز شریف کی نااہلی کے بعد ذاتی طور پر میں کبھی اس کہانی کا حامی نہیں رہا کہ نواز شریف کو ہٹا کر شہباز شریف کو لایا جا رہا ہے۔ کرپشن کے خلاف بنائے بیانیے میں ”موروثی“ کا لفظ بھی مستقل استعمال ہوا تھا۔ ”چوروں اور لٹیروں“ کے مبینہ سرپرستی والے سیاسی نظام کو ختم کرنا ہے تو ”موروثی“ کی بھی گنجائش نہیں۔ صرف انتظار مناسب وقت کا ہو رہا تھا۔ فروری 2018 ختم ہونے کے قریب وہ وقت آ گیا۔ احد چیمہ گرفتار ہو گئے۔ ”طوطے میں جان“ والی کہانی شروع ہو گئی۔

اس کہانی کے سحر میں مبتلا ہم لوگوں کو یاد ہی نہیں رہا کہ مارچ 3 کو سینٹ کی 52 نشستوں پر انتخاب ہونا ہے۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ وفاق اور پنجاب میں برسراقتدار ہے۔ پنجاب اسمبلی میں لیکن قانونی اعتبار سے نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کا کوئی امیدوار ہی نہیں۔ نااہل ہوئے نواز شریف نے جنہیں نامزد کیا تھا وہ اب ”آزاد“ امیدوار ہو چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کی نشستوں پر بیٹھے افراد اب اپنے ”ضمیر“ کے مطابق ووٹ ڈالیں گے۔

شہباز شریف کی ”گڈ گورننس“ ہمیشہ افسر شاہی کے ذریعے Deliver ہوتی رہی ہے۔ ان کے چہیتے افسر مگر اب ہونٹوں پر پریشانی سے زبانیں پھیرتے منتظر ہیں کہ احد چیمہ کے بعدکسے اٹھایا جائے گا۔ افراتفری کے اس ماحول میں کسی افسر کے پاس فرصت نہیں کہ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ سے وابستہ اراکین پنجاب اسمبلی کو گھیرے میں رکھے اور انہیں ان امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کریں جنہیں ٹکٹ تو نواز شریف نے دیا تھا مگر اب وہ ”آزاد“ ہو چکے ہیں۔
احد چیمہ کی گرفتاری بروقت ٹائمنگ کے ساتھ ترپ کی بہت بڑی چال ہے۔ اس نے ”مجھے کیوں نکالا“ والے بیانیے کو بھلا دیا ہے۔ جوابی وار کے لئے شریف برادران کو اب کوئی نئی چال سوچنا ہو گی۔ میرے ذہن میں آئی ممکنہ چالوں کی سب صورتیں مگر اس طرف بڑھتی نظر آتی ہیں جس کے اختتام پر شہ مات نہیں ”میرے عزیز ہم وطنو“ ہوا کرتا ہے۔ ترجیح نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کی لیکن اب بھی ”نیویں نیویں“ ہو کر ”بُرا وقت“ گزارو والی نیم مردہ دِکھتی چال ہو گی۔ اس کا انجا م اگرچہ ”سو پیاز اور سو جوتے“ ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).