میں نے بغیر شادی کے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟


جب محبت ہوئی تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ وہ غیر ملکی ہے، نہ تو میرا ہم مذہب ہے اور نہ ہی ہم ذات۔

لیکن ابھی ہمارے لو ان ریلیشنز کو ٹوٹے ہوئے صرف ایک ماہ کا وقت گزرا تھا کہ مجھے پتہ چلا میں حاملہ ہوں اور اس کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔

میرے دوستوں نے کہا کہ میں پاگل ہو گئی ہوں کیونکہ میں 21 سالہ کنواری لڑکی تھی اور بچہ پیدا کرنا چاہتی تھی۔

میں نے بھی محسوس کیا کہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔ دل گھبرا رہا تھا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہو۔ لیکن جو برا ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔

میں 19 سال کی تھی جب میں مصطفی سے پہلی بار ملی تھی۔ شمال مشرقی ریاست کے اپنے چھوٹے شہر کو چھوڑ کر میں نے ملک کے دوسرے سرے پر ایک بڑے شہر میں کال سینٹر میں کام شروع کیا تھا۔

مصطفی افریقی نژاد تھا۔ وہ ‘ٹال، ڈارک اینڈ ہینڈسم’ کے درجے میں فٹ آتا تھا۔ میرا جوان دل اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ ایک ڈیڑھ سال کی دوستی کے بعد ہم نے ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا۔

میں مسیحی ہوں اور وہ مسلمان۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت بھی تھی لیکن شادی کے بارے میں سوچنے کی جرات دونوں میں نہیں تھی۔

ہم خوابوں کی اس دنیا میں رہ رہے تھے جہاں مستقبل کے بارے میں کچھ سوچنا بے معنی سا لگتا ہے۔ اس کے بہت سے دوست تھے جو ہمیشہ ہمارے گھر آتے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہنستی اور کھل کر بات کرتی تھی۔ پتہ نہیں مصطفی کے دل میں کیسے شک گھر کرنے لگا۔ اسے یہ لگنے لگا کہ میرا اس کے دوستوں کے ساتھ بھی افیئر ہے اور اس بات پر ہماری لڑائیاں ہونے لگیں۔

آہستہ آہستہ سب کچھ اتنا تلخ ہو گیا کہ ہمارے شب و روز ایک دوسرے پر چیخنے چلانے میں گزرنے لگے۔ میں بہت اداس رہنے لگی۔ میں گھنٹوں روتی رہتی اور اس کا اثر میرے کام پر بھی پڑنے لگا۔ میری ملازمت جاتی رہی۔

میں نے گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے اس چھوٹے سے اپارٹمنٹ اور اس سے منسلک یادوں سے دور جانا چاہتی تھی۔

لیکن میری تمام منصوبہ بندی ناکام ہوگئی تھی جب اس ماہ مجھے پیریئڈ نہیں ہوئے۔ پاس کی ایک دکان سے حمل جانچنے والی کٹ لی اور گھر آ کر جانچ کی تو میرا ڈر درست نکلا۔ نتیجہ ‘مثبت’ تھا۔

مصطفی کے ساتھ رہنے کے بعد دوسری بار حمل ٹھہرا تھا۔ پہلی دفعہ اس کے دباؤ میں حمل ضائع کر دیا تھا لیکن اس بار۔۔۔۔

میں نے مصطفی کو فون کیا اور ایک کیفے میں بلایا۔ آمنے سامنے بیٹھ کر جب اسے بتایا تو وہ مجھ پر ہی چیخنے لگا کہ میں نے احتیاط کیوں نہیں برتا۔

اس نے مجھے سینکڑوں وجوہات بتائیں اور حمل ضائع کردینے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ تک کہہ دیا کہ وہ کیسے یقین کرے کہ یہ اسی کا بچہ ہے۔ لیکن میں بضد تھی۔ جب پہلا بچہ ضائع کیا تھا ایسا لگتا تھا جیسے میں نے کسی کو قتل کیا تھا۔ مجھ میں اپنے بچے کو دوبارہ قتل کرنے کی جرات نہیں تھی۔ ایسا نہیں کہ مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ میرے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

میں شادی شدہ نہیں تھی اور نہ میرے پاس کوئی اچھی ملازمت تھی۔ بچے کا باپ تو اسے اپنا ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی خیال آ رہا تھا کہ شاید خدا مجھے نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دے رہا ہے۔ اب تک میں ایک لاپروا نوجوان کی زندگی گذار رہی تھی۔ کسی کو اعتماد نہیں تھا کہ میں ایک بچے کو پال سکوں گی۔

میں بھی جانتی تھی کہ میرا راستہ آسان نہیں تھا لیکن اب میرے پاس ذمہ دار ہونے کا ایک سبب تھا۔ میرے پیٹ میں پلنے والے بچے کی محبت مجھے اسے اس دنیا میں لانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اپنے گھر والوں کو اس کے بارے میں بتایا۔ وہ مصطفی سے پہلے سے ہی واقف تھے لیکن میرے حاملہ ہونے کی بات سن کر وہ بہت ناراض ہوئے۔

اس بات سے وہ ناراض نہیں تھے کہ میں شادی سے پہلے ماں بننے والی تھی بلکہ اس بات سے زیادہ ناراض تھے کہ وہ ایک سیاہ فام، غیر ملکی اور ہماری ذات کے باہر کے شخص کا بچہ ہے۔ میں نے ان کی یقین دہانی کی کہ میں خود سب کچھ سنبھال لوں گی۔ انھوں نے بھی مدد کے لیے دوبارہ نہیں پوچھا تھا۔

ایسی مشکل گھڑی میں میری ایک دوست نے بہت مدد کی۔ اسی کی سکوٹر چلاتے ہوئے میں طبی جانچ کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتی تھی۔

اپنے اخراجات کے لیے میں نے ایک دکان میں سیلز گرل کی نوکری کر لی۔ اس دوران، مصطفی مجھے منانے کی کوشش کرتا رہا لیکن میرا فیصلہ مستحکم تھا۔ بچے کی ولادت کے دن میری دوست مجھے سکوٹر ہسپتال لے گئی۔ ایک گھنٹے بعد آپریشن سے بچہ پیدا ہوا۔

جب مجھے ہوش آیا تو بچہ میری دوست کی گود میں تھا اور ڈاکٹر میرے پاس کھڑی مسکرا رہی تھی۔ میں بہت خوش تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے۔ شام کو مصطفی بھی ہسپتال پہنچا۔ اس نے بچے کو گود میں اٹھایا اور اپنے دوستوں کو فون پر بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔

مصطفی اتنا خوش دیکھ کر میں حیران تھی۔ لیکن وہ اب بھی اپنے خاندان کو اس کے بارے میں بتانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔
اس نے ایک بار پھر سے تعلقات شروع کرنے کے بارے میں بات کی۔ وہ بھی بچے کو مسلمان نام دینا چاہتا تھا۔ لیکن میں نے انکار کر دیا اور اپنے بچے کو مسیحی نام دیا۔

میں مصطفی پر یقین نہیں کر پا رہی تھی۔ چند دنوں کے بعد میری ماں اور کزن بھی میرے پاس آ گئیں۔ اب میں اکیلے نہیں تھی۔ اگلے سال مصطفی اپنے ملک لوٹ گیا اور پھر میری زندگی میں کبھی نہیں آیا۔

اب میں 29 سال کی ہوں اور میرا بیٹا چھ سال کا ہونے والا ہے۔ وہ بہت مشکل تھا لیکن میں اب اسے پالتے پالتے اور بھی بے خوف ہو گئی ہوں۔ میں لوگوں کو بے جھجھک بتاتی ہوں کہ میں نے شادی نہیں کی اور میرا بیٹا ہے۔ میں نے اسے بتایا ہے کہ اگر کوئی اس سے باپ کا نام پوچھے تو وہ انھیں ‘مصطفی’ بتائے۔

مجھے اپنے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ میں خوش ہوں میرا بیٹا میری ماں کے گھر میں رہتا ہے کیونکہ میں یہاں اپنا کریئر بنا رہی ہوں۔ اب میں پارٹیوں میں یا خاص مواقع پر گانا گاتی ہوں۔ پیسہ جمع کر کے اپنے بیٹے کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ وہ بہت ہی پیارا بچہ ہے۔

مصطفی کے ساتھ میرا رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے لیکن وہ ہمیشہ خاص رہے گا۔ اس رشتے سے میں نے جینا سیکھا ہے۔ میں سب کچھ بھول کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں دوبارہ محبت کرنا چاہتی ہوں۔ شادی بھی لیکن کوئی جلدبازی نہیں ہے۔ اگر قسمت میں ہے تو یہ بھی ہوجائے گا۔

(یہ شمال مشرقی ریاست کی ایک خاتون کی سچی کہانی ہے جو انھوں نے بی بی سی نمائندہ سندھو واسنی سے کی۔ خاتون کی خواہش پر ان کا نام ظاہر نہیں کیا گيا ہے۔ اس سیریز کی پروڈیوسر دیوہ آریہ ہیں۔)

اس سیریز کے دیگر حصےمیں غیر مردوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر فلرٹ کرتی ہوںبستر میں جبر کرنے والے شوہر کو میں نے چھوڑ دیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp