ایف آئی آر کے بارے میں چند حقائق


عوام کو بلاتخصیص امیر و غریب انصاف کی فراہمی ریاست کی اہم ذمے داریوں میں شامل ہے جس سے مثالی معاشرہ اور امن و امان کی فضا قائم ہوتی ہے لیکن پاکستان کے عوام کی یہ بدنصیبی ہے کہ یہاں جلد انصاف کی فراہمی تو دور کی بات انصاف کے تقاضوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے عوام کو قانونی پیچیدگیوں اورسسٹم میں اس طرح پھنسا دیا جاتا ہے کہ انصاف کے متلاشی اپنا حق حاصل کرنے میں دنیا سے گزر جاتے ہیں لیکن انصاف سے محروم رہتے ہیں۔

میڈیا پر کسی بھی واقعے کی بریکنگ نیوز  3منٹ کے اندر نشر ہوجاتی ہے لیکن ایف آئی آر درج ہونے میں 4 دن لگتے ہیں، ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا نقصان غریب اور کمزور کو ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جہاں کیمرہ 3 منٹ میں پہنچ جاتا ہے وہاں پولیس کیوں نہیں پہنچتی؟ سب کے سامنے ایک واقعہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی ایف آئی آر کٹنے میں  4 دن لگ جائیں تو اس تاخیر کا ذمے دار کون ہے؟

جرم کہیں بھی سرزد ہو جائے اس کو ریکارڈ پر لانے اور انصاف کے پروسیجر کا آغاز کرنے کے لئے جو پہلی دستاویز بنتی ہے اسے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ(FIR) کہا جاتا ہے۔ بظاہر تو یہ ہر فریادی کی فریاد کو فوراً لکھ کر اس پر کارروائی کا آسان سا عمل ہے مگر ہمارے ہاں یہ پہلی دستاویز ہی بہت سارے تکلیف دہ عوامل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آپ کو کہیں تو شکایت ملتی ہے کہ مہینوں دھکے کھانے کے بعد بھی درج نہیں ہو سکی اور کہیں چند منٹوں میں جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق درج ہو جاتی ہے

۔ کسی وقوعہ کے فوراً بعد سفارش، رشوت اور دباؤکے ذریعے اپنی مرضی کی ایف ای آر بنوانے یا رکوانے کے لئے دوڑ دھوپ شروع ہو جاتی ہے آپ کو سوسائٹی میں اسی طاقت وار لوگ بھی نظر این گے جو دن کو رات اور رات کو دن میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذاشروع سے ہی مقدّمات کی مضبوطی یا کمزوری کا دارومدارمیں ان عوامل کے اثرات پر ہوتا ہے اور یہی عوامل اس کے فوری، بدیر یانہ مرتبکیے جانے کا سبب بنتے ہیں۔

۔ اگرچہ قانون موجود ہے مگر عملاً جھوٹی ایف آئی آر کروانے والے، جھوٹے گواہ اور غیر منصفانہ فیصلے دینے والے منصف کے خلاف کارروائی پہاڑ سے ٹکرانے کے مترادف ہے لہٰذا عدالتوں میں 80 فیصد ایف ای آر بے خوف و خطر جھٹلا دی جاتی ہیں بے

۔ دوسرا پہلو ایف آئی آر کے بعد کی کارروائی کاہے۔ جونہی کسی نے کسی کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی، الزام علیہ سے مجرموں کا سا سلوک شروع ہو جاتا ہے۔ اسے فوراً گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر تفتیش شروع ہوتی ہے۔ اس دوران اس کیبزرگی، شہری حقوق اور وقار ختم ہو جاتا ہے۔ تفتیش ایک آدھ دن میں تو ہونے سے رہی، لہٰذا اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں پر اسے قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک سہنا پڑتا ہے۔ حتی کہ ڈھیر سارا خرچہ کرنے کے بعد اس کی ضمانت ہوتی ہے اور تب جا کر وہ پھر سے اپنے مقام پر واپس آتا ہے۔ پھرشامل تفتیش رہتا ہے

قانون کا طالب علم ہونے کے ناطنے ایف آئی آر کے سسٹم میں بہتری کے لئے چند ایک تجاویز ہیں۔ قارئین کی تجاویز کو بھی سراہا جائے گا۔
ہر تھانے میں ایک جوڈیشل مجسٹریٹ تعینات کیا جائے۔ فریادی سب سے پہلے اس کے سامنے پیش ہو کر جو کچھ اور جتنا زیادہ لکھنا یا لکھانا چاہے اسے حرف بہ حرف ضبط تحریر میں لا کر ہر صفحہ پر اس کے دستخطوں اور نشان انگوٹھا کے بعد عدالتی مہر ثبت کر دی جائے۔ اس کی مصدقہ تین کاپیاں بنیں۔ ایک مدعی کودے دی جائے ایک عدالت کے ریکارڈ میں رہے اور ایک پولیس کے حوالے کر دی جائے۔ پولیس کے لئے اس مصّدقہ بیان کو FIR کے ساتھ منسلک کرنا لازم ہو تاکہ پہلی عدالت سے آخری اپیل تک مدعی کا پہلے دن کا لفظ بہ لفظ بیان ہر جج کے سامنے ہو اوراور اس طرح انصاف کو تسلسل مل سکے

اسکے علاوہ جب پولیس خود کسی کے خلاف درج کرنا چاہے تو مدعاعلیہ، مال مقدمہ اور وقوعہ کی ابتدائی شہادتیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے اس سسٹم کو اپنائے۔ اس طرح جھوٹے مقدمات اور غلط برآمدگی وغیرہ پر بھی کنٹرول کیا جا سکے گا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کے تھانے میں بیٹھنے سے ضمانت، سپرداری، بیان حلفی وغیرہ کے حصول میں پائی جانے والی پبلک کی بہت ساری تکالیف، الزام علیہ کی فوری تذلیل اور وقت کے ضیاع کا ازالہ ہوسکے گا۔ ایک اور بات جو آج کا موضوع تو نہیں مگراسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وہ یہ کہ فیصلے کے وقت جن مدعیان اور گواہوں کو عدالت جھوٹا ڈکلئیر کردے اگر انہیں وہیں گرفتار کر کے ان کے ٹرائل کی ذمہ داری حکومت لے لے، تو عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بھی تیسراحصہ رہ جائے گا۔

ہم ایک کمپرومائزڈ سوسائٹی ہیں لہٰذا پولیس سے لے کر عدالتوں تک لوگ بے اعتمادی اور بے چینی کا شکار ہیں۔ یہ اضطراب مائل بہ فساد کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ گواہ مجبور اور گواہیاں کمزور تر کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟ طاقتور اور مجرم احاطہ عدالت میں وکٹری کا نشان بناتے اور معصوم فریادی سہمے کیوں نظر آتے ہیں؟ کیا اس کیفیت کو کوئی معاشرہ زیادہ دیر تک بر داشت کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ہمیں آج نہی تو کل اپنے اداروں کی اصلاح اور بہتری کرنی ہو گی

انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی غفلت و لاپروائی اور قانونی موشگافیوں کے باعث عوام کا سسٹم سے اعتبار تو اٹھ ہی رہا ہے، اس پر مستزاد پولیس کے محکمے میں سیاسی بھرتیوں، رشوت ستانی، ڈنڈا کلچر نے بھی عوام کو متنفر کردیا ہے۔ سسٹم کی اس خرابی کا احساس عدالتوں میں بیٹھے محترم جسٹس صاحبان کو بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سے متعلق ایک مقدمے میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ اس دور میں انصاف ملنا تو کجا غریب کی رپٹ درج ہونا ہی کمال ہے۔
۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya