ناموری اور گم نامی کے دو دھارے سمیٹتی ہوئی ایک کتاب


فلمی دنیا یاد رکھتی ہے تو دیوانہ وار اور بھلانے پر آجائے تو انتہائی سفاک۔ کتنے ہی اداکار، اداکارائیں، گلوکار، گانے والیاں، دُھنیں بنانے والے کچھ دیر کے لیے چمک دمک دکھا کر گمنامی اور کسمپرسی کے اندھیروں میں غائب ہو گئے۔ بہت سی عبرت ناک کہانیاں پڑھنے اور سننے میں آئی ہیں۔ ویسے آخر میں مفلس اور خراب ہونے میں دور اندیشی کے فقدان کا بھی دخل ہے۔ جب تک مال و دولت کی ریل پیل رہتی ہے اور فلموں کے ذریعے سے شہرت برقرار تو آنے والے دنوں کے لیے پس انداز کرنے کی نہیں سوجھتی۔ جب آنکھیں کھلتی ہیں تو زمانے کی آنکھیں بدل چکی ہوتی ہیں۔ اس موضوع پر سب سے سبق آموز نظم روبرٹ فروسٹ نے لکھی ہے۔ تاہم اسے درج کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔

سلیم الرحمن شاعر اور افسانہ نگار ہونے کے علاوہ کن رس بھی ہیں۔ ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں انھیں فلمی دنیا سے وابستہ بہت سے افراد سے ملنے کے مواقع بہم آئے۔ کچھ انھیں دیکھا اور سنا، کچھ ان کی زبانی اوروں کے بارے میں سنا۔ ان یادوں کو سمیٹ کر انہوں نے یہ کتاب مرتب کر دی۔ یہ نہیں کہ جن ماہرِ فن کے بارے میں سنا، ان یادوں کو سمیٹ کر انہوں نے یہ کتاب مرتب کر دی۔ یہ نہیں کہ جن ماہرفن خواتین و حضرات کا یہاں ذکر ہے وہ سب گم نام ہیں۔ بھلا فریدہ خانم، سلمیٰ بیگم، نذیر بیگم، زبیدہ خانم، میاں شہریار اور عزیز میرٹھی سے فلموں اور بالخصوص موسیقی اور گیتوں کے شائیقن کو کیسے ناواقف قرار دیا جا سکتا ہے! البتہ بعض نام ایسے ہیں جن کا پتا نہیں چلتا کہ آخر ان پر کیا بیتی اور نام و نشان کیوں نہیں ملتا۔

شانتا ہبلیکر، کمل داس گپتا اور سنیہل بھاٹکر کا ذکر میں نے اس کتاب میں پڑھا۔ اس کا ذمے دار میں اپنی ناواقفیت کو ٹھیرا سکتا ہوں۔ لیکن بعض گانے والیوں کا منظر سے بالکل غائب ہو جانا عجیب لگتا ہے۔ مثلاً پکھراج پپو کو لے لیجیے۔ وہ 1965ء تک بطور گلوکارہ فعال تھیں۔ اس کے بعد وہ کہاں گئیں، زندہ ہیں یا نہیں، اس کا سراغ سلیم الرحمن تمام تر کوشش کے باوجود نہ لگا سکے۔ اس طرح مسو بائی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’کون تھیں، کہاں گئیں؟ کیا ہوئیں؟ سٹیج، ریڈیو، گراموفون۔ ان سریلے اشجار کی ٹہنیوں پر آکر کب چہکیں؟ پھر کیا ہوا؟‘‘ مینا لودھی کا اب نام بھی سننے میں نہیں آتا۔ وہ بد قسمت ثابت ہوئیں۔ چھبیس برس کی تھیں کہ ایک حادثے میں جاں بحق ہوئیں۔ نام تو اور بھی بہت سے ہیں۔ مصنف نے خود لکھا ہے: ’’ابھی مجھے اقبال بیگم عرف بالو، اقبال بیگم لاہور والی، اقبال بیگم لائل پور والی، زینت بیگم لاہور والی، دلشاد بیگم، نسیم اختر، انیقہ بانو، زمرد بانو، لیلیٰ ارجمند بانو، مدھو الماس، نذیر بیگم قصور والی، زاہدہ خاں لاہور والی۔۔۔ ان سب کے بکھرے ہوئے غبار کو بھی سمیٹنا ہے۔’’

فردِ واحد کے لیے اس قدر سراغ رسانی اور جاں فشانی کرنی مشکل ہے۔ ان معلومات کو یکجا کرنے کے لیے پورے ادارے کی ضرورت ہے۔ جو بھی سہی، اس کتاب میں اتنی گوناگوں باتیں اکٹھی کر دی گئی ہیں کہ کچھ حیرت ہوتی ہے۔ ان موسیقاروں کا تذکرہ بھی ہے جن میں ہنر تھا اور جنہوں نے اپنے جوہر دکھائے بھی مگر قسمت کے دھنی نہ تھے، جیسے امیر علی، اصغر علی محمد حسین، اجیت مرچنٹ ، عاشق حسین اور عبدالحمید خاں سارنگی نواز، یہ بات کبھی سمجھ میں نہ آسکی اور نہ شاید سمجھ میں آئے گی کہ قسمت بعض لوگوں پر کیوں مہربان ہو جاتی ہے اور بعض کی طرف کیوں پلٹ کر بھی نہیں دیکھتی۔ کتاب میں تین انٹرویو بھی شامل ہیں۔ سب سے طویل بات چیت عزیز میرٹھی سے کی گئی ہے۔ میاں شہریار اور عنایت حسین حضروی سے گفتگو بھی درج ہے۔ ان انٹرویوز کی دل چسپی میں کلام نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان تینوں کو آنے والے زمانے میں کتنا یاد رکھا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ فلمی موسیقی اور گیت خود فلموں سے زیادہ پائیدار ثابت ہوں اور انہیں مدتوں سنا جاتا رہے۔

انٹرنیٹ کی بدولت بہت سی چیزیں محفوظ ہو گئی ہیں۔ ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ بعض موسیقاروں اور گانے والیوں کے بارے میں، جہاں تک ممکن ہوا، دستیاب معلومات فراہم کر دی گئی ہیں۔ مثلاً پہلے یہ بتایا ہے کہ انھوں نے کن فلموں میں گایا یا موسیقی ترتیب دی۔ پہلے فلموں کے، پھر ہدایت کاروں اور موسیقاروں کے نام دیے ہیں۔ فلم کس سال میں بنی یہ بھی درج ہے۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ کن فلموں میں انھوں نے کون کون سے گیت گائے یا ان کی دھنیں بنائیں۔ گیت کس نے لکھے تھے۔ جن کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد زیادہ تھی ان میں سے وہ گیت منتخب کر لیے ہیں جو مقبول ہوئے یا جن میں فنکارانہ رکھ رکھاؤ ملحوظ رکھا گیا تھا۔ اس اعتبار سے یہ تصنیف فلمی دنیا کے شائقین کو پسند آنی چاہیے۔ یوں بھی اس کاوش کو فریدہ خانم، نسرین انجم بھٹی، وزیر افضل، اسلام شاہ اور دوسرے اصحابِ نظر نے سراہا ہے۔ سچ پوچھیے تو کتاب کیا ہے، چھوٹا سا خزینہ ہے۔ نقص ایک ہی ہے۔ پروف خوانی سے بے پروائی برتی گئی ہے۔

کتاب: تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مصنف: سلیم الرحمن

ناشر: اکادمیات، لاہور

ص: 432

قیمت 600 روپے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).