بلیک میل تصویر سے نہیں، خوف سے کیا جاتا ہے


کبھی کبھی ہم پاکستانی ڈراموں پہ ضرورت سے زیادہ تنقید کرتے ہیں، شاید اس کی وجہ زبردستی تصوف مذہب کا تڑکا یا موضوع کو صحیح طریقے سے پیش نہ کیا جانا شامل ہے۔ ایسا ہی ایک ڈرامہ ‘ایسی ہے تنہائی’ ہے۔ سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ اب ان موضوعات پر بات ہو رہی ہے جنہیں ممنوعہ تصور کیا جاتا رہا ہے ۔ اس ڈرامے کے حوالے سے کچھ لوگوں نے جہاں اس موضوع سے راہِ فرار اختیار کی وہیں یہ کہہ کر بھی دل کو سمجھایا جاتا رہا کہ یہ تو ڈرامے کی حد تک ہے اصل میں ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اب بات یہ ہے کہ آپ چاہے یہ سمجھائیں کہ مذہبی حوالے سے nudes شیئر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، روایات، اقدار جس مرضی کا نام لیں، یہ صرف چھپنے والی اور معاملات سے فرار اختیار کرنے والی بات ہے۔

سچ یہ ہے کہ ایسا ہو رہا ہے، تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ محبت کے نام پہ ایسی پکچرز کا تبادلہ اور پھر بلیک میلنگ، پیسے کے تقاضے ، دھمکیاں سب بہت عام ہیں۔ ایسے گینگ میں لڑکیاں لڑکے دونوں شامل ہیں۔ نفسیاتی تجزیے سے پہلے، مذاق اڑانے اور کسی کو اس بات پر ذلیل کرنے سے بہتر ہے کہ اگر کوئی دوست کوئی عزیز اس گینگ کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کا ساتھ دیں۔ ایسے لوگوں کو پیسے دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ویسے ہی ہر بات پہ وکٹم کو قصور وار ٹھہرا دیا جاتا ہے ،اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

ایسی تصاویر کے سامنے لائے جانے کے خوف سے لوگ انہیں پیسے دینے پر مجبور ہیں، سوشل بائیکاٹ اور لوگوں کی لعن طعن سے ڈرتے ہیں۔ پولیس کی مدد لینے سے اسی طرح کتراتے ہیں جیسے زیادتی کا شکار ہونے والے اکثر معاملات بس دبا لیے جاتے ہیں، چاہے یہ کسی کم سن لڑکے کو sodomy کا نشانہ بنایا جائے یا کسی بچی کے ساتھ ایسا ہو، یہ معاشرتی رویہ کہ اب اس پر ایک طرح کا لیبل لگ جائے گا اور اس کی ‘پہچان’ بن جائے گا اس کی وجہ سے ایسے معاملات کو چپ چاپ دبا دیا جاتا ہے۔ ابھی بھی سچ یہ ہے کہ واقعات رپورٹ کچھ زیادہ ہونے لگے ہیں ورنہ حقیقت میں اس سے بھی زیادہ ہو رہے ہیں مگر بات وہی ہے کہ جو ہو گیا، اسے بس چپ چاپ پی لیا جائے یا کچھ جگہوں پہ کچھ دے دلا کر فریقین کو چپ کرا دیا جائے۔

یہ دو بظاہر مختلف معاملات ہیں مگر ان سے ایک بات جڑی ہے وہ ہے لوگ کیا کہیں گے؟ یہ لوگ مشکل میں مدد نہیں کر سکتے ، بس مذاق اڑا سکتے ہیں، طعنے دے سکتے ہیں مگر ساتھ نہیں دے سکتے۔ یاد ہے کچھ عرصہ پہلے کسی نے سوال پوچھا تھا اگر آپ کی تصاویر ایسے وائرل ہو جائیں تو کیا ہو گا؟ اسے جواب ملا ابے یار ایسا کیا ہے جو ہمارے پاس کچھ الگ ہے، یہ سب ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ہوتی ہیں تو ہو جائیں، دو دن لوگ مذاق اڑائیں گے تیسرے دن کسی اور خبر کے پیچھے لگ جائیں گے۔ تو تھوڑا سا حوصلہ اور ہمت کر کے بلیک میلرز کو انکار کر دیں، کوئی ٹرانزیکشن، کوئی رقم مت دیں۔ خیر ہے ہر بندے کا کام کسی اور کے بارے میں ججمنٹل ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ پکچرز یونہی ایسے تعلق میں شیئر کی ہی جاتی ہیں اب کوئی اعلئ درجے کی بےغیرتی پہ اتر آئے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اسے اندازہ ہے اس جگہ جگہ سے ادھڑے معاشرتی فیبرک (تانے بانے) کا، اسے بخوبی علم ہے کہ شرمندگی ،خوف ،لعن طعن اس سب سے بچنے کے لیے آپ پیسے دے دیں گے۔

یہاں وہ لوگ جن کے پیارے ایسی کسی مشکل کا شکار ہوں اگر واقعی آپ کی زندگی میں اس انسان کی کوئی اہمیت ہے تو اس کا ساتھ دیں، حساب کتاب برابر کرنے کو ویسے بھی عمر پڑی ہے اور یوں بھی سچ یہ ہے کہ یہ بات بہت عام ہے، اس پر کسی کو مطعون کرنے کے بجائے اسے مکمل ساتھ اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا اداروں اور قریبی لوگوں دونوں کی طرف سے ہونا چاہیے۔ بےوفائی، بےحیائی وغیرہ وغیرہ کو اتنا سنجیدہ مت لیں کہ اپنا ہی سکون برباد ہو جائے، اکثر یہ محض ایک فیز ہوتا ہے جو بس گزر جاتا ہے تو اسے گزر جانے دیں۔ شاید یہ توقع رکھنا بےکار ہو کہ ایسے معاملات کو لے کر بہت جلد ہم ایک بہتر معاشرہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن کوشش کیجیے انفرادی سطح پہ تو بہتر انسان بن سکیں، کوئی دوست کوئی رشتےدار ایسے بلیک میلنگ کا شکار ہو تو اس کا ساتھ دیں، مشکل میں ناصح بنے رہنے سے زیادہ اہم ساتھ رہنا ہوتا ہے، جو پہلے ہی پریشان ہو اس مشکل صورتحال میں ٹوکرا بھر کر نصیحتیں کرنے سے بہتر ہے اسے اپنے ساتھ کا یقین دلائیں۔ لعن طعن کرنے والوں اور چسکے لینے والوں کے لیے وہی بات کہ یار اثاثے تو سب کے پاس کچھ کمی بیشی کے ساتھ ایک جیسے ہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).