کراچی یونیورسٹی میں برقعے کے استعمال کی وجہ مذہب نہیں


کئی دہائیوں تک فیشن، جدت، شاندارذوق، ادب، شاعری، اسپورٹس اور معیاری تعلیم میں پاکستان کا سب سے بہترین ترقی یافتہ ادارہ رہنے والی یونیورسٹی آف کراچی طالبات کی پردہ پوشی کی وجہ سے آج کل ملک کا سب سے بڑا مدرسہ نظر آتی ہے اور یونیورسٹی میں ہر طرف برقعہ پوش لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں25 ہزار سے زائد طالب علم ہیں جن میں 20 ہزار سے زیادہ طالبات ہیں جن کی 90 فیصد تعداد برقعے یا حجاب میں یونیورسٹی آتی ہے۔

 کچھ دن قبل ہی سعودی عرب کے سینیئر فقہا کی کونسل کے ايک رکن شیخ عبداللہ المطلق نے کہا ہے کہ سعودی مملکت میں خواتین کو عوامی مقامات پر عبایہ پہننے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے لیے ایسا لباس زیب تن کر لینا کافی ہے جو مناسب اور اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔

ساٹھ کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی کی طالبات

کوئی وقت تھا جب کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیاں ملک کی سب سے زیادہ، پڑھی لکھی، ماڈرن، فیشن ایبل اور بولڈ تصور کی جاتی تھیں۔ 80 کی دہائی تک کراچی یونیورسٹی ملک بھرمیں بہترین تعلیم، ماڈرن، الٹرا مادڑن فیشن اور اسٹائلش طلبا  و طالبات کی وجہ سے ایک پرکشش اور منفرد ادارہ تھا۔

 لیکن گذشتہ بیس برس میں کراچی یونیورسٹی نے بلکل ہی یو ٹرن لیا ہے اور فیشن اوراسٹائیل کی جگہ پردہ اور حجاب نے لے لی ہے اور تعلیم کا معیار بھی نیچے آیا ہے۔ کیمپس میں ہر طرف برقعہ یا عبایہ نظر آتا ہے جیسے یہ ادارہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی یونیورسٹی نہیں بلکہ سخت گیر خیالات والی تعلیم دینے والا کوئی مدرسہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ مذہبی خیالات رکھنے والے حضرات کراچی یونیورسٹی میں برقعہ کے اتنی بڑی تعداد میں استعمال پر خوشی کا اظہار کریں لیکن ان کو اس پردہ کے استعمال کی وجہ سن کر افسوس ہو گا۔ میرے لیے بھی یہ بات حیران کن طورپر سامنے آئی کہ یونیورسٹی میں پردہ کی سب سے بڑی وجہ مذہب نہیں بلکہ انسیکیورٹی یعنٰی غیر محفوظ ہونا ہے۔

میں نے کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد سے سروے کیا۔ ان سے میرا ایک ہی سوال تھا کہ وہ یونیورسٹی میں برقعہ پہن کر کیوں آتی ہیں؟ جواب میں 80 فیصد نے برقعہ یا عبایہ پہن کر آنے کی وجہ عدم تحفظ کا احساس بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ برقعے میں خود کو محفوظ سمجھتی ہیں، برقعہ چبھتی ہوئی ان آنکھوں سے شیلٹرکا کام دیتا ہے جن کے دیکھنے کے بے ہودہ انداز سے بھی خوف آتا ہے۔ تین فیصد نے ازراہ مذاق ہی سہی لیکن اپنی یہ رائے دی کہ وہ نقاب میں اس لیئے رہتی ہیں کہ ڈیٹ مارتے وقت کوئی پہچان نہ سکے۔ صرف پندرہ فیصد طالبات کا کہنا تھا کہ وہ پردہ مذہبی حکم پورا کرنے کے لئے کرتی ہیں۔ اس سروے میں ایسی طالبات جو یونیورسٹی میں برقعہ یا عبایہ پہن کر آتی ہیں ان میں سے ستر فیصد نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کے علاوہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں، یہاں تک کہ بازار جانے پر بھی پردہ نہیں کرتیں جس کی وجہ یہ ہے کی اُس وقت گھرکا کوئی فرد ان کے ساتھ ہوتا ہے اِس لیئے وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہیں۔ ان کی یہ بات اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں یا راستے میں آتے جاتے طالبات کی اکثریت کی طرف سے برقعہ یا عبایہ استعمال کرنے کی بڑی وجہ ان کا غیر محفوط ہونا ہے اور ان کو اگر تحفظ کا احساس ہو تو وہ یہ پردہ نہیں کریں گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں عورت پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئی ہے۔

(AP Photo/Shakil Adil)

مجھے اس بات میں اس لئے بھی کافی وزن نظر آیا کہ کراچی ماضی میں جماعت اسلامی کا سیاسی قلعہ رہا ہے۔ اس شہر سے سے الیکشن بھی جماعت اسلامی جیتتی تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں بھی ان کی طلبا تنظیم کا زور رہا ہے اس وقت عبایہ تھا نہ برقع۔ شاید کراچی میں عورت اس وقت زیادہ محفوظ تھی۔

بہرحال کراچی کی سیاست کی طرح شہر کا سارا نظام ہی الٹ سا گیا ہے۔ پہلے کراچی یونیور سٹی میں داخلے لینے والی پردہ دار گھرانے کی لڑکیاں اپنے گھر سے برقعے میں نکلتی تھیں، پوائنٹ میں چڑھتے ہی اپنا برقعہ اتار کر اپنے پرس میں ڈالتی تھیں اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ اس تعلیمی ادارے میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہوں اور اب سارا معاملہ الٹا ہو گیا ہے، گھر، بازار اور عام زندگی میں پردہ نہ کرنے والی لڑکیاں یونیورسٹی میں آکے پردہ کرتی ہیں۔ مذہبی پردہ کرنے والی بات سے یہ بات زیادہ تشویشناک ہے کہ کراچی شہر کی طالبات کی ایک بہت بڑی تعداد میں غیر محفوظ ہونے کااحساس پایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).