پاناما لیکس سے کوئی قیامت نہیں آئے گی


\"khurram

ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں کہ جب ہم آج کے اخبار میں خبروں پر نظر دوڑاتے ہیں تو کہیں کہیں گمان ہوتا ہے کہ بس مرکزی کردار ہماری ہی ذات ہے۔ ہم ان واقعات پر جذباتی بحث کرتے ہیں، ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے ہیں، کبھی کبھی تو ہم آپس میں گتھم گتھا بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر پھر بہت جلد اس خبر کو ہم ایسے ہی بھلا بیٹھتے ہیں جیسے یہ انتہائی اہم واقعہ نہیں بلکہ کرکٹ کا میچ ہو! لیکن وہی اخبار دس بیس سال پرانا ہو تو دیکھ کر ذہن \’یادِ ماضی عذاب ہے یا رب\’ کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ ملک یا قوم کی ترقی یا تنزل کے سفر کو دیکھ کر ایک اجتماعی فخر یا شرمندگی کا احساس ہوتا ہے جبکہ اپنا انفرادی کردار خاصہ محدود معلوم ہوتا ہے۔ حالاتِ حاضرہ کی جگہ جب ہم تاریخ پڑھتے ہیں اور مختلف نسلوں، قوموں اور ریاستوں کو بنتے بگڑتے دیکھتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ بحیثیت فرد ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ چنانچہ اگر موقعہ واردات پر موجود بھی ہوتے تو کون سا تیر مار لیتے۔ اگر آپ کو اپنی عاجزی اور بے حیثیتی واقعی محسوس کرنی ہو تو علمِ بشریات کی کوئی کتاب اٹھائیں جس میں انسان کو دیگر جانوروں سے الگ اور ممتاز ہونے میں لگنے والے لاکھوں سال کی کہانی سمیٹی گئی ہو اور حیاتیاتی شواہد سے ارتقاء کی کڑیاں جوڑی گئی ہوں۔

ایسی ہی ایک انتہائی مقبول کتاب ہم نے گزشتہ ماہ ختم کی جس کا عنوان تھا ’سیدھے کھڑے ہونے والے بندر: حضرتِ انسان کی مختصر تاریخ‘ (مصنف: یوول نوح حریری)۔ انتہائی دلچسپ اور آسان زبان میں لکھی یہ کتاب بتاتی ہے کہ دیگر جانور بھی آپس میں اشاروں اور آوازوں سے واضح پیغامات دے سکتے ہیں۔ مثلا\” سبز بندر اپنے ساتھیوں کو محتاط کرسکتے ہیں کہ ’خبردار! شیر آگیا‘ لیکن ایک جدید انسان اپنے دوست کو مزے لے لے کر بتا سکتا ہے کہ آج صبح دریا کے موڑ کے دائیں طرف میں نے ایک شیر کو جنگلی بھینسوں کے ریوڑ کا تعاقب کر تے دیکھا۔ پھر سارے دوست سر جوڑ کر دریا پہنچ کر شیر کو ڈرا بھگانے اور جنگلی بھینسوں کے شکار کی حکمتِ عملی وضع کر سکتے ہیں۔

مصنف ہمیں بتاتا ہے کہ ستر ہزار سال پہلے شعوری انقلاب آیا۔ ’افسانوی‘ زبان نے جنم لیا اور تاریخ کا آغاز ہوا۔ انسان سماجی حیوان ہے۔ پہلے وہ اپنی حفاظت کے لئے گروہ بنا کر رہتا رہا پھر یہ اس کی عادت بن گئی۔ سماجی تعاون ہماری بقا اور پیداوار کی کنجی ہے۔ انسان کی خوبی ہے کہ وہ صرف سادہ پیغام نہیں دیتا کہ خبردار شیر آگیا بلکہ کبھی کبھی جھوٹ موٹ کا شیر بتا کر ڈراتا ہے اور کبھی خیالی جنگلی بھینسوں کا لالچ بھی دیتا ہے۔ وہ اس طرح کے واہمے بھی تخلیق کر سکتا ہے کہ ’شیر کی روح ہمارے قبیلے کی حفاظت کر رہی ہے!‘ اس نے قبیلے، ریاستیں اور قومیں بنانے کے لئے روایات، تصورات، عقائد، دیوی دیوتا اور انتہائی پیچیدہ دیو مالا گھڑی تاکہ ان گنت اور دور دور پھیلے انسانوں کو تعاون پر راضی کرسکے۔ جرمنی میں کھدائی کے دوران برآمد ہونے والا ہاتھی دانت کا شیر-انسان کا مجسمہ انسان کی پروازِ تخیل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اندازاً پینتیس ہزار سال پرانے اس مجسمے کا سر شیر کا اور دھڑ انسانی ہے۔

آج اس شیر-انسان کے مجسمے کا عکس آپ کو یورپ کی ایک کامیاب ترین کار پیجو کے مونوگرام میں نظر آتا ہے۔ فرانس کی اس کار ساز کمپنی کے دو لاکھ ملازمین اب تک کئی لاکھ کاریں فروخت کر چکے ہیں۔ 1896ء میں رجسٹر ہونے والا یہ ادارہ بالکل ایک نئے قانونی تصور کا پیش رو تھا جس کے تحت پہلی مرتبہ کسی کاروبار کو شخص کے نام کے بجائے محدود ذمہ داری قانون کے تحت کمپنی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اور جس کی اصل ملکیت تو ایک فردِ واحد کے پاس ہوتی ہے لیکن وہ بہت سے حصص مالکان(شئر ہولڈرز) اور منتظمین (مینیجرز) کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔ اب قانوناً ممکن نہیں کہ اگر پیجو کی بنائی ہوئی کار چلتے چلتے دھماکے سے پھٹ جائے یا اس کے بریک فیل ہو جائیں اور نتیجتاً اس میں بیٹھے اور قرب و جوار میں متعدد انسانوں کی ہلاکت ہو جائے تو اس کے مالک پر قتل کا مقدمہ درج ہو۔ اور اگر یہ کمپنی قرض میں ڈوب جائے تو بھی اس کا امکان نہیں کہ مالک کے پر تعیش محلات کو فروخت کرکے خسارہ ادا کیا جائے۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ گو کمپنی کی ابتدا فرانس سے ہوئی لیکن اب یہ ایک اور فرانسیسی کمپنی سیٹرون اور امریکہ کی جنرل موٹرز کے ساتھ مل کر گاڑیاں بناتی ہے۔ امریکہ میں ایسی کمپنیوں کو کارپوریشن کہا جاتا ہے۔

ان خیالی اور تصوراتی کمپنیوں کے آپس میں تعاون سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دولت (جو خود انسانی تخیل کی ایجاد ہے) کا نہ کوئی وطن ہے، نہ سرحد نہ پرچم! پاناما لیکس سے ہمیں کون سی نئی بات پتہ چلی جو اس سے پہلے وِکی لیکس اور سنوڈن کے انکشافات سے چھپی رہ گئی تھی۔ آپ سوچیں کہ سعودیہ سمیت جن ممالک میں ٹیکس وغیرہ کا کوئی تکلف نہیں وہاں کون سمجھے گا کہ بادشاہ نے کچھ دولت سے وطن کے بجائے چند پر تعیش محلات یورپ میں بھی بنا لئے۔ روس میں پیوٹن صاحب کس طرح حکمرانی کرتے ہیں کیا کوئی راز ہے؟ آپ میں سے کتنے اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ چین ایک کمیونسٹ ریاست ہے۔ پوری دنیا کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بد گو اور فضول شخص اس وقت امریکہ میں صدارت کا امیدوار ہے، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کس معاشرہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اپنے ہی وطن کی طرف دیکھئے، تمام مقبولِ عام رہنماؤں کا اندازِ زیست یکساں ہی ہے، یہ سب ایک ہی قسم کا طبقاتی پس منظر رکھتے ہیں۔ جس دن فحش کلام اور ڈنڈا بردار مولویوں سے اسلام آباد مذاکرات کر رہا تھا عین اسی دن کراچی میں پولیس اساتذہ پر ڈنڈے برسا رہی تھی۔ چند ماہ پہلے ہم پی آئی اے ملازمین کے ساتھ سرِ عام با کمال لوگوں کی لاجواب سروس کے مناظر بھی دیکھ چکے ہیں۔ ان حالات میں ہم نہیں سمجھتے کہ تازہ انکشافات سے کہیں کوئی آسمان ٹوٹ پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments