اب تو اگلے وزیر اعظم عمران خان ہی ہوں گے


پاکستان مسلم لیگ ن کے قائم مکام صدر بننے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پارٹی کو اداروں سے ٹکراؤ والی سیاست سے دور رکھ کر خاندان اور پارٹی کو پچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے بیانیے مختلف نظر آئے اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالنے کے حوالے سے بھی دونوں بھائیوں اور ان کے بچوں مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے اختلافات کے قصے اور کہانیاں سننے میں ملیں۔

اس بات پر بھی گرما گرم بحث ہو رہی ہے کہ پارٹی کے قائم مکام صدر تو میاں شہباز شریف بن گئے ہیں مگر بیانیہ اور تا حیات قیادت تو میاں نواز شریف کی ہی چلے گی۔ صرف میاں نواز شریف کے بیانیے کے اوپر ہی مسلم لیگ ن آنے والے انتخابات جیت سکتی ہے کیونکہ بہت جلد ہی پاکستان مسلم لیگ ن کے ترقیاتی منصوبے، میٹرو بس، اورنج لائن والے بیانیے ختم ہونے والے ہیں۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی نا اہلی اور اپنے خلاف مقدمات پر ملکی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ ایک سازش کے تحت یہ سب کچھ ان کے خلاف ہو رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، عوامی لیگ کے شیخ رشید اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر چوہدری اعتزاز احسن اور دیگر کو تو حدیبیہ پیپز مل میں میاں شہباز شریف کی سیاست کا باب بند ہوتا نظر آ رہا تھا مگر وہ ہو نہ سکا۔ پنجاب میں نیب کارروائی کے بعد میاں شہباز شریف کے گرد بھی گھیرا تنگ نظر آ رہا ہے پاکستان تحریک انصاف سمیت پاکستان مسلم لیگ ن کی مخالف سیاسی پارٹیاں اب پر امید نظر آ رہے ہیں کہ نیب انکوائری کے بعد سانپ پٹوری سے باہر نکل آئے گا اور جلد ہی پنجاب حکومت کی اربوں کی کرپشن اور سلطانی گواہ منظر نامے پر آ جائیں گے۔ دوسری طرف احتساب عدالتوں میں شریف خاندان کے کیسسز کے حوالے سے یہ تجزیہ عکس کیا جا رہا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے شریف خاندان سزا سے بچ نہیں سکتا۔

کہا جا رہا ہے کہ پیروں اور مریدوں کے وظائف کام کر رہے ہیں کیوں کہ میاں نواز شریف اور اب میاں شہباز شریف کی نا اہلی کے بعد پنجاب میں یہ بلکل ہی آسان ہو جائے گا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو توڑا جا سکے اور یہ قوی امکان ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو توڑا گیا تو ان کی اگلی منزل پاکستان تحریک انصاف ہوگی کیوںکہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس منزل بھی اور درویش کی دعا سے مقبولیت بھی۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمیں بلاول بھٹو زرداری پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خلاف بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دوںوں پارٹیوں کے پاس نہ ہی عوامی خدمت کا کوئی جذبہ ہے نہ ہی کوئی منشور۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمیں آصف علی زرداری نے تو پیشنگوئی کر دی ہے کہ اگلا وزیر اعظم جیالا ہو گا اور آصف علی زرداری پر امید ہیں کہ وہ اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کو اندرونی اور بیرونی مشکلات سے نجات دلوائیں گے۔ لوگ تو سینیٹ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین کو آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لینے والے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بھی جنرل ضیاء الحق کی نان پارٹی الیکشن کی یادوں سے تشبیھ دیے رہے ہیں۔ اس پوری صورتحال کو دیکھ کر یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کے عمران خان صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ اگر درویش کی دعا اور پیرو مرشد کے وظائف نے کام دیکھایا تو پاکستان کے اگلے وزیر اعظم عمران خان ہی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).