مشال، نقیب اور انتظار کے مظلوم باپ!


ایک باپ جب بیٹے کا باپ بنتا ہے تواس کا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا ہے اور وہ سر اٹھا کر سوچتا ہے اس کا بازو اس کا سہارا پیدا ہوگیا۔ وہ اپنے بیٹے میں اپنے وہ تمام خواب پورے ہوتے دیکھنا چاہتا ہے جو وہ پورا نہ کرسکا۔ اپنے بڑھاپے کی لاٹھی کو بڑے چاؤ سے سجا سنوار کر جوان کرتا ہے اور بڑھاپے میں اپنے خوابوں کی تعبیر پاکر پھولے نہیں سماتا اور دعا کرتا ہے کہ اس کے کندھوں پر اپنا سفر آخر طے کرے، لیکن کچھ باپ ایسے بدنصیب ہوتے ہیں جو یہ خواب پورے ہوتے نہیں دیکھ سکتے، بلکہ اپنے بوڑھے کندھوں پر جوان بیٹوں کے جنازے ڈھوتے ہیں کلیجہ کٹتا ہے سوچ کر لیکن ایسے بہت سے باپ ہیں لیکن میں ان تین مظلوم بیٹوں کو جانتی ہوں جن کے باپ زندہ در گور ہوتے ہوئے بھی اپنے بیٹوں کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں۔ وہ تین مظلوم باپ ہیں مشال کا باپ، نقیب اللہ کا باپ اور انتظار کا باپ۔ یہ تینوں بیٹے ناکردہ گناہ کی پاداش میں اجل کا نشانہ بنائے گئے اور ظلم وبربریت کا شکار ہوئے۔ ان کے باپ اپنے بیٹوں کے خون کا حساب لینے اور ان پر لگائے گئے الزامات کے لیے بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔

مشال خان کے دردناک اور لرزہ خیز واقعے کا کسے علم نہیں مردان مین باچا خان یونیورسٹی میں ایک بپھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں جھوٹے الزام کے تحت مارا گیا۔ اس کے ٹکڑے ٹکڑے بریدہ جسم کو باپ نے کاندھا دیا اور دفنایا بھی کیونکہ ظالم ایک جھوٹے الزام کی وجہ سے اسے دفنانے کے لیے زمین بھی دینے کو تیار نہ تھے۔ اس کے بعد یہ باپ اپنے خاندان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کے لیے انصاف مانگنے کا کیس بھی لڑ رہا ہے۔ اس کے بیٹے کے قاتلوں کو سزا بھی ہوئی، کچھ نے فیصلے کے خلاف اپیل کی ہوئی ہے، لیکن ابھی کچھ اور جزیئات باقی ہیں، جب تک ان مجرموں کو سزا نہ مل جائے گی مشال کے والد کے کندھے جھکے ہی رہیں گے اور نگاہوں میں بے چینی رہے گی۔

دوسرا باپ نقیب اللہ کا باپ ہے، ڈیرہ اسماعیل خان کا رہنے والا سادہ لوح بے زبان، جس کا بیٹا نقیب اللہ ترقی اور پیسہ کمانے اور اپنے بچوں کو اچھی زندگی دینے کے لیے کراچی کمانے گیا تھا۔ نقیب اللہ ماڈلنگ کا شوقین تھا، فیس بک پر اس نے پیج بنایا ہوا تھا اس کے ہزاروں فالورز تھے۔ ناکردہ جرم کی پاداش میں کراچی کے مشہور زمانہ انکاؤنٹر کرنے والے ایس ایس پی نے دہشتگردی کے الزام میں مار دیا کہ اس کا تعلق مشہور دہشت گرد محسود سے ہے۔ اس کا باپ غم واندوہ کی تصویر بنا دھرنا دے رہا ہے کہ اس کے بیٹے کے قاتل کو پکڑا جائے ، انصاف کے لیے نظر آسمان پر لگیں ہیں کہ کاش کوئی اس جوان خوبروبیٹے کا خون کرنے والوں کو سزا دے جبکہ یہ کارروئی کرنے والا ایس ایس پی اب تک مفرور ہیں اور کیس ہنوز لٹکا ہوا ہے اس کاس باپ بیٹے کے قتل پر انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔

تیسرا نوجوان بے گناہ انتظار ہے جس کی واپسی کا انتظار اس کا باپ نہیں کر رہا بلکہ اس کے قاتل کو پکڑے جانے کا انتظار کر رہا ہے۔ کراچی کا رہنے والا تعلیم یافتہ نوجوان جسے جان بوجھ کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس مظلوم بیٹے کی روح کو پر سکون کرنے اور اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لیے انتظار کا باپ کیس لڑ رہا ہے جے آئی ٹی کے بننے کی وجہ سے وہ پر امید ہے کہ شاید انصاف مل جائے اور اس کے بیٹے کے قاتل پکڑے جائیں۔

اس کے علاوہ بھی کئی باپ ہیں جو انصاف کی راہ دیکھ رہے ہیں جن کے بیٹے لاپتہ ہیں وہ سوچتے ہیں کہ زندہ ہیں یا مار دیے گئے لیکن ایک امید کا دیا جلا رکھا ہے۔ بہت سے ایسے باپ ہیں جن کے بیٹے فوج میں تھے اور دہشت گردوں کا نشانہ بن کر شہید کہلائے۔ ان کے صابر باپ میڈیا پر آکر کہتے ہیں میرے بیٹے کو شہید ہونے کا ارمان تھا اس کا ارمان پورا ہوا ان کی زبان یہ الفاظ ادا کرتی ہے لیکن آنکھوں کی ویرانی کچھ اور بیان کرتی ہے۔

جو قتل ہورہے ہیں انھی سے سوال ہے
تم خود بتاؤ قتل کیے جارہا ہے کون
اے خدا تو انصاف دلا، اس مملکت خداداد پاکستان میں نہ جانے کیسی نحوست اتری ہے کہ باپ جوان بیٹوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں۔ ہمیں باپ کی بد دعا سے بچا میرے مالک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).