پطرس مسیح اب نہیں رہ پائے گا


کہانی کہنے میں بڑی اڑچن ہے۔

اب میں جس بستی کے ایک کونے کو ہر سرکاری دستاویز میں گھر گردانتا ہوں، وہ سمندر کے کنارے آباد ہے، میرا البتہ ماننا ہے کہ سمندر وہ ہوتا ہے جہاں شرجیل بلوچ، بانسری بجاتا ہے، ایاز جوکھیو، زینب کی تصویر میں رنگ بھرتا ہے اور جمیل عادل اپنے بابا کے بھٹائی کے تراجم کہتا ہے، ان سب سے پرے، مصدق سانول، مرزا صاحباں گاتا ہے اور بلال بروہی، ان پلوں کو محفوظ کرتا ہے۔

اس ساحلی شہر کا ایک بڑا حصہ، پہاڑی ٹیلے کو کاٹ کر آباد کیا گیا ہے سو چند سڑکیں ایسی بھی ہیں جو صاف، پانی میں اترتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں ولندیزی ملاحوں کی طلسمی داستانیںں ہیں، فرانسیسی سپاہیوں کے دیو مالائی قصے ہیں اور رومی اہل کاروں کی دل پزیر کہانیاں ہیں، سوچتا ہوں انہیں کھوجوں، محفوظ کروں تاکہ مآضی کی کہانیاں، حال کے لوگوں کو سنا کر، مستقبل کا سامان کیا جا سکے۔ مگر پھر بات سیاسی بندوبست کی طرف جا نکلتی ہے، آدرش، تبدیلی، نظام، قومی مفاد، داخلی خطرہ۔ یہ لفظ کہانی کا راستہ ایسے کاٹتے ہیں جیسے شہزادی کا راستہ، کبڑی جادوگرنی۔
لیکن کیا کیجے جو کہانی یاد آ جائے اسے کہے بغیر رہا بھی نہیں جاتا۔
کراچی، سمندر، ملاح اور ملکی سلامتی سے زیادہ دلچسپ کہانی، ایک آیت کی ہے۔

آج فروری کی آخری تاریخ ہے اور اکیسویں صدی کے اولین سال، مگر یہ قصہ، اپریل کے اولین تاریخوں اور انیسویں صدی کے آخری سالوں کا ہے جب تین بہنیں، اپنے بھائی کے نیم مردہ جسم کے ساتھ اسی شہر، ہیسٹنگز کے ایک ہسپتال میں پہنچیں۔ لندن کے جنوب میں واقع اس شفا خانہ کی خصوصیت، ڈاکٹرسیسل کرسٹوفرسن کی شفایابی تھی۔

اگلے کچھ دنوں میں ڈاکٹر صاحب نے ہر کوشش کر کے دیکھ لی، مگر مریض کی حالت بگڑتی گئی۔ غریب الدیار شہزادیوں، کی ہر گھڑی اپنے نیم مرگ بھائی کی مدقوق ہوتی رنگت کو تکتے گزرتی تھی۔ ایک شام، جب جالی دار پردوں کے پار، سمندر قریب قریب، سارا سورج لے جا چکا تو ڈاکٹر سیسل نے اپنے مریضوں کے سامنے ہاتھ جھاڑ دیے۔ بہنوں نے آپس میں مشاورت کی اور سوچا کہ اب باپ کو بلانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

اپریل 1893 کی اکیس تاریخ کو بیمار شہزادے اور لاچار شہزادیوں کا بے وطن باپ، ہیسٹنگز پہنچا۔ باپ بیٹے کے تعلقات میں سالوں کی سرد مہری، سیاست کا اتار چڑھاؤ، اور جغرافئے کا عناد موجود تھا، مگر بحیرہ احمر سے پرے، رشتوں کی تفہیم اتنی آسان نہیں۔ جواں سال ایڈورڈ نے کبھی وہ سر زمین نہیں دیکھی تھی، جس کی حکمرانی کا دعوی اس کے باپ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو تھا، مگر اس کے باوجود، مضمحل باپ، کئی گھنٹے اپنے بیٹے کا ہاتھ، ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہا۔ چلتے سمے، اس نے ایڈورڈ کے ہاتھوں میں ایک کاغذ کا پرزہ دیا جس پہ لکھا تھا۔
”خداوند۔ میرا چوپان ہے“

بور کی اس 23 وین آیت، نے اس وقت ہاتھ بدلے، جب برسوں مسیحی رہنے کے بعد، مہاراجہ دلیپ سنگھ، سکھ دھرم قبول چکا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد، پنجاب کا اقتدار تو بھیرووال معاہدے کے راستے کمپنی کو منتقل ہو گیا، مگر نو عمر دلیپ سنگھ کو انگلستان بھیج دیا گیا جہاں اس کی باقی زندگی گیانیوں کے ساتھ گرنتھ صاحب پڑھنے کی بجائے، لوگن صاحب کے ہاں انجیل پڑھتے گزری۔ انیسویں صدی کے آخر تک مہاراجہ دلیپ سنگھ، ملکہ وکٹوریہ کے پہلو سے اٹھ کر دوبارہ پنجاب کی نظامت سنبھالنے کی تیاری کرنے لگا۔ انگلستان سے ہندوستان کی جانب کوچ کا نقارہ تو بجا لیکن سوئز کے آس پاس مہاراجہ کو خاندان سمیت اتار لیا گیا۔ ہندوستان میں راج کو مہاراجہ سے خطرہ تھا، مگر دوسری طرف مہاراجہ کو تواتر سے ایسے خواب آ رہے تھے جن میں وہ خود کو پنجاب کا نجات دہندہ دیکھتا تھا۔ جب پنجاب جانے کی اجازت نہ مل سکی تو مہاراجہ نے عدن کے ساحلی شہر میں ہی سکھ دھرم قبول لیا۔ یوں پانچ سکھوں کی موجودگی میں وہ اچانک، اکثریت کے ظلم سے اقلیت کی مظلومیت کی طرف مراجعت اختیار کر گیا۔

اب جب اس بات کو کئی دہائیاں ہوتی ہیں اور بے بسی کی یہ داستان انیتا آنند، کھول کھول کر بیان کرتی ہیں تو سمجھ پڑتا ہے کہ اس آیت کا تعلق، کسی عقیدے سے نہیں بلکہ تنہائی کی اس بے چارگی سے ہے، جسے اقلیت کہا جاتا ہے۔
میں نے پہلی بار یہ آیت ایک سائیکل کے پیچھے لکھی دیکھی۔ سائیکل، اس مکینک کی تھی جو میری گاڑی کے بونٹ پہ جھکا، نئی بیٹری، کھوپچے میں بٹھا رہا تھا۔
:چوپان کا مطلب؟ “۔ میں نے پوچھا۔
”چوپان۔ سر جی۔ چرواہا۔ یسوع مسیح ہمارا چرواہا ہے اور ہم گلے کی بھیڑیں۔ “
اس نے پادری کا رٹا ہوا سبق دہرا دیا۔
”سائیکل پہ لکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ “
سوال جواب کی لڈو کھیلتے ہوئے ہم برابری کی سطح پہ تھے، سو اس نے گاڑی کے اندر لٹکتے ہوئے چہار قل کی طرف اشارہ کیا۔

اس بات چیت سے نو سال اور 7926 کلومیٹر دور، میری گاڑی کے شیشے کے ساتھ اب بھی چہار قل ٹنگے ہیں۔ فون پہ رشتے کی ایک بزرگ خاتون، سمجھاتی ہیں۔ جب بھی اداس ہوں، پردیس میں دل نہ لگے، بس ایک آیت پڑھا کریں۔
حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔

مذہب، کی آدمی کو کتننی ضرورت ہوا کرتی ہے، اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ لیکن اس دو رکنی مساوات میں جب اکثریت، اقلیت کا تیسرا شامل ہو جائے تو یہ سارا کھیل پٹ جاتا ہے۔ جن تہواروں کو آدمی، اپنے جغرافیے کے سبب معمول کا حصہ سمجھتا ہے، جب ہجرت انہیں روزمرہ سے نکال باہر کرتی ہے تو پھر وہ معمول سے ہٹ کر ان کا اہتمام کرتا ہے۔ انگلستان کی عید، آسٹریلیا کے نوروز اور کینیڈا کی بیساکھی میں بات جذبات کی نہیں، گروہی نفسیات میں ایک دوسرے کے مقابلے میں کمتر یا زور آور ہونے کی ہے۔

سن سینتالیس سے پہلے، کیلنڈر پہ وائسرائے کے دو ہی تہوار ہوا کرتے تھے، ایسٹر اور کرسمس۔ ریڈ کلف کی لکیر نے جہاں سرحد کا جن، بوتل سے نکال دیا وہاں عیسی کی بھیڑوں کو بھی ان بھیڑیوں کے حوالے کر دیا جن کے منہ کو مذہب کا خون لگ چکا تھا۔ اب کبھی ہندوستان میں سفید پوش راہبائیں برباد ہوتی ہیں تو کبھی پاکستان میں مزدور پیشہ مسیحی، 295 کی بھینت چڑھتے ہیں۔

گوجرانوالہ کا انجم سندھو، جس کی فقط خوش خطی ہی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ ہر طرح کی گواہی، (جو آپ کی کسوٹی پہ پوری اترے) دینے کو تیار ہے، جیل میں ہے۔ آسیہ بی بی کا دفاع کرتے کرتے سلمان تاثیر کو پہلے ٹی وی پہ یہ بتانا پڑا کہ ان کے ابا غازی علم دین کے جنازے کو کاندھا دینے والوں میں سے تھے اور پھر، ایک اور غازی کی عظمت کا سامان ہونا پڑا۔ کلارک آباد میں بھٹی کا ایک دہانہ کھول کر شہزاد میسح اور شمع کو شعلوں کے حوالے کرنے والے اس بات سے بے نیاز تھے کہ توہین ہوئی کب تھی اور کس نے کی تھی۔

مصریال روڈ، وارث پورہ اور یوحنا نگر کے رہائشی ہر روز اپنے آپ کو اس قومی دھارے میں شامل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں، جو مذہب سے پھوٹتا ہے، مگر اس کے باوجود، شانتی نگر اور جوزف آباد جیسے واقعے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی اپنے نام کو علاقائی رنگ دیتے ہیں تو کبھی رنگ ٹون پہ غالب عقیدہ چڑھاتے ہیں، کہیں گفتگو میں انشا اللہ ماشا اللہ استعمال کرتے ہیں تو کبھی فیس بک پہ ”پاکستان سب کا“ جیسے سٹیٹس لگاتے ہیں، مگر ان سب استعاروں کے پیچھے، وہ خوف چھپا ہے جو انہیں، ہم سے لاحق ہے۔ کیسی بد قسمتی ہے کہ ”ہم“، ان کے لئے وہ خطرہ بن چکے ہیں، جس کی دیکھ بھال کا ذمہ یہ بڑی خوش اسلوبی سے نباہتے ہیں۔

پطرس، شاہدرہ میں رہتا تھا۔ اب نہیں رہ پائے گا۔ پاکستان کے اکثر عیسائیوں کی طرح اس کے حصے میں تحقیر تو آتی ہی تھی، اب ترس اور نفرت بھی شامل ہو گا، المیہ مگر یہ ہے کہ جو لوگ اس پہ ترس کھائیں گے، وہ ترس کھانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، البتہ جو نفرت کرنے والے ہیں، انہیں کوئی بھی، کچھ بھی کرنے سے روک نہیں سکتا۔ ایسے میں چوپان کا ہی آسرا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).