عاصمہ جہانگیر: بے لچک، بے خوف


وہ بڑا ہنگامہ خیز دن تھا، اتنا کہ گھبراہٹ کے عالم میں شوکت عزیز کی گاڑی ایک بے گناہ کو روندتے ہوئے گزر گئی۔ الیکشن کمیشن کے صدر دفتر پر دو طرفہ یلغار تھی، ایک طرف جنرل پرویز مشرف کے فدائی تھے جو انہیں اس ملک کا باضابطہ اور جائز صدر منتخب کرانے کے وفور میں ہجوم کیے ہوئے تھے ، دوسری جانب جمہوریت پسند اور وکلا تحریک کے جیالے تھے جو اس موقع پر جبر کی ہر قوت سے ٹکرا جانے پر آمادہ نظر آتے تھے۔ الیکشن کمیشن کا دفتر اس روز کئی طاقتوں کی آماج گاہ تھا، عمارت کے اندر کہیں اس ادارے کے اہل کار بھی ہوں گے لیکن باہر یا تو محارب فریقین نعرہ زن تھے یا پھر کسی متوقع تصادم سے نمٹنے کے لیے کمربستہ۔پہلی صف ڈنڈا بردار وں کی، ان کے پیچھے آنسو گیس گن سے آراستہ سپاہیوں کی ، ان کی آڑ میں یقینا کچھ دوسرے بھی ہوں گے ۔بہت سی پکڑ دھکڑ اس روز ہوئی ، کئی نوجوان مارپیٹ کا شکار ہوئے، اس ہنگامہ خیزی میں ایک بوڑھی عورت مار کھانے والوں کے لیے رحمت کا فرشتہ بن گئی، یہ عاصمہ جہانگیر تھیں۔عاصمہ الیکشن کمیشن سے ذرا آگے سڑک کے کنارے وہ کھڑی تھیں اور پولیس کے تشدد سے بچ نکلنے والے لڑکوں کو جذباتی انداز میں ہاتھ کے اشارے سے محفوظ راستہ دکھا رہی تھیں۔اس وقت وہ ایک ایسی بے چین ماں کے روپ میں دکھائی دیتی تھیں جس کے بچے کسی آفت کا شکار ہو چکے ہوں اور اس کی سمجھ میں نہ آرہی ہو کہ وہ کیا کرے، عاصمہ جہانگیر کی بے چینی کے وہ مناظر جس کسی نے بھی دیکھے، انھیں ہمیشہ کے لیے اپنا دل دے بیٹھا۔

لوگوں کے دل اپنی مٹھی میں لے لینے والی یہ خاتون یوں بھی بڑی دل والی تھی جس معاملے میں زبان کھولتے ہوئے لوگوں کا پتہ پانی ہوتا، وہ بلا سوچے سمجھے اسی اوکھلی میں اپنا سر دیتیں۔ان دنوں پاک بھارت کشیدگی اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی کہ بیساکھی کے دن آ گئے، عاصمہ نے پیلے پھولوں والی قمیص پہنی اور واہگہ کی سرحد عبور کر کے اٹاری پہنچ گئیں۔ بھارت کی سرزمین پر خوش نما پگڑی والے سکھوں نے ان کا پُر جوش استقبال کیا،یہ آؤ بھگت انھیں خوش آئی اور عاصمہ نے استقبال کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر لڈی ڈال کر پاکستان میں اپنے دشمنوں کو زبان دے دی۔ اپنے اس عمل سے وہ اُس فرقے کی سرخیل دکھائی دیتی تھیں جو گریٹر پنجاب کی محبت میں مبتلا ہوکر اپنے وطن کی حرمت اور مفادات کو بھلا بیٹھی ہوں اور یہ قرین قیاس بھی تھا کہ وہ بہاؤ کے مخالف سمت پیراکی کی شہرت رکھتی تھیں۔

عاصمہ پر تنقید ہوتی، ان کے خلاف مظاہرے ہوتے، انھیں گالیاں دی جاتیں لیکن ان کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑتا کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ کچھ دیر کے بعد ان کے یہی مخالف ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوں گے۔ جلد ہی تحریک آزادیِ کشمیر کا وہ مرحلہ آگیا جس سے گھبرا کر بھارتی سینا نے درندوں کا شکار کرنے والی پیلٹ گن اپنے ہاتھوں میں لی اور نوخیز نوجوانوں کو ان کی آنکھوں سے محروم کرنا شروع کردیا،غیر مشروط پاک بھارت دوستی کی شہرت رکھنے والی عاصمہ اس مشکل وقت میں شیر کی طرح دھاڑیں اور کہا کہ بھارت کانٹے بو کر اہل کشمیر سے پھولوں کی توقع کیوں رکھتا ہے؟عاصمہ کی بھارت دوستی کا تاثر ہوا ہو چکا تھا اور وہ تحریک حریت کا پرچم اٹھائے بھارت دشمنوں کی آنکھ کا تازہ بنی ہوئی تھیں۔

پاک بھارت معاملات کی طرح عاصمہ تہذیبی اور معاشرتی معاملات میں بھی کسی کی آنکھ کا تارہ تھیں اور کسی کی آنکھ میں خار کی طرح کھٹکتی تھیں۔اس شعبے میں ان کی خدمات کا دائرہ ویسے تو کئی دہائیوں پر محیط ہے لیکن ان کی شہرت لاہور کے اہل حدیث خاندان کی ایک جواں سال خاتون کے طرز عمل سے ہوا جس نے اپنی منہ زور محبت کے زیر اثر اپنے والدین کا گھر چھوڑا اور عاصمہ جہانگیر کے آنگن میں پناہ لی پھر یہ واقعہ صرف لاہور ہی نہیں پاکستان کی سرحدیں بھی عبورکر کے بین الاقوامی شہرت حاصل کرگیا۔اہل حدیثوں کی ایک بیٹی ہی کیا، پاکستان کے طول و عرض میں اپنے خاندان کی روائتی ”غیرت“ سے بغاوت کرنے والی کتنی ہی نوجوان لڑکیاں تھیں جنھوں نے عاصمہ جہانگیر کا سہارا لے کربغاوت کا علم بلند کیا۔ عاصمہ جہانگیر کے اس جرات مندانہ طرز عمل نے جہاں اس ملک میں صدیوں پرانی روایات کی چولیں ہلا دیں بلکہ اہلِ محراب و منبر کے ذہنوں میں یہ احساس بھی پیدا کیا کہ یہ خاتون اس دیس کی طے شدہ اقدار کا جنازہ اٹھانے خاص طور پر اہل دین کی عزت کو نیلام کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔

کیا یہ الزام درست ہے کہ عاصمہ جہانگیر مغرب پرست اور دین بیزار تھیں؟ ذرا سی زحمت کیے بغیر ان الزامات پر یقین کیا جاسکتا ہے لیکن ذرا ٹھنڈے دل سے نظر ڈالی جائے تو ان کی شخصیت کھلی کتاب کی طرح سامنے آجاتی ہے۔ ملک غلام جیلانی کی صاحبزادی تھیں جن کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس ملک میں ترقی پسند سیاست کی بنیاد رکھی۔وہ ترقی پسند تھے اور رجعت پسندوں کے خلاف کھلی تلوار تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے عہد میں اہل دین کی سب سے بڑی آواز یعنی مولانا مودودی کے قریب ترین دوست تھے، اتنے قریب کہ مولانا مودودی نے انگریزی زبان پر عبور ان کی مدد سے حاصل کیا، یہ دونوں بزرگ جب بھی اکٹھے ہوتے، ہمیشہ انگریزی میں بات کرتے۔باہمی احترام اور اعتماد کے رشتے شاید اگلے زمانوں کے بزرگوں میں ہی پائے جاتے تھے، مولانا مودودی اور ملک غلام جیلانی کے وارث اس سے محروم رہے۔ان دونوں کے درمیان اپنے بزرگوں جیسی بے تکلفی پیدا ہوسکی اور نہ اعتماد کہ اپنے مو ¿قف پر سختی سے قائم رہتے ہوئے بھی مخلصانہ تعلق رکھا جاسکتا ہے، اس میں اگر کوئی استثنا ہے تو محمد فاروق مودودی کا جنھوں نے اپنے والد کی جماعت کی دشمنی مول لے کر عاصمہ جہانگیر کے ساتھ تعلق کی لاج رکھی،تفنن برطرف بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جیسے عاصمہ کے والد نے انگریزی سکھا کر فاروق مودودی کے والد پر احسان کیا تھا، فاروق مودودی نے بھی اپنے والد کے عقائد سے بغاوت کرکے اس احسان کا بدلہ چکا دیا۔

عاصمہ بے دین تھیں، ترقی پسند تھیں یا کچھ اور، ان کے انتقال نے اس ملک کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا،اس کیفیت میں ایک صاحب یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اس بی بی نے ہزاروں گناہ کیے ہوں گے لیکن قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بالادستی کی بے خوف جدوجہد نے ان کی ہر کوتاہی پر پردہ ڈال دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).