عاصمہ جہانگیر کی روح کو سکون کیسے ملے گا؟


عاصمہ جہانگیرکی وفات کے بعد سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نےR.I.P (ان کی روح کو سکون نصیب ہو) لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب تک ایسے لوگ موجود ہیں جن کے انسانی اور مذہبی حقوق کو ریاست اور انتہا پسند عسکری گروپوں کی طرف سے خطرہ ہے، عاصمہ کی روح کو کیسے سکون مل سکے گا۔

عاصمہ، انسان دوست اور سیکولرسٹ تھیں جو جمہوری قدروں پر بہت پختہ یقین رکھتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ جمہوریت ارتقائی منازل طے کرتی ہے، یہ انقلاب سے نہیں آتی۔اس سوچ نے انھیں پاکستان کے آئین کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمہوری عمل کی ہر خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا۔انھوں نے جہاں بھی یہ محسوس کیا کہ آئین،غیر مسلم پاکستانیوں اور دیگر محکوم لوگوں کو مساوی حقوق نہیں دے رہا،انھوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلان نامے کے مطابق آئین میں ترمیم کا تقاضا کیا۔

بہت سے ناقدین ’’دانستہ یا نادانستہ‘‘ سیاسی نظام میں تبدیلیوں کی حمایت اورسسٹم کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے جوڑ توڑ کی مخالفت کرنے پر ان پر تنقید کرتے ہیں۔ بعض نے تو فرمان جاری کر دیا کہ وہ اچھی مسلمان نہیں یا یہ کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف بھارت کے ایجنڈے میں آسانی پیدا کی۔اس کے لیے وہ شیو سینا کے لیڈروں کے ساتھ ان کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہیں۔

یہ لوگ بھول گئے کہ انسان دوست اور حقوق انسانی کی فعال کارکن کی حیثیت سے وہ ہر قسم کے لوگوں سے ملاقات کرتی تھیں۔ ان ناقدین کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی عاصمہ جہانگیر رپورٹ کا حوالہ دینا چاہیے،جس میں بھارتی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف بہت سخت باتیں کہی گئی ہیں۔

میمو گیٹ کیس میں حسین حقانی کا دفاع کرنے پر جنگی معیشت کے طفیلیوں کی طرف سے ان پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک قانون دان ہونے کی حیثیت سے انھیں کسی کا بھی ،خواہ وہ قتل ہی کا ملزم کیوں نہ ہوتا،دفاع کا حق تھا مگر اس کیس میں انھوں نے دیکھا کہ سارا میموگیٹ اسکینڈل، جنرل شجاع پاشا کا اسٹنگ آپریشن تھا۔

ایک بے داغ کردار کے حامل پولیس افسر، طارق کھوسہ نے بھی میمو گیٹ کمیشن کا سربراہ بننے سے انکار کردیا تھا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کسی دوسرے کو نشانہ بنانے لیے اپنا کندھا استعمال کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔انھوں نے حال ہی میں شایع ہونے والی اپنی کتاب میں اس معاملے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے ایک بار پھر میموگیٹ کیس کو زندہ کر دیا ہے۔

جن لوگوں کے خلاف متنازع قوانین کے تحت مقدمے بنائے گئے ان کا دفاع کرنے پر انھیں اسلامی عسکریت پسندوں کے غیض و غضب کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔اس معاملے میںانھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں مگر ایک سیکولرسٹ کی حیثیت سے وہ اپنے نظریات پر ثابت قدم رہیں اور ملزموں کا دفاع کیا ۔ یہاں مجھے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے راشد رحمان یاد آ رہے ہیں جنھوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملتان میں اس قسم کے ایک کیس کا دفاع کیا،اس کے لیے انھیں اپنی جان قربان کرنا پڑی۔اسکے بعد ملتان میں کوئی وکیل توہین کے ملزم کا دفاع کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ بار میں پمفلٹ بانٹے گئے تھے کہ جو بھی ایسا کرے گا، اس کا انجام راشد رحمان جیسا ہو گا۔

عاصمہ اس صورت حال سے بہت پریشان تھیں تاہم انھوں نے ملزم کے لیے ایک وکیل کا انتظام کیا اور اسے تحفظ فراہم کیا۔انتظامیہ اور عدلیہ نے راشد رحمان کے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو جیلوں میں سڑ رہے ہیںاور کچھ کو مار دیا گیا۔جب تک لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں ہو گی،عاصمہ کی روح کو سکون نہیں ملے گا۔

اُن پر سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے اُس فیصلے کی مخالفت کرنے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے، جس کی رو سے وزیر اعظم کو نا اہل کر دیا گیا تھا ۔ وہ اس فیصلے کے میرٹس پر تنقید کرنے والی واحد قانون دان نہیں تھیں، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ڈاکٹر پرویز حسن جیسے ممتاز وکلا نے یہ لکھا کہ اس فیصلہ میں سقوم ہیں۔’’ قابل وصولی‘‘ کی تشریح انکم ٹیکس قوانین کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، اعلیٰ ترین عدالت کے نگران جج کا تقرر یا نیب کی طرف سے شریف خاندان کا ٹرائل کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔

میرے قریبی دوست جسٹس صبیح الدین احمد نے کہا کہ ججوں کو نہ صرف انتظامیہ سے الگ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ طے شدہ قوانین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے،کسی دباؤ کے بغیر اپنی سوچ کا اطلاق کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بھی آزاد رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مگر بہت کم وکلا میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف میڈیا کے سامنے بولنے کا حوصلہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں عزت مآب ججوں کا موڈ خوشگوار رکھنا ہوتا ہے، مگر عاصمہ اپنے دل کی بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئیں، خواہ اس کا تعلق سول یا فوجی حکومت سے یا عدالتی زیادتیوں سے تھا۔

بعض ٹی وی صحافیوں کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے ساتھ ان کے خوشگوار تعلقات پر بھی اعتراض تھا انھیں اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں کہ انھیں سب سے پہلے عاصمہ جیلانی کیس میں شہرت ملی تھی جس میں سپریم کورٹ نے جنرل محمد یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا تھا (مگر جنرل گل حسن کی طرف سے ایک اندرونی بغاوت میں یحییٰ خان کو ہٹا دینے کے بعد بھی عدالت اس غاصب کو سزا دینے کا حوصلہ پیدا نہ کر سکی)عاصمہ نے پہلے یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیاتھا جس میں ان کے محترم والد،ملک غلام جیلانی کی گرفتاری کو چیلنج کیا گیا تھا۔ان پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی ۔ ہائی کورٹ نے ان کی داد رسی نہ کی،مگر جب یحیٰی خان کو ہٹا دیا گیا تو اپیل سپریم کورٹ کے سامنے آئی اور جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے ،مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔

پاکستان میں تمام باضمیر لوگوں کا خیال ہے بنگلہ دیش نے 24 سال تک نا انصافیاں برداشت کرنے کے بعد آزادی کی جدوجہد کی ۔ حال ہی میں نواز شریف نے زور دیا کہ اس بات کا تجزیہ کرنے کے لیے اپنے گریبان میں جھانکا جائے کہ بنگلہ دیش نے آزادی کی جنگ کیوں لڑی تھی۔ بعض انتہا پسند قوم پرست اب انھیں بھی پنجاب کا مجیب الرحمان قرار دیتے ہیں۔

آزادی اظہار اور حقوق انسانی پر ان کا یقین اس قدر پختہ تھا کہ وہ الطاف حسین کی تقریروں پر پابندی کے خلاف کھڑی ہو گئیں۔انھوں نے دائیں بازو کے بعض عسکریت پسند گروپوں کے جبری لاپتہ لوگوں کے کیس بھی لیے۔ انھوں نے ایم کیو ایم یا جماعت الدعوۃ جیسے گروپوں کے ساتھ سیاسی اختلاف رائے کے باوجود یہ سب کچھ کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس اصول پر پختہ یقین رکھنی تھیں کہ ’’تم جوکہتے ہو مجھے اس سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر میں مرتے دم تک تمہارے یہ کہنے کے حق کا دفاع کروں گی۔‘‘

میں، تمام انتہا پسند قوم پرست صحافیوں سے کہتا ہوں کہ یہ پیشہ ہم سے قومی، مذہبی، نسلی اور ذات پات کی سوچ سے بلند رہنے اور دیانتداری سے بات کی جائے تو عوام نواز تجزیہ کار بننے کا تقاضا کرتا ہے۔

بشکریہ ڈیلی ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).