شہباز شریف کے لیے پارٹی صدارت امتحان ہے


جس طرح پھول کانٹوں کے گھیرے میں ہوتا ہے۔ اسی طرح شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) کی صدارت بھی کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ، یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ کانٹے، صدارت کا ہر دن شہباز شریف کے لیے ایک نئی مشکل کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

یہ صدارت ہر روز ایک نئی مشکل ، ایک نیا امتحان لائے گی۔ ایک پل صراط ہے جس کے دونوں طرف اندھی کھائیاں ہیں۔ گرے تو مرے کے مصداق غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جتنا بڑا عہدہ ہو اتنا ہی کوئی بھی غلطی خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ شہباز شریف نے سیاسی طور پر ان گنت بند راستے کھولنے ہیں جن کی چابیاں ان کے پاس نہیں ، بس ایک امید ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ صدارت شہباز شریف کے لیے کانٹوں کی سیج اس لیے بن گئی ہے کہ اس میں بہت تاخیر کر دی گئی ہے۔ اگر نواز شریف کی جولائی میں پہلی نا اہلی کے بعد شہباز شریف کو صدارت سونپ دی جاتی تو نہ تو یہ اس طرح کانٹوں کی سیج ہوتی اور نہ ہی یہ سیاسی راستے اس طرح بند ہوتے۔

اب ایسا لگا ہے کہ سارے راستے بند ہونے اور سارے آپشن استعمال کرنے کے بعد شہباز شریف کو صدارت دی گئی ہے۔ یہ پہلی ترجیح نہیں تھی۔ یہ آخری حل تھا۔یہ چوائس نہیں تھی بلکہ یہ وہ کڑوی گولی ہے جو بحالت مجبوری کھائی گئی ہے۔ اگر نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) اس وقت جب ان کے پاس مزید آپشن تھے یہ فیصلہ کرتے تو بہتر ہوتا۔

جہاں تک شہباز شریف کا تعلق ہے ان کے پاس بھی کوئی چوائس نہیں تھی، قبول نہ کرتے تو کیا کرتے۔ حالانکہ میرا اندازہ ہے کہ ان کی اپنی سیاسی بصیرت اور ان کے دوست بھی انھیں یہی مشورہ دے رہے ہوں گے کہ اگر اب جان بچ سکتی ہے تو بچا لی جائے۔ لیکن شہباز شریف کی بھی مشکل یہی تھی کہ وہ اب جان بچا بھی نہیں سکتے تھے۔ صدارت کے اس منصب کو انھیں اب قبول کرنا ہی تھا، اگر وہ انکار کر دیتے تو وہ بھی سیاسی خود کشی تھا، بزدلی میں شمار ہوتا۔ کہا جاتا کہ انھوں نے ایک مشکل چیلنج قبول نہیں کیا۔ وہ بھاگ گئے۔ ان میں جرات ہی نہیں تھے۔ ساری سیاسی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ۔ حالانکہ کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور ہو گی اگر جان بچ جائے تو کیا ہی کمال ہو جائے۔

شہباز شریف کی صدارت کے حوالہ سے سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا وہ ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان پل بن سکیں گے۔ یہاں میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں وہ وقت گزر گیا جب وہ نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان پل بن سکتے تھے۔ اگر انھیں جولائی میں پارٹی کمان دے دی جاتی تو وہ شاید اس پوزیشن میں تھے کہ اس حوالہ سے کوئی پل کا کردار ادا کر سکتے لیکن اب یہ لڑائی اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اس میں شہباز شریف کا کردار ختم ہو گیا ہے۔

نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان لڑائی فائنل راؤنڈ میں ہے۔ جس میں اب کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے اس میں شہباز شریف کا کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ صرف ن لیگ کے حوالہ سے بات کر سکتے ہیں جس کی کمان ان کے پاس ہے اور جتنی کمان ان کے پاس ہو گی وہ اتنی ہی بات کر سکیں گے۔ اگر وہ با اختیار صدر ہونگے تو ان کی بات میں وزن ہو گا۔ ان کی بات سنی جائے گی، ان کے ساتھ بات کی جائے گی۔ لیکن اگر یہ تاثر قائم کر دیا گیا کہ بنیادی فیصلوں میں شہباز شریف کا کوئی عمل دخل نہیں، سب فیصلے جاتی عمرہ کے مشاورتی اجلاسوںمیںکیے جاتے ہیں تو شہباز شریف کی صدارت بے معنی ہے۔ لیکن اگر فیصلے شہباز شریف کو کرنے دیے گئے تو وہ بات بھی کر سکیں گے اور ان کی بات میں وزن بھی ہو گا۔

میری رائے میں بے شک نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کا تاحیات قائد بنا دیا گیا ہے لیکن اب مسلم لیگ (ن) کے اجلاسوں میں انھیں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس ہوں یا سینٹرل ایگزیکٹو کے اجلاس ہوں، ان میں اب نواز شریف کو شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ تمام اجلاس مکمل طور پر شہباز شریف کی صدارت میں ہونے چاہیے۔ شہباز شریف کی رٹ اور کمان کے حوالہ سے کسی بھی قسم کا ابہام خود ن لیگ کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔اسی طرح شہباز شریف کو بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک ڈمی صدر نہیں ہیں۔ انھیں بنیادی نوعیت کے فیصلہ کر کے دکھانا ہو نگے جس سے ظاہر ہو کہ کمان بلا شرکت غیرے شہباز شریف کے پاس ہے۔

بلا شبہ شہباز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج پارٹی پالیسی ہے۔ پارٹی کی پالیسی کیا ہوگی۔ کیا پارٹی مزاحمت کی پالیسی پر ہی چلے گے یا صرف شہباز شریف کی عدم مزاحمت کی پالیسی کو قبول کیا جائے گا۔ کیا صدر شہباز شریف ہو نگے اور جلسہ مریم نواز کریں گی، ترانے مریم کے بجیں گے، یہ کیسے چلے گا۔ مریم نواز کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ایسے نہیں چل سکتا۔ اگر انھوں نے ایسے چلانا تھا تو وہ خود ہی مسلم لیگ (ن) کی صدر بن جاتیں،شاید اس طرح پارٹی تقسیم ہونے کا خدشہ تھا۔ اگر اب انھوں نے بھی چچا کی قیادت تسلیم کر لی ہے تو انھیں چچا کے تابع چلنا ہو گا ۔ جیسے ان کے چچا کئی دہائیاں کئی بنیادی اختلافات کے باوجود ان کے والد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر تابع چلے ہیں۔ اگر وہ شہباز شریف کو صدر نہیں مانیں گے تو پارٹی ٹوٹ جائے گی، تقسیم ہو جائے گی۔ انھیں چچا کے تابع چل کر دکھانا ہو گا یہ ان کا پہلا امتحان ہے۔ انھیں شہباز شریف کی پالیسی کو ماننا ہو گا۔

عمومی رائے میں یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کا سب سے بڑا چیلنج ہی یہ ہے کہ مریم کوکیسے ساتھ لے کر چلیں گے، میں سمجھتا ہوں کہ مریم کے لیے بھی چیلنج ہے کہ وہ کیسے چچا کے ڈسپلن میں چلیں گی۔

نواز شریف کے ریفرنسز اب آخری مراحل میں ہیں کہا جا رہا ہے کہ مارچ میں فیصلے آجائیں گے۔ ایک منظر نامہ یہ ہے کہ نواز شریف کو سزا ہو جائے گی۔ انھیں شاید جیل جانا ہو گا۔ ایسے میں شہباز شریف کی کیا پالیسی ہو گی۔ یہ شہباز شریف کا ایک بڑا امتحان ہو گا۔ ویسے تو میں اوپر پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ یہ معاملات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اس میں شہباز شریف کا کردار نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی شہباز شریف کا رد عمل کیا ہو گا۔ کیا ہونا چاہیے۔ کیا پارٹی کے تاحیات قائد کو سزا ہونے کے بعد پوری پارٹی کو سڑکوں پر آجانا چاہیے۔ ملک جام کر دینا چاہیے، اداروں سے لڑائی میں تیزی لانی چاہیے۔ ایک نواز شریف کیا جیل جائے ساری ن لیگ کو جیل چلے جانا چاہیے۔ جیل بھرو تحریک شروع کر دینی چاہیے۔

اداروں کے ساتھ محاذ آرائی میں تیزی لے آنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب ہی کچھ کرنا ہے تو شہباز شریف کو صدر کیوں بنایا۔ یہ سب ہی کرنا تھا تو شہباز شریف کو صدر بنانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف اس بحرانی کیفیت میں پارٹی کو کنٹرول کر سکیں گے، تصادم روک سکیں گے، پارٹی کو تحمل اور برداشت کی راہ پر لے کر چل سکیں گے۔ کیا وہ سمجھا سکیں گے مزاحمت اور تصادم خود ن لیگ کے لیے زہر قاتل ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

چند تالیاں اور واہ واہ تو ہو ہی جائے گی لیکن نتائج خلاف ہی ہونگے۔ جیسے اب تک واہ واہ تو ہوئی ہے لیکن حقیقی طور پر کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ کی مقبولیت بڑھی ہے کوئی پوچھے کہاں بڑھی ہے اگر پنجاب کی بات ہے تو وہاں کم کب تھی۔ پنجاب سے باہر پہلے بھی نہیں تھی اب بھی نہیں ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ شہباز شریف کی کمان اور صدارت کی رٹ کا باقاعدہ پہلا امتحان ہو گا۔

ٹکٹوں کی تقسیم بھی ایک ایسا معاملہ ہے جو شہباز شریف کا امتحان ہو گا۔ پارلیمانی بورڈ کون بنائے گا۔ ٹکٹیں کون تقسیم کرے گا۔ جاتی عمرہ سے تو ٹکٹ نہیں جاری ہونگے۔ جہاں تک چوہدری نثار علی خان کا معاملہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے بھی فاؤل کھیلے ہیں ۔ شہباز شریف کو اس معاملے سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ شہباز شریف کے لیے مسائل پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ شہباز شریف کو اپنی بات مزید زور سے کرنی ہو گی۔ عدم مزاحمت کی بات زور سے کرنی ہو گی تاکہ اگر کوئی دوسری آواز ہے بھی تو ان کی آواز میں دب جائے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).