پاکستان میں علمی زبوں حالی کا تاریخی پس منظر


قوموں کی ترقی ہمیشہ نوجوانوں کی اعلیٰ سوچ، فکراور کردار کی مرہون منت ہے۔ اور نوجوانوں کی کردار سازی ہمیشہ اعلیٰ تعلیم و تربیت کے ساتھ اعلیٰ نصب العین پر موقوف ہے۔ کیوں کہ تعلیم انسان کے عقل و شعور کے لئے ایک ایسا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ جس سے انسان تشدد کی بجائے عدم تشدد کا راستہ اختیا ر کر کے سماجی انقلابات اور سائنسی ایجادات کا مؤجب بنتا ہے۔ اور علم ہی کی بدولت انسانیت کے اعلیٰ اوصاف پیدا کر کےدنیا میں اعلیٰ منصب پر فائض ہوتا ہے اور کامل معاشرہ کی تشکیل میں بہترین معاون ثابت ہوتا ہے۔ اور علم ہی انسان کے اندر ایسی قابلیت اور صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ جس سے مستقبل میں پیدا ہونے والے ہرپیچ و خم سے نپٹنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اور ماضی کی ناکامیوں اور کامیابیوں کے اسباب کو سامنے رکھ کر بہترین منصبوبہ سازی عمل میں لاتا ہے۔ اور قومی معاشرہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوکر دوسری اقوام سے افضلیت حاصل کرتا ہے۔ جو قومیں صحیح علم کی پہچان کر کے عمل کو بروؤے کار لاتی ہیں۔ وہی قومیں دنیا میں ایک عالمگیر حیثیت رکھتی ہیں۔ اور جو قومیں اپنی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کمزور ہو کر پیچھے رہ جاتی ہیں تو ان کے مقدر میں لکھی پستی سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس لئے قوموں کے عروج و زوال کے فیصلے ہمیشہ تعلیم کی بنیاد پر ہوا کرتےہیں۔

بنیادی طور پر ہمیں بطور پاکستانی اپنے موجودہ نظام تعلیم پر گفتگو کرنے سے پہلےمتحدہ برصغیر (موجودہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش) کاتاریخی پس منظر میں تعلیمی عروج و زوال کامکمل اور مدلل جائزہ لینا ہو گا۔ کہ جس سر زمین خطہ میں ہم بس رہے ہیں۔ یہاں ہمارے اسلاف، اکابرین اور مسلم حکمرانوں نے کن بنیادوں پر سرزمین پاک و ہند کو سونے کی چڑیا کہلوانے کے لئےدوسری اقوام کو مجبور کیا۔ اور برصغیر پاک و ہند میں جتنی ترقیات ہوئیں ان میں نظام تعلیم نے کس طرح اپنا بنیادی کردار ادا کیا۔

متحدہ برصغیر پرایسٹ انڈیا کمپنی کے سامراجی تسلط(1757ء) سے پہلے مسلم دور حکومت میںباقاعدہ ایک تعلیمی نظام موجود تھا۔ جہاں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک اس کا انتظام بغیر فیس اور معاوضہ کے کیا جاتا تھا۔ اہل ثروت، امراء، نوجوانوں اور بادشاہوں کی طرف سے جائدادیں بغیر کسی ذاتی مفاد کے تعلیم کے لئے وقف کی جاتی تھی۔ صوبہ بنگال میں صوبہ کا چوتھائی حصہ صرف تعلیم کے لئے وقف تھاجس کے ٹھوس شواہد تاریخ میں موجود ہیں۔ (1)

اس امر کی تصدیق انگریز دور میں پنجاب کے مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر لٹیز کے قول سے ہوتی ہے۔ ” کہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ زمانہ سابق (مغلیہ دور اقتدار) میں لکھے پڑھے لوگ زیادہ ہوتے تھے“۔ اور مسٹر جیمس کرانٹ کے تخمینہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگال میں تمام مدارس کو سرکاری خزانو ں سے امداد ہوتی تھی“۔

“اس زمانہ میں کیفیت یہ تھی کہ والیان ملک اور امراء تعلیم کی پوری سر پرستی کرتے تھے اس کے لئے جاگیریں دیتے اور جائیدادیں وقف کرتے تھے۔ دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹ جانے پر بھی صرف روہیل کھنڈ کے اضلاع میں جو دہلی کے قریب تر تھے پانچ ہزار علماء مختلف مدارس میں درس دیتے تھے اور حافظ رحمت خاں (مرحوم) کی ریاست سے تنخواہیں پاتے تھے“ (2)

متحدہ برصغیر کے ہر شہر، گاؤں میں ایسے مدارس قائم کیے گئے تھے جن میں اس دور کے تقا ضوں کے مطابق دینی اور عصری علوم کو حاصل کرنے کے لئے مدارس موجود تھے جن میں لکھنے پڑھنے اور حساب کتاب وغیرہ کی تعلیم ہوتی تھی۔ مقریزی اپنی کتاب میں محمد تغلق بادشاہ (مرحوم) کے زمانہ کا احوال لکھتے کہتا ہے کہ صرف دہلی شہر میں ایک ہزار مدرسے تھے۔ اور الگزینڈر ہملٹن اپنے سفر نامہ میں شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت کے احوال لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ” صرف ٹھٹھہ شہر میں مختلف علوم و فنون کے چار سو کالج تھے“( 3)

الیگزینڈر ہملٹن نے اسکول، پرائمری اسکول یا مکتب لکھنے کے بجائے کالج لکھا ہے۔ جبکہ دارالسلطنت دہلی سے ایک ہزار میل سے زیادہ دوری پر بسنے والے شہروں میں اس قدر کالج تھے۔ تو باقی بڑے شہروں آگرہ، یوپی، بہار، بنگال، اڑیسہ، مدراس، بمبئی، سندھ اور پنجاب کے علاقو ں میں تعلیم کی حالت کیا ہو گی۔ جہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر ایسے پیشہ ورانہ علوم و فنون کے کالج، اسکول موجود تھے۔ ان اسکول و کالج میں چھ مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ جو گرائمر، آرٹس اور کرافٹس، طب، فلسفہ، منطق اور متعلقہ مذہبی تعلیمات پر مشتمل ہوتے تھے۔ کہ جہاں سے ماہرین پر مشتمل افراد تیار ہو کر ملکی ترقی میں اپنا اہم قومی کردار ادا کرتے تھے۔

موجودہ دور میں مسلم دور کی شاندار عمارات کو دیکھ کر تمام پیشہ وارانہ علوم کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ علم و ہنر کی روشنی میں کس طرح برصغیر میں عظیم تخلیقی صلاحیت سے فن تعمیر میں ترقی کی گئی تھی جو علمی جدوجہدکے بغیر بلکل ممکن نا تھی۔ جس میں فن تعمیر کی تفصیلی مہارت اورجیومیٹری، فزکس، کیمیسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے کے علوم شامل ہوتے ہیں۔ فن تعمیر کی جو تفصیلات تاج محل، شیش محل، شالا مار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوان خاص، لال قلعہ دہلی بھارت اور شاہی قلعہ لاہور پاکستان وغیرہ میں نظر آتی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کے معمار جیومیٹری کے علوم کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے تھے۔

تاج محل کے چاروں مینار صرف آدھا انچ باہر کی جانب جھکائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں گرے تو گنبد تباہ نہ ہوں۔ مستری کے اینٹیں لگانے کے فن میں حساب کے علم کو فراموش نہیں کر سکتے۔ اور آج تک پورا تاج محل 90 فٹ گہری بنیادوں پر سلامت کھڑا ہے۔ اس کے نیچے 30فٹ ریت ڈالی گئی ہے کہ اگر زلزلہ آئے تو پوری عمارت ریت میں گھوم سی جائے اور قدرتی آفت سے محفوظ رہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا بڑا شاہکار دریا کے کنارے تعمیر کیا گیا ہے۔ اور دریا کے کنارے اتنی بڑی عمارت ایک چیلنج ثابت ہوتی ہے۔ جس کے لئے پہلی بار ( ویل فاؤنڈیشن) بہترین مضبوط بنیاد متعارف کروائی گئی۔

یعنی دریا سے بھی نیچے بنیادیں کھود کر ان کو پتھروں اور مصالحہ سے بھر دیا گیا۔ اور یہ بنیادیں سینکڑوں کی تعداد میں بنائی گئی۔ گویا تاج محل کے نیچے پتھروں کا پہاڑ اور گہری بنیادوں کا وسیع جال ہے۔ جس کا مقصد تاج محل کو دریا کے نقصانات سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرنا تھا۔ عمارت کو اگر اندر داخل ہو کر دیکھا جائے تو اس کا نظارہ پر فریب نظر آتاہے۔ جس میں بیک وقت اسلامی، فارسی، عثمانی، ترکی اور ہندی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ اور اس فن تعمیر کے عمل میں حساب، جیومیٹری، فزکس اور کیمسٹری کے سارے علوم درکار ہیں۔ اسی لئے تاج محل کو دنیا کا ساتواں عجوبہ کہا گیا ہے۔

انگریز نے تعمیرات میں (ویل فاؤنڈیشن) بہترین مضبوط بنیاد کا آغاز انیسویں صدی اور (آپٹیکل الوژن) کا آغاز بیسویں صدی عیسوی میں کیا۔ جبکہ برصغیر میں یہ طریقہ تعمیر سترھویں صدی کے وسط میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹائل موزیک ایک فن ہے۔ جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتی ہیں اور دیوار کو منقش کیا جاتا ہے۔ یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلو میٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیر خان میں نظر آتا ہے۔ ان میں جو رنگ استعمال ہوئے ہیں ان کو بنانے کے لئے آپ کو موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کا وسیع علم اور مکمل عبور ہونا چاہیے۔ یہی حال فریسکو پینٹنگ کا ہے۔ جن کے رنگ چار سو سال گزرنے کے بعد بھی آج تک مدھم نہیں ہوئے۔ تمام مغل ادوار میں تعمیر شدہ عمارتوں میں ٹیرا کوٹا (مٹی کو پکانے کا فن) سے بنے زیر زمین پائپ ملتے ہیں۔ ان سے سیوریج اور پانی کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ مسلم فن تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے تو ان تمام علوم کو سیکھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی کئی ڈگریا ں درکار ہوں گی۔

یہ مسلم نظام تعلیم ہی تھا جو سب کے لئے یکساں تھا۔ جہاں سے بیک وقت عالم، صوفی، معیشت دان، طبیب، فلسفی، حکمران اور انجینئر نکلتے تھے۔ اس لئے برصغیر میں سب کی سوچ قومی فکر کے ساتھ ترقی کاجذبہ رکھتی تھی اور انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لئے کاربند رہتی تھی۔ معاشی حوالے سے دیکھا جائے تو مسلم ادوار بالخصوص اکبر اور عالمگیر دور حکومت میں دنیا کے کل جی ڈی پی میں اوسطا“ 25 فیصدی حصہ برصغیر کا ہوتا تھا۔ جو دنیا میں بلند ترین حیثیت رکھتا تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کامیاب معاشی گرفت رکھنے والے معیشت دان موجود تھے جنہیں اس مہارت میں مکمل عبور حاصل رکھنے کے لئے معاشی علوم کی تعلیم سے بھی ہمکنار کیا جاتا تھا۔ جس بنا پر اس خطہء عظیم کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ اس پس منظرکو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں ایک پختہ نظام تعلیم موجود تھا جہاں سے لوگ دینی اور عصری علوم حاصل کر کے خطے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

آج ہم اپنے خطہء پاکستان کے نظام تعلیم کا بنیادی جائزہ لیں تو یہ قدیم برصغیر میں مسلم دور حکومت کے نظام تعلیم جیسے نتائج پیدا کرنے سے بھی قاصر ہے۔ کہ جس کی بنیاد پر ہم یہ کہیں کہ ہمارا نظام تعلیم قدیم مسلم دور حکومت کے طریقہ پر رائج ہے۔ کہ آج جہاں پر موجودہ نظام تعلیم کے بل بوتےپر قومی تو کیا انفرادی ترقی بھی کر سکیں۔ آج ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ہمارے اسلاف، اکابرین اور مسلم حکمرانو ں نے ایک شاندار نظام تعلیم کی آڑھ میں پورے متحدہ برصغیر میں بے مثل ترقی کی ہے۔ اس لئے موجودہ نظام تعلیم کی بدحالی کا جائزہ لینے کے لئے برصغیر میں انگریز کی آمد کے بعد کے دور کا جائزہ لینا ہو گا۔ کیوں کہ جب بھی کسی مسئلے کا حل تجویز کرنے کے لئے تحقیق کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تو ماضی اور حال کے اسباب کو دیکھ کر ہی مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے۔ جو قومیں اپنے ماضی کے عروج و ذوال کو دیکھ کر مسائل کا بہترین حل تلاش نہیں کرتی رفتہ رفتہ ان کی عقلیں مار دی جاتی ہیں۔

جیسے ہم نے متحدہ مسلم برصغیر میں انگریز کی آمد سے پہلے کے شاندار دور کے نظام تعلیم کا جائزہ لیا ہے۔ اسی طرح انگریز کی آمد کے بعد کے دور کا جائزہ لیا گیا ہے کہ انگریزوں نےبر صغیر پر غلط نظام تعلیم کے ذریعے کیسے تسلط قائم کر کےاس خطہء عظیم کو غلام بننے پر مجبور کیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب جنگ پلاسی میں سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال پر اپنا قبضہ جمایا تو بر صغیر کے باقی تمام علاقوں میں انگریز ی تسلط کے خلاف شورشیں پیدا ہو نا شروع ہوئی۔ متذکرہ صورت حال میں کمپنی کو بغاوتوں کا سامنا کرتے ہوئےدشوار گزار مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ اور ان بغاوتوں کی بنیاد بھی وہی مغلوں کا قومی سوچ پر مبنی نظام تعلیم ہی تھا جس کی وجہ سے آزادی پسند طبقہ کو کمپنی کی ظالمانہ حکمت عملیوں کو کچلنے کے لئے بر سر پیکار ہونا پڑا۔ انگریزی سرکار کو خطرہ لاحق ہوا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت اگر برصغیر میں رہی تو وہ ہماری حکومت کو گرانے میں دیر نہیں کریں گے۔ جس کے نتیجے میں انگریز نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت تمام تعلیم گاہوں کو گرا کر نام و نشان مٹا دیا۔ اور تمام تعلیمی جگہوں کو 1838ء میں سرکاری قبضہ میں لے لیا۔ کیونکہ کمپنی سرکار کا بڑا مقصد برصغیر کے قدرتی وسائل کو لوٹنا اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا تھا۔ (4)

مسٹر گبر ہارڈی مسٹر میکس مولر کے حوالہ سے لکھتا ہے؛
انگریزی عملداری سے قبل بنگال میں اسی ہزار مدارس تھے۔ جہاں چار سو افراد کی آبادی کے لئے ایک مدرسہ کا اوسط ہوتا تھا۔ اسی طرح لڈلو نے تاریخ ہند میں لکھا ہے ”کہ ہر موضع (گاؤں)میں جو اپنی قدیم حالت میں قائم رہے جہاں بچے بلعموم لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ مگر جس جگہ ہم نے مثل بنگال کے پرانا نظام توڑ دیا ہے، وہاں سے گاؤں کا اسکول غائب ہو گیا ہے“ (5)
انڈین ریفارم سوسائٹی جو 1853ء سے انگلستان میں قائم تھی۔ اپنے ایک رسالہ میں لکھا ہے ” کہ ہندوؤں کے زمانہ میں ہر موضع میں ایک مدرسہ ہوتا تھا۔ ہم نے چونکہ دیہاتی میونسپل کمیٹیوں کو توڑ دیا۔ اس سے ان کے باشندے مدارس سے بھی محروم ہو گئے اور ہم نے ان کی جگہ کوئی چیز قائم نہیں کی“ (6)

1823ء میں آنر ایبل الفنسٹن اور آنر ایبل ایف وارڈن نے ایک متفقہ یاد داشت انگریزی سرکار کو پیش کی۔ جس میں واضح طور پر لکھا ہے“ کہ انصاف یہ ہے کہ ہم نے بدیسیوں کی ذہانت کے چشمے خشک کر دیے ہیں۔ ہماری فتوحات کی نوعیت ایسی ہے کہ اس نے نہ صرف ان کی علمی ترقی کی ہمت افزائی کے تمام ذرائع کو ہٹا لیا ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ قوم کے اصلی علوم بھی گم ہو جانے اور پہلے لوگوں کی ذہانت کی پیداوار فراموش ہو جانے کا اندیشہ ہے اس الزام کو دور کرنے کے لئے کچھ کرنا چاہیے“(7)

انگریز نے برصغیر کو ہمیشہ غلام رکھنے اوربرصغیر سے وسائل کو لوٹنے اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی یہی پالیسی اختیاررکھی کہ یہاں کے باشندوں کی ذہانت با لکل برباد کر دی جائے تاکہ ان میں علمی بیداری پیدا نہ ہونے پائے۔ ان کے ہر کمالات فن نیست و نابود کر دیے جائیں۔ اور انہیں غلام بنا کر ہمیشہ خدمت گزاری کے لئے رکھا جائے اور کاشتکاری کے لئے مزارع بن کر کام کرتے رہیں۔ تا کہ ہمارے طرز حکومت پر کوئی سوال نہ اٹھا سکے۔ لیکن اس کے باوجود انگریزی سرکار کو مخالفتوں کا زور دبانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ا۔ جس کے نتیجے میں سرکار کو اس امر کی ضرورت پیش ہوئی کہ کوئی ایسا نظام تعلیم وضع کیا جائے۔ جس کی بنیاد پر یہاں کے باشندے کمپنی سرکار کے آلہ کار کے طور پر کام کریں جس سے مخالفتوں کا زور تھم جائے۔ 1834ء میں تعلیمی پالیسی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا اجلاس 7 مارچ 1835ء میں منعقد ہوا اور لارڈ میکالے کو اس کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ لارڈ میکالے نے تعلیمی اغراض و مقاصد کے لئے ایک رپورٹ پیش کی۔ “ کہ ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں کی رعایا کے درمیان مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہیے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق اور رائے الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو“ (8)

اس کمیٹی میں باقی تمام ممبران کمیٹی کی رائے بالائے طاق رکھتے ہوئے لارڈ میکالے کےفلسفہ تعلیم پر اتفاق کرتےہوئے عملی طور پر ترجیح دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ان تمام کمیشنوں، کمیٹیوں کے ذریعے تمام مقاصد کا ظہور تھوڑے ہی عرصے میں ہو گیا۔ اور ان کالجوں، یونیورسٹیوں سے جو طالب علم فارغ التحصیل ہو کر نکلنے لگے وہ اپنے اسلاف کے مذہب اور ان کے طریقوں سے بیزار اور متنفر نظر آتے تھے۔ اور رفتہ رفتہ ترقی کی سوچ سلب ہونے لگی۔ جس کے نتیجے میں انگریزی سرکار 175 سالوں میں صرف 10 فیصدی طبقہ کو تعلیم یافتہ بنا سکی۔ ( 9)

قیام پاکستان کے بعد انگریز تو چلا گیا لیکن جانے کے بعد آج تک اسی نظام تعلیم کو جاری و ساری رکھا گیا جو لارڈ میکالے کے نظریات پر انگریزی سرکار نے پورے بر صغیر میں رائج کیا تھا۔ محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علیخان کی وفات کے بعد پاکستان میں تعلیم کے لئےجتنی حکمت عملیا ں رائج کی گئی سب بے سود رہی۔ ہمارے ہاں تعلیمی ادارے تو قائمکیے گئے اور سرکاری سطح پر بھی تعلیمی ترقی کے لئے مختلف ادوار میں بے شمار اقداماتکیے گئے۔ لیکن ان 70 سالوں میں آج تک وہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ جس کے بلند و بانگ دعوے پاکستان کو معرض وجود میں لانے کے لیے کیےگئے تھے۔ آج اگرترقی یافتہ اور دیگر ترقی پذیر اقوام کے برعکس تعلیمی ترقی کا موازنہ کریں تو ہم ان سے صدیوں پیچھے نظر آتے ہیں۔ جن کی مختلف مثالیں ہم اپنے خطے ایشیاء میں روس، چین، بھارت، ملائیشیا، سنگا پور اور دیگر ترقی پذیرممالک کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں تعلیم کی بنیاد پر جدید تقاضوں پر ترقی کی گئی۔

پاکستان میں نظام تعلیم کی رنگا رنگی نے نصاب کو بھی کئی رنگ کا بنا دیا ہے۔ ہم اب تک قدیم و جدید، مغربی و مشرقی، دنیاوی اور دینی علوم کے گورکھ دھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر ہم قدیم علوم پر اکتفا کرتے ہیں تو یہ نئے تمدنی تقاضوں کی تکمیل میں بیکار اور مردہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور اگر با امر مجبوری نئے علوم کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ان سے پیدا کیا ہوا تمدن ان تہذیبی تصورات کو مضحکہ خیز اور غیر حقیقی بنا دیتا ہے جو لارڈ میکالے کے فلسفہ تعلیم، میکاولی کے فلسفہ سیاست، ایڈم سمتھ کے فلسفہ معاشیات پر مبنی ہیں۔ جن کا تعلق سماجی، معاشی طور پرہمارے اسلامی عقائد سے بھی نہیں ملتا۔

اس نظام تعلیم سے جو کوئی گریجوایٹ کی ڈگری لے کر نکلتا ہے وہ انفرادیت، سرمایہ پرستی اور شخصیت پرستی پر مبنی تین قسم کی سوچ لے کر نکلتا ہے۔ وہ وحدت انسانیت اور اجتماعیت کے شعور سے بیزار نظر آتا ہے۔ کیونکہ موجودہ نظام تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہےجو اسی نظام کے لئے بہترین پرزہ بن سکیں۔ جن کا مقصد ٖصرف کلرک پیدا کرنا ہے۔ جو ساری زندگی اسی چکر میں رہتے ہیں کہ اخراجات کا بوجھ کیسے برداشت کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں رشوت خوری جیسے جرائم جنم لیتے ہیں۔ یہاں سائنسی علوم میں گریجوایٹ اور سکالرز تو بہت ملیں گے لیکن تحقیقی اور ایجادات کی صلاحیت رکھنے کے باوجودبالکل معزور نظر آیئں گے۔ جن کا مقصد صرف زیادہ سے زیادہ دولت کمانا اور انفرادی ترقی کو ترجیح دینا بن جاتا ہے۔ جو نوجوان مہنگے داموں طبی علوم حاصل کر کے ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔ تو یہی نظام انہیں قومی اور بین الاقوامی دواساز کمپنیوں کا آلٰہ کار بننے پر مجبور کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ڈاکٹر بن کر زیادہ سے زیادہ دوا بیچنے کے چکر میں اعلیٰ مراعات حاصل کرنے کی دوڑ میں نظر آتے ہیں۔ اور بھاری معاوضہ کی آڑھ میں انسانیت کا غلا گھونٹ کر خدمت انسانی کی سوچ سے دور ہوتےہیں۔ اگر کوئی انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر کے نکلتا ہے تو سرمایہ داروں کے کارخانوں میں کولہو کے بیل کی طرح چند ہزار پراٹھارہ گھنٹے تک کام کرتا ہے جس سے اسے اپنی خاندانی و سماجی زندگی کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اور جو نوجوان سرکاری محکمہ میں بطور انجینئر تعینات ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ محض کاغذات پر دستخط کرنے کے قابل ہوتے ہیں جن کی تمام اعلیٰ فنی صلاحیتیں وقت کے ساتھ زنگ آلود ہو چکی ہوتی ہیں۔ اور جو لوگ سرکار کی اعلیٰ نوکری کے حصول کے لئے مقابلے کے کڑے امتحان سے گزر کر بیوروکریسی میں آتے ہیں۔ ان کا مقصد معاشرے کو بھیڑ بکریوں کی مانند صرف کنٹرول کرنا اور سیاستدانوں اور دیگر اعلیٰ اشرافیہ کومحفوظ کرنا ہوتا ہے۔

جس قوم میں تعمیر، تعلیم اور صحت کے شعبے منافع بخش کاروبار بن جائیں اسے دنیا کی کوئی طاقت تباہی سے نہیں بچا سکتی۔ (نیلسن منڈیلا)

اور جو معاشیات کے شعبہ سے منسلک ہوتے ہیں وہ قومی و بین الاقوامی سرمایہ داروں کی دولت کا تحفظ کرتے ہوئے ان کی دولت بڑھانے میں آلٰہ کار کے طور پر معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جو سیاسی و سماجی علوم حاصل کر کے سماجی میدان میں اترتے ہیں ان کے اندر میکاولی فلسفے پر مبنی شخصیت پرستی اور غلط سیاسی سوچ سرایت کی ہوتی ہے۔ جو اعلیٰ سیاسی شعور سے عاری کر دیتی ہے۔ اور دینی مدارس میں تعلیم صرف اپنےاپنے فرقے اور عقیدے کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ جو محض گروہیت، لسانیت اور فرقہ واریت کو طول دے کر نوجوانوں کو زندگی کے اعلیٰ مقصد سے دور کر دیتی ہے۔ اورکبھی بھی لوگ دہشت گرد اس لئے نہیں بنتے کہ وہ ان پڑھ ہوتے ہیں یا تعلیم ان تک نہیں پہنچتی۔ وہ دہشت گرد اس لئے بنتے ہیں کیونکہ غلط طریقے سے تعلیم ان تک پہنچتی ہے۔

اسی تناظر میں حضر ت شاہ سعید احمد رائے پوری (رح) نوجوانوں سے گفتگوکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ“آپ غور کریں ہمارا نظام نوجوان کے ساتھ کتنا ظلم کر رہا ہے۔ نوجوان مہنگی تعلیم حاصل کرکے بھی مارا مارا پھرتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس کو حالات مجبور کرتے ہیں کہ ملک سے باہر جائے۔ وہ اپنے غریب ماں باپ کو جنہوں نے بچوں کو تعلیم دلوانے میں کتنی قربانیاں دے کر اس کو پڑھایا ہوتا ہے اور آج جب ان کو سہارے کی ضرورت ہے تو ہمارا نظام انہیں سنہرے خواب دکھا کر ملک سے نکال دیتا ہے۔ کہ جاپان، جرمنی، برطانیہ جاؤ وہاں محنت کرو۔ اور مادر پدر آزادی میں اس کا مزاج بگاڑ دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے نوجوان کو کہاں دھکیل رہے ہیں۔ یہ سب اس لئے کیا جا رہا ہے کہ تعلیم حاصل کر کے نوجوان کو اپنے مسائل پریشانیوں کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ ہمارا نظام اسے ملک سے باہر اس لئے دھکیلتا ہے تاکہ وہ باشعور ہو کر یہاں انقلاب نہ لے آئیں۔ ان میں موجودہ نظام کے خلاف شعور نہ پیدا ہو جائے۔ اس لئے اسے ملک سے باہر دھکیلا جاتا ہے۔ تا کہ یہ وہاں جائے اور جانوروں کی طرح کام کرے۔ اوور ٹائم لگائے۔ پیسے جمع کرے اور ڈالر پاؤنڈ بنا کر یہاں بھیجے اور یہاں کا عیاش طبقہ اس زرمبادلہ سے عیاشی کرے“۔

حضرت عبیداللہ سندھی( رح) اپنی کتاب افادات و مقالات میں بیان کرتے ہیں کہ“ ہمارا نوجوان بے قصور ہے۔ اسے اپنے کالج، یونیورسٹی یا مسجد میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے یہ ویسے ہی تصورات رکھتا ہے۔ اسے غلامی کا درس دیا جاتا ہے۔ اسے فرسودہ سیاسی، معاشی نظام پڑھایا جاتا ہے۔ خاص قسم کا ٹائی والا لباس یا خاص قسم کی پگڑی، خاص قسم کا تھری پیس لباس اور جبہ، خاص قسم کے مذہبی وظائف رسومات تو سکھلائی جاتی ہیں لیکن قرآن کا معاشی، سیاسی، سماجی اور عمرانی نظام نہیں پڑھایا جاتا“۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ” جس طرح پانی بہتے دریا سے بے تعلق ہو جائے تو اس میں سڑاند (بدبو) پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح فکری اور ذہنی علیحدگی قوموں کے دماغ کو مفلوج کر دیتی ہے“۔

اس نظام تعلیم کا بنیادی نقص ہی یہ رہا ہے کہ یہ بلند مقصد اور کسی اعلیٰ نصب العین کی محبت قوم میں پیدا نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے سامنے اپنے شکم اور نفس سے زیادہ اہم مطالبات ہوتے ہی نہیں اور اس سے بلند کوئی اور مقصد نظر ہی نہیں آتا جس کے لئے قومی جدو جہد کی فکر پیدا کر سکیں۔ اس طرز تعلیم سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ اسلام حجروں اور خانقاہوں میں مقید رہے اور تمدنی زندگی میں ہم سرکار کے آلہ کار بن کر کولہو کے بیل کی طرح جتے رہیں۔ اور ہمیں کل تک زندہ رکھنےکے لئے چارہ دے دیا جائے تاکہ ہم پر استحصالی نظام قائم رکھا جائے اورجاگیردار، سرمایہ دار طبقہ کےسامراجی مقاصد پورے ہوتے رہیں اور نوجوانوں کے اندر قومی ترقی کے لئے اجتماعی فکر بیدار نہ ہوسکے۔

آج ہمیں اپنے نظام تعلیم کا مکمل جائزہ لینا ہو گا۔ کہ کیا یہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق ہے؟ اس کا نظریہ آزاد قوم کا ہے یا غلام قوم کا ہے؟ کیونکہ زوال شدہ معاشرے میں فرسودہ نظام تعلیم کی پہچان جذباتیت، انفرادیت، سرمایہ وشخصیت پرستی اور تاریخ سے لا علمی ہوتی ہے۔ اور اسی نظام کے تحت انفرادی ترقی، خود غرضی اور انفرادی اصلاح کے تصورات غالب آ جاتے ہیں۔ جس نے اچھی تقریر کی سب اس کے پیچھے لگ گئے۔ جس کی بنیاد پر تمام مسائل کا حل بھی ایک شخصیت میں تلاش کیا جانے لگتا ہے۔ اور قومی اداروں کی تشکیل، اہمیت اور اثرات کا تصور موہوم اور ناپید ہو جاتا ہے۔ تاریخ سے لاعلمی اور یاد داشت کی کمزوری جیسے امراض کی وجہ سے ہر بار ایک نئے دھوکے کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں سب سے اولین اور بنیادی کام نوجوانوں کوجذباتیت، انفرادیت اور شخصیت پرستی سے نکال کر علم، عقل و شعور، اجتماعی جد و جہداور تاریخی تسلسل کی طرف لے کر جاناہے۔ پھر ہی ایک بہتر اور خوشحال معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔

حوالہٰ حواشی:
برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا؟ صفحہ 46 ازمولانا سید حسین احمد مدنی۔ (1)
حیات حافظ رحمت خاں صفحہ 674 بحوالہ مسلمانوں کا روشن مستقبل۔ (2)
برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا؟ صفحہ 46 ازمولونا سید حسین احمد مدنی۔ (3)
4۔ مسلمانوں کا روشن مستقبل از سید طفیل احمد منگلوری۔ (4)
5۔ تاریخ باسو جلد پنجم صفحہ 14 بحوالہ مسلمانوں کا روشن مستقبل۔ (5)
مسلمانوں کا روشن مستقبل صفحہ 112 از سید طفیل احمد منگلوری۔ (6)
مسلمانوں کا روشن مستقبل صفحہ1 12 از سید طفیل احمد منگلوری۔ (7)
مسلمانوں کا روشن مستقبل صفحہ4 12 از سید طفیل احمد منگلوری۔ (8)
برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا؟ صفحہ 46 ازمولونا سید حسین احمد مدنی۔ (9)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).