آپ کو لڑکی چاہیے یا لڑکا؟


کبھی کبھی اخبار کے اندر والے صفحات پر ایک چھوٹی سی خبر پڑھ کر دل ڈر سا جاتا ہے۔ پچھلے ہفتے انڈیا سے خبر آئی کہ دو کروڑ سے زیادہ ایسی لڑکیاں ہیں جو ان کے ماں باپ کو نہیں چاہئیں۔ مطلب کہ لڑکے کی آس تھی، لڑکی پیدا ہو گئی، لیکن تسلی نہیں ہوئی اور اس وقت تک لگے رہے جب تک لڑکا نہیں پیدا ہو گیا۔

تعویذ گنڈے بھی کرائے ہوں گے، رب سے دعا بھی مانگی ہو گی کہ یا اللہ، ہمیں لڑکی نہیں چاہیے، ہمیں لڑکا ہی دے۔ میرا ان لوگوں سے ایک ہی سوال ہے کہ تم کون لوگ ہو؟ کبھی اپنے آس پاس دیکھو کہ ہمارے لڑکے کیا کر رہے ہیں اور ہماری لڑکیاں کدھر پہنچ گئی ہیں۔

پاکستان میں پچھلے بیس برسوں سے یونیورسٹی کا ہر امتحان لڑکیاں ٹاپ کر رہی ہیں۔ سب سے بڑی وکیل، لکھاری صحافی، گھروں میں، کھیتوں میں، ہماری زندگی لڑکیوں کے کاندھوں پر چل رہی ہے۔ پھر بھِی ہم کہتے ہیں کہ لڑکیاں نہیں چاہئیں۔

بہنوں اور بھائیو۔ اپنے ارد گرد دیکھو۔ لڑکیاں دیکھو۔ لڑکے دیکھو۔ پھر بتاؤ کہ لڑکی چاہیے یا لڑکا۔ ہمارے اپنے دوست بال بچے دار ہیں۔ ان سے بات کرو اور پوچھو کہ لڑکی کیا کر رہی ہے تو جواب ملے گا کہ بیٹی ایم اے سوشیالوجی کر رہی ہے۔ ساتھ شام کو کمپیوٹر کا کورس بھی کرتی ہے۔ کسی لڑکے والے سے پوچھو کہ بیٹا کیا کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ بیٹا بس چرس پیتا ہے اور کچھ نہیں کرتا۔

لڑکی ابھی سکول میں ہوتی ہے کہ گھر پر مشکل وقت آ جائے تو پورا گھر سنبھال لیتی ہے۔ لڑکا بیس سال کا ہو جائے تو بھی اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ پینٹ اتار کر فرش پر نہیں پھینکتے بلکہ الماری میں ٹانگتے ہیں۔

چھوٹی عمر میں جنگ چھڑ جائے تو ملالہ جیسی لڑکیاں للکارتی بھی ہیں، سر میں گولیاں کھا کر بھی گالی نہیں دیتیں۔ کرموں والی نے نوبل پرائز بھی جیت لیا ہے، لیکن اس کی عمر کا لڑکا باپ کی کمائی سے خریدے سمارٹ فون پر فیس بک اکاونٹ بنا کر بہت خوش ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے ”وٹ ہیز ملالہ ڈن فار دس کنٹری؟ “

جو بندے چاہتے ہیں کہ بس لڑکا ہی ہو، ان کے دو کام ہیں۔ یا کرکٹ دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہمارا لڑکا بڑا ہو کر ویرات کوہلی بنے گا، یا پھر اینیمل پلینٹ دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہمارا لڑکا ببر شیر ہے۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ شکار تو شیرنی کر کے لاتی ہے، شیر تو اتنا لمبا سوتا ہے کہ اٹھتا ہی اس وقت ہے جب روٹی تیار ہو۔

جن بھائیوں کو لڑکی نہیں لڑکا چاہیے ہوتا ہے وہ پاکستان کی ایک لڑکی دیکھ لیں۔ عاصمہ جہانگیر چلی گئی ہیں لیکن ان کے کام نہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ہمارے لڑکے ایک پہیے پر موٹر سائیکل چلا کر اپنے آپ کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ عاصمہ نے اٹھارہ سال کی عمر میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف مقدمہ کیا اور جیت بھی لیا۔

جس عمر میں ہمارے لڑکے کہتے ہیں کہ ”ابو نوکری نہیں مل رہی، مجھے گاڑیوں کا شو روم کھول دیں“، اس عمر میں عاصمہ نے ہزاروں لاکھوں بھٹہ مزدوروں اور ہاریوں کو غلامی سے آزادی کرایا اور ان کی بیڑیاں اپنے ہاتھوں کھولیں۔ یہ سارے کام ہنستے کھیلتے کیے۔ جرنیلوں، ججوں اور مولویوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھی دیکھا اور ان کو ساتھ جگتیں بھی ماریں۔ اور اپنی زندگی میں ہی اتنا پیار کمایا کہ ان کے جنازے میں لڑکیاں پہلی صف میں آن کھڑی ہوئیں۔

اس پر بھی میرے بھائیوں کو تکلیف ہے کہ بھئی یہ تو رب کی مرضی نہیں کہ لڑکی پہلی صف میں کھڑی ہو۔ یہ میرے وہی بھائی ہیں جو لڑکے مانگتے ہیں۔ بھائیو اگر رب کو مانتے ہو تو لڑکے مانگنے چھوڑو، سجدے کرو کہ اس نے تم پر کرم کیا ہے اور لڑکی دی ہے۔ ہاں اگر خود کو جنگل کا بادشاہ سمجھتے ہو تو سو جاؤ، شیرنی شکار پر نکلی ہے، پلٹے گی تو لگ پتہ جائے گا۔

بی بی سی پنجابی کے ویڈیو بلاگ سے ترجمہ۔

Mar 1, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).