تمثیل نگار نے تائب ہو کر کنجر بننے کا فیصلہ کیسے کیا؟


کمرا روشن تھا، ایسا نہیں جیسا فلموں‌ میں دکھاتے ہیں، کہ ملزم کے سر پر ایک زرد بلب جلتا ہو۔ تفتیش کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔
”اچھا تو تم ہو، جو ہر وقت اُلٹی سیدھی باتیں لکھتا رہتا ہے“؟
ملزم خوف زدہ تو تھا، لیکن اپنے خوف پر قابو پاکر مذاق کی سوجھی۔
”اُلٹی سیدھی لکھنا میرا فن ہے۔ ڈرامے لکھتا ہوں، ناں“!

”سب ڈرامے تمھاری ”ناک“ کے راستے باہر نکال دوں گا“۔
اتنا کہتے ایک زوردار ٹھڈا خطرناک ملزم کے پیٹ میں دے مارا۔ کرسی اُلٹ کر دور جاگری، ساتھ ہی خطرناک مجرم بھی لڑھک گیا۔ وہ ہتک کے گھمبیر احساس کا بوجھ اٹھائے بمشکل اٹھا۔
”نہیں جی، قسم لے لیں، میں پاکستان کے حق میں لکھتا ہوں۔ پاکستان کے عوام کی بھلائی کا سوچ کے لکھتا ہوں“۔
”تم ہوتے کون ہو، یہ بکواس لکھنے والے“۔
وہ منمنایا، ”مم! میں ایک تمثیل نگار ہوں“۔

اتنا سننا تھا، کہ اس پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردی گئی۔
”کنجر ہو، اور اپنے لیے معزز الفاظ استعمال کرتے ہو“۔
وہ گڑگڑانے لگا، ”ڈراما لکھتا ہوں؛ ٹی وی کے لیے“۔
”یہی تو کہا، کنجر ہو۔ تم جیسوں کی وجہ سے سماج میں فحاشی پھیلی ہے“۔
”میں صرف لکھتا ہوں“۔

”ایسے تم اپنے جرم سے انکار نہیں کرسکتے“۔ گرج کے کہا گیا۔
”لیکن میرا جرم کیا ہے“؟ اس نے تقریبا روتے ہوئے سوال کیا۔
”پاکستان کے خلاف لکھنا، نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنا“۔
”نظریہ پاکستان“؟ وہ بے یقینی سے گویا ہوا۔
”تمھیں نظریہ پاکستان کا نہیں پتا“؟
”پتا ہے جی۔ نظریہ پاکستان، یعنی پاکستان کا نظریہ“۔
”اور تم پھر بھی اس نظریے کے خلاف لکھتے رہے“؟

”میں نظریے کے خلاف نہیں لکھتا“۔ وہ اپنی صفائی میں مزید کچھ کہتا، کہ اسے بیٹھنے کو کہا گیا۔ یک دم تفتیشی کا لہجہ بدل گیا، جیسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہو۔
”میں معذرت چاہتا ہوں، مجھے اس طرح آغاز نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن تم بھی تو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہو، یہ تمھارا جرم ہے“۔

اس نے اپنی چوٹوں کو سہلاتے کہا، ”میں پاکستان کی سالمیت کا دشمن کیسے ہوسکتا ہوں، میں پاکستان ہوں“۔
”پاکستان کے اداروں کے خلاف تمھارا باپ لکھتا ہے“؟
”شکایت کرنا دشمنی تو نہیں۔ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے“۔
”تمھیں اس شکایت کا حق کس نے دیا؟ حدود تم بتاو گے“؟ لہجہ ایک بار پھر کھردرا ہوگیا۔
”میں پاکستان کا شہری ہوں۔ یہ میرا بنیادی حق ہے“۔

”کن چکروں میں پڑگئے ہو۔ تمھاری بنیاد ہی کیا ہے! یہ بتاو؛ ڈرامے لکھنے کے اچھے پیسے نہیں ملتے“؟ تفتیش کرنے والے کو اس پر غصہ بھی آ رہا تھا، اور رحم بھی۔
”بہت مناسب رقم ملتی ہے“۔
”تو پھر غیرملکی ایجنڈے پر کیوں‌ لکھتے ہو؟ اس کے کتنے پیسے ملتے ہیں“؟

”میں سوشل میڈیا پر لکھتا ہوں، اور وہاں لکھنے کا مجھے کچھ نہیں ملتا۔ وقت ضایع ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے۔ توجہ بٹ جاتی ہے، اور کئی کئی مہینے ٹی وی ڈراما نہیں لکھ سکتا۔ مالی نقصان الگ“۔
تفتیشی نے ایک سرد آہ بھری۔ ”اس کا مطلب ہے، تم اپنی خوشیوں کے خود ہی دشمن ہو“!
”جی“؟
”سگریٹ پیتے ہو“؟
”جی“!

سگریٹ پیش کیا گیا، اور نرمی سے سمجھایا۔ ” پیسا کماو، بچوں پر لگاو؛ لکھاو؛ پڑھاو۔ کیوں ان کی جان کے دشمن ہوئے ہو؟ تمھاری یہاں سے لاش جائے، تو اُن کا کیا ہوگا“؟
سگریٹ کا دھواں اس کے حلق میں اٹک گیا، ایسے میں وہ کھانس کے بولا، ”میری لاش کیوں؟ آپ نے تفتیش کے لیے بلایا ہے“۔
”ہمیں چیلنج کرو گے، تو یہی ہوگا“۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کیا“۔

”پاکستان کے خلاف لکھ کر کتنا کمالیتے ہو“؟
”میں پاکستان کے خلاف نہیں لکھتا“۔ اس نے ایک بار پھر اصرار کیا۔
”چلو! ہمارے ادارے کے خلاف سہی“۔

”میں آپ کے ادارے کے خلاف نہیں، اس کے سیاسی کردار کے خلاف لکھتا ہوں۔ یہ آئین کے مطابق“۔
”بکواس بند کرو۔ آئین ہم ہیں اور ہم نے اس کی اجازت نہیں دی“۔
وہ سخت گھبرایا ہوا تھا۔ ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی بیٹھا۔ ” تو کیا پاکستان بھی آپ ہی ہیں“؟
”کوئی شک“؟
”نہیں“! وہ ہار مان چکا تھا۔ قلم اور جبر کا مقابلہ ہی کیوں کر۔

”یہ بتاو! تم مرگئے تو تمھارے بچوں کا کیا ہوگا؟ سوچا ہے کبھی“؟
”نہیں! میں آیندہ پاکستان کے خلاف نہیں لکھوں گا۔ بل کہ پاکستان کی شان میں قصیدے لکھوں گا“۔
”اور اگر تم مکرے“؟
”نہیں مکرتا۔ مکرا تو یہیں ہوں۔ پاکستان سے بچ کر کہاں جاوں گا“۔

”شاباش! میرا اندازہ دُرست تھا۔ تم آسانی سے لائن پہ آ جاو گے۔ بچوں کو پڑھاو لکھاو، دین کی تربیت دو، اچھا آدمی بناو۔ سچ بولنا سکھاو۔ کیوں مشکل میں ڈالتے ہو، خود کو ان کو“۔
”میں نے سوچ لیا ہے، ایسا ہی کروں گا“۔
”شاباش“!

”پڑھاوں لکھاوں‌ گا، انھیں پاکستان میں بھرتی کراوں گا، تاکہ وہ اپنی عزت نفس محفوظ رکھ سکیں۔ پاکستان سے باہر رہ کر اس ملک میں اپنی عزت نفس بچانا ممکن ہی نہیں رہا“۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran