ساجد مسیح ! بہار ستر سال کا دکھ ہے


برگن بیسلن آخری کیمپ تھا جہاں خوراک میں انسانی گوشت وافر مقدار میں دستیاب تھا۔ وقت بہت تھا پر سانسیں گنتی کی تھیں۔ احاطے میں کھڑے واحد درخت نے، دیکھتے دیکھتے چند دنوں میں پتے گرا دئیے۔ تن آور درخت کہاں بنجر ہوتے ہیں، اور بہار میں تو بالکل نہیں ہوتے، مگر بہار آئی کب تھی۔ یہ تو بس کیلنڈر پر فروری کا مہینہ سرک رہا تھا۔ اس پورے احاطے میں پانی کا ایک نل تھا جہاں سے سارے قیدی پانی پیتے تھے، اور کھانے کو درخت کی جڑیں کھودتے۔ جڑیں ختم ہو گئیں۔ درخت سوکھ گیا۔ انسانوں کی لاشیں ایک ایک کر کے گرنے لگیں۔ جنہیں زندگی کی امید تھی انہوں نے گوشت پوست کے بھائیوں، رشتہ داروں کا کچا گوشت کھانا شروع کیا۔

فریڈی نالر بائیس برس کا تھا جب جرمنی پر ہٹلر کا سورج نصف النہار تھا۔ فریڈی عقیدے کے جرم میں ہالوکاسٹ کے حراستی کیمپ میں پہنچا تھا۔ پیدائش کے اس جبر نے فریڈی کو مجرم بنا دیا تھا۔ حراستی کیمپوں کے مظالم نے فریڈی سے زندگی کی امید چھین لی تھی۔ فریڈی ہر دن موت کی تمنا کرتا مگر موت نے آنے سے انکار کر دیا۔  Auschwitz کیمپ کی سختیاں اسے مار نہ سکیں تو اسے ”موت کی پریڈ“ کی سزا ملی۔ یہ پریڈ بیس میل کے ایک برفیلے صحرا پر مشتمل تھی۔ قیدی بغیر خوارک اور جوتوں کے سخت سرد موسم میں Auschwitz کیمپ سے Gleiwitz کیمپ بھیجے جاتے۔ فریڈی یہاں بھی بدقسمت نکلا اور موت اسے نہ آ سکی۔ برگن بیسلن، فریڈی کی سزا کا آخری کیمپ تھا۔ اس کیمپ میں پینے کو پانی دستیاب تھا اور کھانے کو اپنے مرتے بھائیوں کا گوشت۔ فریڈی مر نہ سکا۔

رہائی کے بعد پینتیس سال تک فریڈی خاموش رہا۔ وہ بول نہیں سکتا تھا، سو نہیں سکتا تھا، کھا نہیں سکتا تھا۔ اس کے حواس معطل رہے۔ ستاون سال کی عمر میں فریڈی نے پھر سے بولنا شروع کیا مگر اس نے ہالوکاسٹ اور حراستی کیمپوں کی کہانی پھر بھی بیان نہیں کی۔ فریڈی 1945 میں ہٹلر کے جبر کا شکار رہا اور جنوری 2015 کی شام تک خاموش رہا تھا۔ جنوری کی اس شام ایک رپورٹر جانے کیوں فریڈی کے پاس آیا تھا جب فریڈی نے خلا میں گھورتے گھورتے کہا، ’ Auschwitzکیمپ ستر سال کا دکھ ہے‘۔

کئی برس پہلے وجاہت مسعود کی پنجابی شاعری کی کتاب ’ والٹن کیمپ نہیں مکیا‘ کے عنوان سے چھپی تھی۔ دو برس پیشتر مرشدی نے عنوان کی کہانی لکھی تھی۔ ’کامنی پنجابی نہیں جانتی تھی۔ پوچھا ابا کی کتاب کا نام کیا ہے۔ تنویر نے بتایا ”والٹن کیمپ نہیں مکیا“۔ چھ برس کی بچی والٹن کیا سمجھتی مگر یہ سوال کرتی تھی۔ ماں نے سمجھایا کہ بیٹا جب پاکستان بنا تو تمہاری دادی لاہور کے والٹن کیمپ آکر اتری تھی۔ نیا وطن قائم ہوا تھا۔ خیال یہ تھا کہ یہاں ہم آزاد ہوں گے۔ ہمیں حقوق ملیں گے۔ اور یہ کہ ہم انصاف کے اصولوں پر زندگی گزاریں گے۔ تمہارا باپ کہتا کہ ہمارے خواب پورے نہیں ہوئے‘۔

ساجد مسیح ! فریڈی نالر کا جرم اس کا عقیدہ تھا جو اس کی پیدائش کا جبر تھا۔ تمہارا جرم بھی یہی ہے۔ تمہارا دامن ببول کے کانٹوں میں نہیں الجھا، نظریاتی سرحد کی باڑھ میں الجھا ہے۔ ہم نے مملکت خداداد کی سرحدوں پر ایک نظریاتی باڑھ لگا رکھی ہے۔ یہاں دامن الجھتے رہیں گے۔ تمہیں جان لینا چاہیے کہ تمہارے ہم وطن رنگ، نسل، جنس، زبان اور عقیدے کی بنیاد پر نفرت کو جائز سمجھتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں تمہارے جیسوں کے لئے الگ برتن رکھے ہوتے ہیں۔ تم نے جانے سنا ہے یا نہیں مگر میں نے سنا ہے کہ روٹی کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ سنو! یہاں روٹی کی نہ صرف زبان ہے بلکہ اس کا عقیدہ بھی ہوتا ہے۔ فریڈی نالر کا دکھ ستر سال پر مشتمل تھا۔ ستر برس ہوئے وجاہت مسعود کا والٹن کیمپ نہیں مکیا۔ تم ابھی سانس لیتے رہو۔ جب کبھی تم اس بستر سے اٹھو گے اگر تم اٹھ سکے، تو سنو گے کہ ہالوکاسٹ ایک جھوٹ ہے۔ تم سنو گے کہ بھارت میں ہندوتوا کے پجاری اقلیتوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ تم ان باتوں پر مسکرانا مت۔ اس سے کسی امام عصر کے خیالی آبگینے میں دراڑ آ سکتی ہے اور تم پر اہانت کا الزام۔

ساجد مسیح ! بہار ستر سال کا دکھ ہے۔ ابھی سورج کے طلوع ہونے میں بہت وقت پڑا ہے۔ بہاروں میں برگد کے بہت سے بوڑھے پیڑ ابھی بنجر ہونے کو ہیں۔ تب تک کیلنڈر پر فروری کو سرکتے دیکھا کرو۔ چپ رہا کرو۔ اپنے عقیدے پر شرمندگی کا اظہار کرتے رہا کرو۔ یہاں کے دستور الگ ہیں۔ یہاں انسان برابر نہیں ہوتے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah