عطا الحق قاسمی اور تاریخ کا محفوظ فیصلہ


گزشتہ ماہ استاذی کی 75ویں سالگرہ کی تقریب میں جناب مجیب الرحمٰن شامی سے لے کر اس ادنیٰ قلم کار تک ان سے محبت کرنے والے خاص وعام اکھٹے تھے۔ سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلے اصغرندیم سید روسٹرم پر آئے اور استاد محترم سے ایک تفصیلی سوال کیا۔ لب لباب یہ تھا کہ وہ اپنے چاہنے والوں کو ان وجوہات سے آگاہ کریں، جن کی بنا پر وہ چیئرمین پی ٹی وی کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ اس سوال کا جواب ہر کوئی جاننا چاہتا تھا، سو حاضرین ہمہ تن گوش ہو گئے۔ استاذی نے اپنے سامنے میز پر پڑا مائیک اٹھایا اور سنجیدگی سے نہایت مختصر مگر جامع جواب دیا۔ فرمایا ”نہیں بتاتا“

عطا الحق قاسمی کی زندہ دلی، بزلہ سنجی، شگفتگی اور برجستگی ان کی کتابوں، سفرناموں، کالموں، ڈراموں اور شاعری ہی میں نہیں، تصنع اور بناوٹ سے پاک اور زندگی کی توانائیوں سے بھرپور ان کی گفتگو سے بھی ہویدا ہے۔ ان کی محفل نشینی کا اپنا ہی لطف ہے۔ وہ گھنٹوں پر محیط نشست میں بھی شمع محفل ہی رہتے ہیں اور وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ ان کے وسیع حلقہ رفاقت میں بلند نشینوں سے لے کرخاک نشین تک شامل ہیں۔ اسی بات کو ذرا مختلف الفاظ میں کہا جائے تو ایک جہاں عطا الحق قاسمی کی بے کراں محبت کی برکھا میں جل تھل ہے۔ انہیں محبتیں کرنے اور محبتیں تقسیم کرنے کا فن خوب آتا ہے۔ وہ جتنا بڑا دماغ رکھتے ہیں، اتنے ہی بڑے دل کے مالک بھی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے بعد میں اصغرندیم سید کے سوال کا تفصیلی جواب بھی دیا، جس کاخلاصہ یہ تھا کہ انہیں پی ٹی وی کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے لئے کھل کر کام نہیں کرنے دیا جا رہا تھا اور اس بنا پر جب انہوں نے سمجھا کہ اب ان کی کمائی حلال نہیں قرار دی جا سکتی تو وہ مستعفی ہو گئے۔ تاہم ان کے پہلے جواب نے شرکائے تقریب کو بے ساختہ قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیا۔

ہم نے استاد محترم کی رفاقت میں ان کے دل میں موجزن تین شوق دیکھے ہیں۔ علم وادب اور فنون لطیفہ کا فروغ، سیاحت اور استعفے دینا۔ انہیں پی ٹی وی کے ساتھ 35 برس کی رفاقت اور تجربے کی بنا پر چیئرمین لگایا گیا۔ ان کا تجربہ لگ بھگ نصف صدی پر محیط ان کی علم وادب سے وابستگی، سفارت اور سیاحت سے عبارت ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی شہر ان کے شوق سیاحت سے بچ پایا ہو۔ استاذی روایت شکن بھی واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں عہدوں سے چمٹے رہنے کی روایت بڑی پختہ ہے مگر قاسمی صاحب کو جب بھی موقع ملا، انہوں نے اس روایت میں دراڑ ڈالی ہے۔ 1999ء میں جب سلسلہ عسکریہ کے خلیفہ چہارم پرویزمشرف نے منتخب حکومت پر شب خون مارا تو آپ کو سفارت کے عہدے پر برقرار رہنے کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے غیرآئینی حکومت کا سفارتکار رہنے کی بجائے استعفیٰ دینے کو ترجیح دی۔ پی ٹی وی کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا کر اس کا قبلہ درست کیا مگر جب محسوس کیا کہ انہیں اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیا جا رہا تو محض مالی فائدے کے لئے عہدے سے چمٹے رہنا پسند نہ کیا۔ البتہ دوسال میں انہوں نے اس مردہ سفید ہاتھی میں جان ضرور ڈال دی۔ اگر قاسمی صاحب کو آزادی سے کام کرنے دیا جاتا اور پی ٹی وی کچھ عرصہ مزید ان کی صحبت میں رچاﺅ پاتا تو وہ بھی ہم ایسے بے شمارطالب علموں کی طرح ”جمال ہم نشیں در من اث رکرد، وگرنہ من خاکم کہ ہستم“ کی مثال ہو جاتا۔ وہ ہم جیسے ”دانشوروں “ کی طرح قوم کواس کے مسائل کے حل کے لئے کوئی منجن یا صدری نسخہ نہیں بیچتے۔ وہ پی ٹی وی ہیڈکوارٹر سے اپنی دکاں بڑھا گئے مگرجہاں بھی جائیں گے بیچیں گے دوائے دل ہی کہ اس کے سوا اس افتخار طب کو کوئی ہنر ہی نہیں آتا۔ وہ تشنگان علم ”مریضوں“کے نسخہ جات پر”ھوالشافی“ لکھ کر فرماتے ہیں:

میں میٹھے پانیوں کا سمندر تھا ، اب بھی ہوں

سب نے بقدر ظرف پیا ، میرا کیا گیا

عطا الحق قاسمی کے اندر اعلیٰ طرف انسان چھپ کر نہیں بیٹھا بلکہ ان کے افکار و کردار سے پورے جاہ وجلال کے ساتھ ہویدا ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے روحانیت پر اپنے لکھے گئے کالم میں مادہ پرستی کے خلاف دلائل دیے۔ ہم نے اساتذہ کے مصرعے پر گرہ لگانے کی اپنی خوئے گستاخ بروئے کار لا کر جوابی کالم لکھا، جس میں ان کی مقدور بھر”مذمت“ کی۔ عرض کیا گیا کہ استاد محترم آپ نے مادہ کی مسلمہ اہمیت سے انحراف فرمایا ہے، جبکہ اس مادی دورمیں ”مادہ “ ہی بندے کی تمام تر دلچسپیوں کا محور ہے اور تصویر کائنات کے سارے رنگ اسی کے مرہون منت ہیں۔ اپنی مادہ کے بغیرانسان تو کجا، چرند پرند اور ڈھور ڈنگر بھی ادھورے ہیں۔ ہم نے گستاخانہ کلمات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انسان ساری عمر اپنی مادہ اوراس کے بچوں ہی کے لئے تومحنت کرتا ہے۔ پس مادہ کے بغیر جادہ زیست بے کیف و بے رنگ ہے، لہذا استاد محترم کی خدمت میں درخواست ہے کہ وہ ”ماورائے مادہ‘ کوئی رائے قائم کر کے قانون فطرت اور لطیف انسانی جذبات کی نفی کرنے سے اجتناب فرمائیں اور دوسروں کی زندگی کے لئے توانائیوں سے لبریز ”مثبت سوچ“ کی باد نسیم کا رستہ نہ روکیں۔ ہمارا کالم اس طرح کی بہت سی گستاخیوں کا ”مرقع “ تھا مگر استاذی نے اپنی روایتی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے اس جوابی کالم کا بھرپورمزہ لیا اور حوصلہ افزائی کی۔

عطا الحق قاسمی نصیب کے وہ سکندر ہیں کہ جہاں انہوں نے اپنے علمی و ادبی مقام سے عوام اور خواص کی بے کراں محبتیں سمیٹی ہیں، وہاں سفارتوں اور متعدد ادبی  و ثقافتی اداروں کو اپنی سربراہی سے سرفراز بھی کیا ہے۔ وہ گنجینہ علم وہنر سے مالامال اور ندرت خیال سے ثمربار اس عہد کا جید دانشور، بیدار و فعال مفکر، خیر کی قدروں کا پیکر، روشن خیال صحافی، سربرآوردہ ادیب، صف اول کا مزاح نگار، شفیق استاد، جمہوریت پسندوں کا سرخیل اور درویش صفت، بے ریا اور کھرا انسان ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک مکمل عہد، لچکدار فطرت اور حلم وعلم کے بحر بے کراں، دانش مندی اور معاملہ فہمی کے بلند اور مضبوط کوہ گراں ہیں۔ وہ ایک نیم خواندہ معاشرے میں رواداری، برداشت، وسیع القلبی اور وسیع النظری کے چراغ جلا رہے ہیں۔ انتہا پسندی، تنگ نظری اورعلم دشمنی کے مہیب سایوں میں بھی علم وادب اور فنون لطیفہ کا جہاں ان جیسے دانشوروں کے دم سے تاباں ہے۔ انہوں نے جہاں اپنی دانش سے معاشرے میں خیرکی قدروں کو فرغ دیا ہے، وہاں سفارت کو دو قوموں کے درمیان تہذیبی رابطے کا استعارہ بھی بنایا ہے۔ ایک شعر ان کی شخصیت کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے کہ:

دشمن بھی جو چاہے تو میری چھاﺅں میں بیٹھے

میں اک گھنا پیڑ سرِراہ گزر ہوں

 جس معاشرے میں کھوٹے اور کھرے کی تمیز نہ رہے اورعلم وعمل اور دانش کی بجائے دھن دولت اور بلند مناصب وجہ عزوشرف قرار پائیں، وہاں تاریخ اپنا فیصلہ محفوظ کر لیتی ہے۔ جب ہم اپنے ہاتھوں سے کھودی گئی سرنگوں کی تاریکی سے نکلیں گے تو تاریخ ان کی کثیرالصفات شخصیت کی عالمانہ تمکنت، دانشورانہ وجاہت، قائدانہ بصیرت، ساحرانہ خطابت اور ذوق لطیف کی گواہی دیتے ہوئے اپنا فیصلہ سنائے گی کہ ہم عطا الحق قاسمی کے عہد میں جی رہے ہیں۔ تاریخ کے اس فیصلے میں لکھا ہو گا کہ یہ خود داراور ذی وقار دانشور مادہ پرست اور دنیا پرست نہیں تھا ورنہ سفارت اور چیئرمین کی کرسی پرخاموشی سے بیٹھ کرمالی مفاد اٹھاتا رہتا۔ محفوظ فیصلہ سناتے تاریخ کے نگارخانے میں عطا الحق قاسمی کی تصویرجگمگا رہی ہوگی، جس کی لوح پر لکھا ہو گا:

میں قصہ مختصر نہیں تھا

ورق کو جلدی پلٹ گئے تم

وہ تصویر اس نگارخانے میں ہمیشہ جگمگاتی رہے گی، جیسے ہماری تمام تر دشنام طرازیوں کے باوجود وہاں سعادت حسن منٹو کی تصویر پورے احترام اور پروٹوکول کے ساتھ آویزاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).