پاکستانی ڈرامہ: خواتین کی شمولیت، حقوق سے انتہاپسندی تک !


برِصغیر پاک وہند میں خواتین کا کہانی کے فن سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ ’ رگ وید ‘ کی کئی نظمیں خواتین راہباو ¿ں نے لکھیں۔ اس کے بعد لکھے جانے والے ناٹکوں اور مذہبی کتابوں کے خالق گو زیادہ تر مرد ہی تھے لیکن ان کے موضوعات میں عورت ظاہر ہے ہمیشہ سے مرکزی کردار رہی۔ چاہے وہ ’ رامائن ‘کی ” سیتا “ ہو یا ’ کالی داس کی ’ شکنتلا“۔ ہر صورت، کہانی کو چلانے کے لئے اس کا وجود لازمی رہا۔ اس دور کی عورت کا تصور دو انتہاو ¿ں کے درمیان تھا۔ یا تو دیوی اور یا پھر ’ مینیکا‘ کی صورت ایک ایسی عورت جو، اپنے ہونے کی طاقت سے بڑے سے بڑے رشی، منی کو بھی ا س کے مقام سے کہیں کا کہیں لے جا سکتی ہے۔

عورت کا یہ تصور ’ امانت کی اندر سبھا ‘ تک تھوڑے سے فرق کے ساتھ جوں کا توں چلا۔ عورت یا تو معشوقہ تھی، جس کی زندگی کا مقصد فقط اپنے محبوب کے لئے جینا اور پھر اسی کے لئے فنا ہو جا نا تھا۔ یا پھر وہ ایک ایسی ڈائن تھی جو اپنے عورت پن کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتی تھی۔ ان عورتوں کی کھوپڑی بس ایک کدو تھی، جسے وہ ٹیکا، جھومر، سرا سری اور بندیا سجانے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔ اس کاسہ سر میں موجود عقل کو کم ہی استعمال ہوتے دکھائی دیا۔ لیکن بہر حال وہ مضبوط کردار تھے۔

ناٹک کا فن، مسلمانوں کے آ نے بعد متاثر تو ہوا، لیکن اسلامی حکومتوں کے آخری سالوں میں ہمیں کچھ ناٹک نظر آتے ہیں۔ عورت کا تصور، چونکہ ابھی ہندو دیو مالا ہی سے مستعار تھا، اس لئے یہ کردار مضبوط تو تھے لیکن غیر حقیقی۔ اس وقت کی اصل عورت ہمیں ان ناٹکوں میں خال ہی نظر آ تی ہے، نہ ہی عورت کے مسائل پہ کوئی خاص ذکر ملتا ہے۔ لکھنے والے بھی مرد ہی تھی، جنہیں خواتین کے بارے میں کم ہی علم تھا۔ حد یہ ہے کہ ان کرداروں کو ادا کرنے والے نائیک یا اداکار بھی اکثر مرد ہوتے تھے۔

انگریز کے آنے کے بعد، پارسی اور یہودی تھئیٹر کمپنیاں بنتی ہیں اور ان میں دکھائے جانے والے ڈرامے زیادہ تر، اس وقت کی مغربی معاشرت یا شیکسپئیر کے ڈراموں کے اثر میں تھے۔ ’ فریلٹی دائی نیم از وومن “ اور ’ لیڈی میکبتھ‘ جیسے کرداروں اور مکالموں سے بھرے یہ ڈرامے بھی اس دور کی اصل عورت کی تصویر کشی سے محروم رہے۔ عورت، رقص کرتی، دل لبھاتی اور تصویرِ کائنات میں رنگ بھرتی ہی نظر آئی۔

فلموں کی تیکنیک آ نے بعد بھی بہت مدت تک عورت ہندوستان کے انگریزی اثر لئے پارسی اور یہودی تھیئٹر سے نہ نکل پائی۔ پاکستان بننے کے بعدسٹیج ڈرامہ آہستہ آہستہ فلم اور ریڈیو کے سامنے دم توڑ گیا۔ لیکن اس کی اصل وجہ بھی کچھ اور تھی۔ سٹیج ڈرامے میں عورت کا کردار فقط یہ رقاصہ اور تتلی کا بنا کر رکھ دیا گیا۔ میں بات کر رہی ہوں مین سٹریم یا کمرشل تھیئٹر کی۔

فلم کے موضوعات، بھی پاکستان بننے کے ابتدائی سالوں میں خواتین کے لئے لکھے گئے اصلاحی ناولوں سے باہر نہ نکل سکے۔ یہ ناول اور فلمیں، فورٹ ولیم کالج سے بنائی گئی، ایک مخصوص سوچ ہی کے عکاس تھے۔ جن میں ہمیں عورت کا وکٹورین تصور ہی نظر آتا ہے، مزید یہ کہ اس تصور کو ’ بہشتی زیور“،’ چند پند ‘ اور ‘ پند نسائی‘ کا بگھار لگا ہوا تھا۔ عورت آ ج بھی،” امراؤ جان ادا ‘ اور ’ اصغری خانم ‘ کے درمیان کہیں کھوئی گئی تھی۔

شائد ’ اکبری ‘ کے کردار میں پہلی حقیقی عورت نظر آ تی ہے۔ لیکن اسے اس وقت کے اخلاقیات کے ترازو میں تول کر ایک ’ ویمپ‘ کے روپ میں پیش کیا گیا۔

پاکستانی ٹیلی ویژن ڈرامہ اپنی ابتداءہی سے ایک بڑی مختلف اور مضبوط عورت کو سامنے لے کر آ یا۔ ” شہزوری “ کے روپ میں حسینہ معین کا ’لکھا اور ” مرزا عظیم بیگ چغتائی “ کا تخلیق کردہ کردار جب ٹیلی ویژن سکرین پہ آ تا ہے تو لوگ اسے دلچسپی اور حیرت سے دیکھتے ہیں۔ عورت کا تصور جو سر پہ گھڑا یا پاؤں میں گھنگھرو باندھے بغیر تکمیل تک نہیں پہنچتا تھا مکمل طور پہ بدل گیا۔ نئے دور کی مکمل اور مضبوط عورت۔ جو ”صادقہ کی مصیبت“ کی ہیروئین کی طرح، کلیجہ تھامے، آ نکھوں میں آ نسو بھرے، بٹر بٹر ایک ایک کا منہ نہیں تک رہی تھی بلکہ، اپنی زندگی کو اپنی توانائی اور ہونے کی طاقت کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔

 اس زمانے میں ٹیلی ویژن پہ، مردوں کا اجارہ تھا لیکن یہ بات پالیسی میکنگ کی حد تک تو ہو گی۔ ڈرامہ نگاری کی صف میں ہمیں، حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا، بانو قدسیہ جیسے قد آور نام نظر آ تے ہیں۔ مگر ایک بڑی سچائی یہ بھی ہے کہ یہ تینوں خواتین اور ان کے دور کی دیگر مصنفات، پاکستان کے قیام کے وقت جوان تھیںاور ان کے خیالات اور نظریات کی تشکیل میں آ زادی کے نعروں اور اس سنہری دور کے اساتذہ اور لیڈروں کی شخصیات کی جھلک نظر آ تی ہے۔ وہ ایک ایسا دور تھا جس نے انسانی ذہن اور سوچ کی بڑی انقلابی پرورش کی۔ خواتین کے مخصوص اصلاحی، ناول اس وقت بھی سکرین پہ نظر آ تے تھے لیکن ان کی تعداد آ ٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مزید برآں، ڈرامے کے موضوعات، اس وقت عورتوں کی دلچسپی کے علاوہ اور بھی ہوا کرتے تھے۔

 مجھے یاد ہے کہ حسینہ آپا کے ڈراموں کو مرد ڈرامہ نگار خوب تنقید کا نشانہ بنا تے تھے اور ان کی چلبلی ہیروئین پہ خوب چاند ماری کی جاتی تھی۔ ایک شعر اب بھی یاد ہے۔

 یہ آ ج کل کی بچیاں

 دیوار گھر کی پھاند کے

 سسر کو تھپڑ مار کے

 کبھی بھی بھاگتی نہیں

 حسینہ جاگتی نہیں “

 یہ ہیروئین بھی، ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کی لڑکی تھی۔ اصل پاکستانی عورت اور اس کے مسائل کہاں تھے؟

دنیا بھر میں اسی کی دہائی، وی سی آر کے انقلاب کے ساتھ آ ئی، جس نے سینما کے کاروبار کو خاص طور پہ متاثر کیا۔ نظریاتی حوالے سے بھی یہ دور بہت سی تبدیلیاں لے کر آئی۔ ایران اور پاکستان میں اسلامی حکومتیں اور افغان جہاد، ڈرامے کے فن پہ بھی اثر انداز ہوئے اور خواتین کے مسائل نے بھی نئی شکل اختیار کی۔

معاشرتی اعتبار سے عورت آ ہستہ آ ہستہ مفلوج ہو کے گھر میں بند ہوتی جا رہی تھی۔ کام کرنے والی خواتین کے لئے بھی، کام کے بعد تفریح کا ذریعہ ٹیلی ویژن ہی تھا۔

پی ٹی وی، چونکہ ایک حکومتی ادارہ تھا اور اس کے مخصوص اغراض و مقاصد تھے۔ آ مدن کے ذرائع بھی ٹی وی لائسنس فیس اور دیگر تھے۔ اشتہارات کی آ مدن پہ اس کا انحصار اتنا نہ تھا کہ وہ اس کی پالیسیوں پہ اثر انداز ہوتے، اس لئے ہمیں ڈرامے کے موضوعات میں ایک توازن نظر آتا ہے۔

نوے کی دہائی میں پہلا پرائیوٹ چینل،شالیمار ٹی وی نیٹ ورک کے نام سے بنا۔ حکومتی پالیسیوں سے کافی حد تک آ زاد اس چینل پہ، بہت سے نئے موضوعات نظر آ ئے۔ پی ٹی وی پہ بھی اس دوران،’ نجات ‘اور ’ آ ہٹ ‘ جیسے ڈرامے آ چکے تھے جن میں عورت کے مسائل کو ایک اور طرح سے اجاگر کیا جا رہا تھا۔ لیکن یہ ڈرامے مختلف این جی اوز کے تعاون سے بنے تھے۔ اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان پہ خواتین ناظروں کی پسند نا پسند حاوی تھی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ ان ڈراموں کو بے حد پذیرائی ملی۔ اسی دوران ” آ نچ“ ڈرامہ سامنے آ یا۔ جو مکمل طور پہ خواتین کے گھریلو مسائل پہ لکھا گیا تھا۔

اس ڈرامے نے آ نے والے وقت میں پاکستانی ڈرامے کی ایک واضح شکل ظاہر کر دی۔ مصنفہ کا یہ ناول، ایک اصلاحی معاشرتی ناول تھا۔ لیکن اسے معاشرے کے ہر طبقے کی خواتین نے دیکھا اور سراہا۔

اکیسویں صدی کی ابتداءمیں پاکستان میں پرائیوٹ ڈرامہ انڈسٹری کی ابتداءہوئی، ایک کے بعد ایک ٹی وی چینل کھلتے گئے، جن کی نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی تھیں۔ ’ جیو ‘،’ ہم ‘،’ اے آر وائی ‘، ’ اے پلس‘ اور ’ اردو ون‘ کے اینٹر ٹینمنٹ چینل صرف اور صرف ڈرامہ اور مارننگ شوز دکھاتے ہیں۔

ان چینلز پہ دکھائے جانے کے لئے ڈرامہ بنانے کی ابتداءہوئی تو پی ٹی وی کے تربیت یافتہ لوگ کم پڑ گئے۔ ڈرامہ انڈسٹری اچانک ہی لائسنس دے کر شروع کر دی گئی، نہ چینل مالکان نے اور نہ ہی حکومت نے اس طرف توجہ دی کہ پہلے اس صنعت کے لئے خام مال ےعنی، ادیب، اداکار، ہدائت کار وغیرہ تیار کئے جاتے۔ مربوط پالیسیاں بنائی جاتیں اور ڈراموں کے موضوعات اور ان کے معاشرے پہ ان کے دور رس اثرات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلے کئے جاتے۔

پیمرا نام کے ایک ادارے کو سب چیزوں کانعم البدل سمجھ لیا گیا۔ ڈرامہ اور سوپ لکھنے کے لئے ادیبوں کی شدید قلت تھی۔ تب خواتین کے مقبول ناولوں پہ ہاتھ صاف کیا گیا۔ ساری دنیا میں مقبول ادب لکھا اور پڑھا جاتا ہے لیکن جب بات ایک ایسی قوم کی ہوتی ہے جو ابھی قوم سازی کے عمل سے گزر رہی تھی اور اس کے سامنے، ہر دس سال کے بعد، نئے قومی اور شناختی مسائل آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو موضوعات کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔

 ابتداء میں دکھائے جانے والے ڈرامے، مقبول ڈایجسٹوں کی کہانیاں تھیں۔ جنہیں لکھنے والی اور دیکھنے والی دونوں ہی گھریلو خواتین تھیں۔ پاکستانی مرد جو، پی ٹی وی کے متنوع موضوعات کے عادی تھے، آ ہستہ آ ہستہ، ڈراموں سے دور ہونے لگے۔ اسی دور میں ہندوستانی چینلز، کیبل کے ذریعے دکھائے جانے لگے۔ نوزائیدہ انڈسٹری کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ پاکستانی ڈرامہ، ایک دم سوپ کے دور میں داخل ہوا اور موضوعات، ساس اور بہو کی چپقلش کے گرد گھومنے لگے۔

 پیمرا اور دیگر اداروں نے کیبل پہ پابندی لگائی۔ لیکن اس وقت تک، ڈرامے کا مرد ناظر اس سے بالکل دور ہو چکا تھا۔ خواتین کے گھریلو مسائل مکمل طور پہ ڈرامے پہ چھا چکے تھے۔

ان مسائل میں عورت کی بے چارگی اور اس پہ یکطرفہ تشدد دکھایا جاتا تھا۔ وہ خواتین جن کو بوجوہ گھر میں بند کر کے صرف ایک تفریح تک محدود کر دیا گیا تھا، ٹی وی۔ اب اس انڈسٹری کی قسمت کا فیصلہ کر رہی تھیں۔ مرد ادیبوں کو ان کے موضوعات کے انتخاب کے باعث، بالکل بھی پذیرائی نہیں ملی۔ اب تک نظر انداز کی گئی عورت، ٹیلی ویژن سکرین پہ خود پہ کئے گئے مظالم کو بڑھا چڑھا کے بیان کر رہی تھی۔ اسی دوران ریٹنگ سسٹم متعارف ہوا۔

میڈیا لاجکس نامی کمپنی نے شنید ہے کہ کراچی میں پانچ ہزار ریٹنگ میٹر لگائے، جو متوسط طبقے کے گھروں میں لگائے گئے۔ اس ریٹنگ کی روشنی میں جن موضوعات کے ڈرامے ہٹ ہوتے تھے ان ہی موضوعات پہ بار بار ڈرامے بننے لگے۔

کم مشاہدے اور کم تر تجربہ رکھنے والی مصنفات اور مصنفوں نے ریٹنگ کے حساب سے سینکڑوں ڈرامے لکھے۔ ہوتے ہواتے، بات یہاں تک آ پہنچی کہ اب ڈرامہ ناظرین کے لئے پندرہ سے پنتالیس سال تک کی گھریلو درمیانے طبقے کی خواتین کو ٹارگٹ ناظرین مانا جاتا ہے۔ ان کی انگلی کے نیچے موجود ریموٹ کا بٹن، ادیبوں،پروڈیوسروں، ڈائریکٹروں اور اداکاروں کی قسمت کے فیصلے کرتا ہے۔

اس دوران، کچھ این جی اوز نے ٹی وی کے مروجہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے، کئی مسائل پہ ڈرامے بنائے۔ ابتداءمیں پروڈیوسرز اور اشتہار دینے والی کمپنیاں، صرف اور صرف ان موضوعات کے ڈرامے بناتی تھیں، جن سے ان کا پراڈکٹ بکے۔ مثلاَ ”کلمونہی“ ڈرامہ ایک کالی لڑکی کی کہانی ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے لیکن اسے بیچنے کے لئے اسے بےحد بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا رہا۔ اس ڈرامے کے دوران جب وقفہ اشتہارات آ تا ہو گا تو رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہار جو اثر ڈالتے ہوں گے، اسے یقیناَ تشہیری مہم چلانے والے بخوبی سمجھتے ہوں گے۔

یہاں تک تو معاملہ چل رہا تھا۔ بات وہاں سے تشویش ناک ہونا شروع ہوئی ہے جب ایک این جی او کاڈرامہ ہٹ ہوا اور خواتین کے مسائل، ڈرامہ انڈسٹری کی چھابڑی میں بکاؤ مال کے طور پہ آ پڑے۔

 آج صورت حال یہ ہے کہ ہر چینل، عورتوں کے مسائل، جن میں تیزاب گردی، گھریلو تشدد، ہراسمنٹ اور دیگر مسائل شامل ہیں پہ دیوانہ وار ڈرامے بنانے میں ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کوشش میں اخلاص یا ان مسائل کا حل پیش کرنے کی بجائے صرف اور صرف اپنا مال بیچنے پہ زور ہے۔

یہ بظاہر کوئی بری بات نہیں۔ لیکن جس طرح ڈرامہ انڈسٹری میں صرف ایک طرفہ نظریات پیش کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور ڈرامہ کانسپٹ اور سکرپٹ لکھوانے والوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس قسم کے ڈرامے لکھنے کے لئے کتنا محتاط انداز اپنانا پڑتا ہے۔ آنے والے وقت میں مجھے معاشرے کی صورت حال کچھ اچھی نظرنہیں آ رہی۔ ایک معاشرہ جو پہلے ہی عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں پہلی صف میں شامل ہے، وہاں یہ صورت حال کس حد تک جائے گی ؟

کیا وہ ڈرامے جو، گھریلو جھگڑوں سے شروع ہوئے تھے، تانیثیت سے ہوتے ہوئے، پرتشدد نظریات، جسے فیمیناتزی ازم کہا جاتا ہے تک نہیں چلے جائیں گے ؟

یہ بہر حال ایک لمحہ فکریہ ہے۔ معاشرے میں توازن ہونا ضروری ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے کی جانے والی کوئی بھی بات اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتی، جب تک وہ مردوں کے کان میں نہ پڑے۔ معاشرہ، مرد اور عورت دونوں سے مل کر بنتا ہے۔ اس وقت پہ ٹی وی کے مرد ناظر واپس لانے کا فیصلہ کرنا چاہیئے۔ تاکہ عورتوں کی بھلائی اور ان کے مسائل کے حل کے لئے جو بھی کام کیا جائے وہ ان کی نظر سے بھی گزرے اور ان کے روئےے بھی تبدیل ہوں اور ایک متوازن معاشرہ تشکیل پائے۔ یہ بات میں ایک ادیب کے طور پہ اپنے ضمیر کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر کہہ رہی ہوں کیونکہ بر طور ہمارا مقصد معاشرے کے اندرونی تصادم کو کم کران ہے، بڑھانا نہیں۔ عورت کو عزت، تکریم، تحفظ، برابر کے مواقع چاہیئں۔ یہ بات مردوں کو اب سمجھ لینی چاہیئے اور خواتین کے مسائل پہ ڈرامہ بناتے ہوئے اس موضوع کی حساسیت کو بھی سمجھنا چاہیئے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ’ورنہ‘ اور ’زخمی عورت‘ جیسی انتہا پسندانہ اور سخت گیر کہانیاں سامنے آئیں گی جو معاشرے کی تباہی پہ منتج ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).