کیا آپ نے بلوچوں کو مبارک باد دی ہے؟


اک دوست نے بلوچ نوابوں کی ایک محفل کا احوال سنایا تھا۔ دو نو منتخب نواب تیسرے نواب کو منتخب ممبر کی آمدن کا بتا رہے تھے۔ حساب کتاب سادہ سا تھا، ڈھائی تین لاکھ روپے، کچھ مفت کے ہوائی ٹکٹ اور سفر کا الاؤنسس۔ نواب کافی مطمئن تھے کہ اچھے پیسے بن جاتے ہیں۔

سننے والوں کو لطیفہ لگا تھا۔ بتانے والے نے عجیب سا تاثر بنتے دیکھا تو کہا کہ بلوچستان میں کروڑ پتیوں کی تعداد پاکستان کے کسی چھوٹے شہر سے بھی کم ہے۔ ہم نے سنا ہم بھول گئے۔ لیکن کم کروڑ پتیوں والے اس صوبے کے لوگ شاید سب سے زیادہ کتاب دوست ہیں۔

سوشل میڈیا پر جب رابطہ ہوا۔ براہ راست ملاقات ہوئی یا کسی کے بتانے پر اندازہ ہوا کہ بلوچ نوجوان کتاب بہت پڑھتے ہیں۔ وہ آپ کو تاریخی حوالے دے کر فلسفے سیاست کی بحث میں الجھا کر گھیر لیں گے۔ گھما پھرا کر اپنا بلوچ قومی سوال سامنے رکھ دیں گے۔

گوشہ ادب کے نام سے کوئٹہ میں کتابوں کی ایک دکان ہے۔ منصور بخاری اس کے مالک ہیں۔ ان کی دکان پر آپ کھڑے ہوں تو اکثر انہیں کسی گاہک سے الجھتے دیکھ لیں گے۔ جو اک مہنگی کتاب کی من مانی آدھی ادھوری سے قیمت دے رہا ہو گا۔ منصور صاحب کو پھر آپ وہ قیمت قبول کرتے دیکھیں گے۔ انہیں بڑبڑاتے سنیں گے کہ اگر ایسے کتابیں بیچیں گے تو ہو گیا کام۔

یہی منصور بخاری بہت سے واقعات بتاتے ہیں کہ کیسے انہیں منی آڈر اور چیک آتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ بھیجتے ہیں جنہوں نے کبھی اسی دکان سے کتابیں پار کی تھیں۔ اب وہ سیٹل ہو کر یا  اچھے عہدوں پر پہنچ کر وہ قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ خط لکھ کر شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔ اکثر منصور صاحب جواب میں بتا بھی دیتے ہیں کہ بیٹا میں نے دیکھ لیا تھا آپ کو کتاب لے جاتے۔

ثنا اللہ بلوچ سینیٹر رہے ہیں۔ بی این پی مینگل سے ان کا تعلق ہے۔ پڑھے لکھے سیاستدان ہیں۔ بلوچ ایشوز پر بہت منطقی انداز میں بات کرتے ہیں۔ سوال اٹھاتے ہیں اور لاجواب کرتے رہتے ہیں۔

ثنا اللہ بلوچ ایسٹ تیمور کے معاملات سے متعلق بنائے گئے یو این کمیشن کے چار پانچ ارکان میں واحد پاکستانی رکن تھے۔ ایسٹ تیمور نے اک ریفرنڈم کے بعد آزادی حاصل کی انڈونیشیا سے۔ ثنا اللہ بلوچ کی اہمیت اور وزن کا کوئی اندازہ لگانا ہو تو یو این کمیشن میں ان کی رکنیت سے لگا لیں۔

ہمارا اک مسئلہ یہ بھی ہے ملالہ ہو عاصمہ جہانگیر ہوں ثنا بلوچ ہوں یا ایسا کوئی اور۔ ہم اپنے ہر ایسے بندے کی عزت نہیں کرتے جس کی دنیا قدر کرتی ہے۔

بلوچستان کی آبادی پاکستان کے بڑے شہروں میں سے کسی شہر  کی آبادی سے کم یا ان کے برابر ہے۔ اتنے بڑے ملک کی ایک شہر جتنی آبادی کا صوبہ وہاں کے لوگ پاکستان سے خوش نہیں ہیں۔ کچھ وجوہات آپ ہم جانتے ہیں۔ کچھ ہم نہیں جانتے۔ زیادہ شوق ہے تو آن لائین ہوں کسی بلوچ سے گپ لگا لیں۔ بہت کچھ سن لیں گے۔

ثنا بلوچ نے ایک ٹویٹ کی ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ ڈھاڈر ہائی سکول میں ایک بچے کو فیس نہ ہونے کی وجہ سے امتحان میں نہ بیٹھنے دیا گیا۔ وہ بچہ احتجاج کرتا سکول کی چھت پر چلا گیا۔ وہاں غلطی سے بجلی کی تاروں میں الجھ کر جل گیا اور زندگی سے آزاد ہو گیا۔

آپ یہ تصویر بھی مت دیکھیں اس واقعے کی تفصیل بھی رہنے ہی دیں۔

راشد میرا اک دوست ہے۔ وہ بربر یا عرب ہے مراکش سے اس کا تعلق ہے۔ وہ فرنچ ہے اور پیرس میں رہتا ہے۔ وہ گے ہے جسے ہم جنس پرست کہتے ہیں۔ راشد سے رابطے کی ایک بڑی عجیب وجہ تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ ہمارے صوبے کے پی یا فاٹا میں کسی ایک بچے کی تعلیم کا خرچ برداشت کرے۔ اس سے پوچھا کہ ایسا کیوں کرنا چاہتا؟

راشد کا جواب تھا کہ تم لوگ گے کو بس اک۔ ہی سمجھتے ہو۔ جو نہ وعدے کا پکا ہوتا نہ اس کی کوئی سوچ ہوتی نہ وہ انسان ہوتا۔
وہ تو چلو ہماری سمجھ ہے۔ اک بچے کو پڑھا کر تم کیا کر لوگے؟ نصاب تو اس نے ہمارا ہی پڑھنا ہے ناں استاد۔

راشد کا جواب تھا کہ میں ایک ہی بچے کو پڑھا سکتا ہوں۔ میرے لیے اس کے اخراجات برداشت کرنا بھی مشکل ہے۔ وہ جب پڑھنا سیکھ جائے گا تو اپنا راستہ خود ڈھونڈ لے گا۔ وہ نہیں تو اس کا کوئی بچہ اس کا کوئی دوست اک دن تو سوچے گا کہ راشد کا ہم سے تعلق انسان ہونے کے علاوہ کیا تھا؟

بلوچ آج اپنا کلچرل ڈے منا رہے ہیں۔ میں نے تو ثنا بلوچ کو اپنے بلوچ دوستوں بھائیوں کو مبارک باد دے دی ہے۔ آپ نے دی ہے؟

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi