کیا اب \’لیکس\’ کی بنیاد پہ حکومتیں گرائی جائیں گی؟


\"salim

چونکہ ہمارا قومی مزاج یہ ہے کہ جو شخص ہمارے موقف سے متفق نہیں وہ ضرور دشمن کا ایجنٹ ہے۔  لہٰذا میں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا تعلق جمیعت علمائے اسلام کی ایم آر ڈی دور کی نسل سے ہے جو کبھی بھی اپنے دل میں نواز شریف یا اس کے گاڈ فادر کےلئے نرم گوشہ محسوس نہیں کرسکتے۔

مگر بات نواز شریف کی نہیں بلکہ اصول کی ہے۔ فرض کریں، نواز شریف کی جگہ عمران خان 18 کروڑ عوام کا حقیقی یا غیر حقیقی منتخب وزیراعظم ہو اور پھر 200 یا چار سو صحاٖفی اسکی مالی کرپشن پر ایک رپورٹ شایع کردیں تو کیا ہمیں فوراََ اسے گھر بھیج دینا چاہئے؟ یہ کیا منطق ہوئی؟ ہمیں نہیں پتہ یہ لیکس کیا بلا ہیں؟ سچی ہیں یا جھوٹ کا پلندہ ہے؟ لیکن فرض کیا بالکل سچ ہیں، تب بھی اس کی تحقیق کے لئے مہذب دنیا کا کوئیی قاعدہ قانون ہے یا نہیں؟ کیا اب چند صحافی، دنیا کی حکومتوں کے فیصلے کیا کریں گے؟

سرشام چینلز کی رونق بڑھانے والے خود ساختہ دانش کے حامل تجزیہ نگاروں کو کیا یہ پتہ ہے کہ تجزیے، \”ثبوت\” کی بنیاد پہ کئے جاتے ہیں نہ کہ \”لیکس\” کی بنیاد پر۔ سنجیدہ صحافت تو \”لیکس\” جیسی چیزوں کو خبر کا درجہ بھی نہ دیتی۔ اسی پانامہ لیکس کو مائکرو سطح پہ لے آیئے۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا پہ کسی جنرل کے بارے میں کوئی ڈاکومنٹ \”لیک\” ہوجائے تو پہلے اس الزام کی تفتیش کی جائے گی یا پہلے اس جرنیل کو نوکری سے فارغ کیا جائے گا؟ پھر تو گلشن کا کاروبار چل چکا جناب!

جناب عالی! یہ لیکس نامی اسکینڈل ہمارے معاشروں میں انتشار برپا کرنے کا نیا پاکھنڈ ہے۔ پانامہ لیکس کو اس وقت عالمی مسئلہ بنا دیا گیا حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ اس میں عالمی رہنماؤں کی خفیہ دولت کے راز اُگلے گئے ہیں اور بس۔ معمولی شدھ بدھ رکھنے والا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ آف شور کمپنیوں میں پڑی خفیہ دولت، غیر اخلاقی سہی مگر غیر قانونی ہرگز نہیں۔ یہ کہ اخلاقی بنیادوں پہ اپنے حکمرانوں کی سرزنش کرنے کا حق صحافیوں کا نہیں بلکہ عوام کا ہے۔

 ہمارا مسئلہ اس وقت نواز شریف یا کسی کی دولت نہیں بلکہ ہمارا مسئلہ ہمارا اپنا ملک اور اسکی معیشت ہے۔ پاکستان کے  لوگ کیا چاہتے ہیں؟ یہی کہ ہماری ملکی دولت جو پچھلے ادوار میں لوٹی گئی اسے واپس کیا جائے اور آئندہ کے لئے اس کی روک تھام کی جائے۔ فی الحال پچھلی کرپشن کو بھول کر آئندہ کے سد باب کی کوشش کی جائے۔ اس لئے کہ اس سےحاصل کچھ نہیں ہوگا، فقط اپنی منزل کھوٹی ہوگی۔ تاہم اگر کوئی دیانتدار سیاسی لیڈر (ہنسنا منع ہے) حکمرانوں کے احتساب پہ مصر ہے تو بھائی ہمارے ملک میں احتساب کے ادارے موجود ہیں، انکے سامنے اپنا کیس پیش کرے۔ اگر موجودہ اداروں کو کٹھ پتلی سمجھتا ہے اور ان پہ مطمئن نہیں تو پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے اعتماد کا ایک  نیا احتساب ادارہ بنا دے (جیسے پختونخواہ اسمبلی  نے بنایا تھا) یا فوج کو اقتدار میں لا کر نیب بنا دے (جیسے مشرف نے بنائی تھی) یا مولویوں کو اقتدار میں لاکر احتساب کروا دے (جیسے ایم ایم اے کے دور میں تھا)۔ مطمئن رہیں نتیجہ ایک ہی نکلے گا کیونکہ ہر روپ میں اشرافیہ ہی ہمارے سروں پہ براجمان رہے گی۔

ہم مسلمان آخرت پہ یقین رکھتے ہیں کہ باوجود ہماری ساری تگ و دو اور جدوجہد کے بعض لوگ اس دنیا میں مکر و فریب کے بل بوتے پر صاف بچ نکلیں گے مگر ان کا حساب آخرت میں ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دیانتدار معاشرے کے قیام کی کوشش نہ کریں۔ یہ تو وظیفہ ایمانی ہے۔ لیکن اس کام کے لئے بھی رائج دستور کے اندر ہی کوشش کرنا پڑے گی۔ کسی کو اگر رائج دستور اپنے عقائد کے خلاف نظر آتا ہے اور اسکے بدلنے کی پر امن کوشش بے سود لگتی ہے تو کہیں اور ہجرت کر جائے مگر انتشار نہ پھیلائے۔ پچھلے احتساب کی تو بات چھوڑیں آئندہ کی کرپشن روکنا بھی آسان نہیں ہے لیکن اس مسئلہ کے حل کا پر امن راستہ، صرف یہی پارلیمانی نظام ہے، اسکے علاوہ کوئی نہیں۔

میں ایک چھوٹی سی مثال عرض کرتا ہوں۔ کتنے سال ہوگئے کہ نیا اسلام آباد ایئرپورٹ بن رہا ہے۔ بین الاقوامی ایئرپورٹ بنانے کا تجربہ رکھنے کی بنا پر عرض کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ چار سال میں بن جانا چاہئے تھا مگر ابھی اسکا 50 فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا اور کتنے ویری ایشن آرڈر بھی لگ چکے ہیں۔ میں تحریک انصاف میں جن دو چار آدمیوں کو سنجیدہ اور سمجھدار خیال کرتا ہوں، ان میں ڈاکٹر عارف علوی بھی ہے جو اسی ایئرپورٹ کے ضمن میں پارلیمنٹ کی قائمہ کیمٹی کے چیئرمین ہیں اور جنہوں نے پچھلے ماہ متعلقہ افسران کی کلاس بھی لی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر نے کسی کو معطل کیوں نہ کیا؟ قوم کے سامنے اس کرپشن پر پریس کانفرنس کیوں نہ کی؟ کیا ڈانٹ ڈپٹ کے ڈرامے کے بعد، ایئر پورٹ بن گیا ہے؟ یہی حال تحریک انصاف کی سب پارلیمانی کمیٹیوں کا ہے۔

ہمیں نواز شریف کی ذاتی آمدنی سے کوئی مسئلہ نہیں کہ حلال کی ہے یا حرام کی ہے؟ ہمارا مسئلہ یہ ہونا چاہئے کہ ملکی دولت چوری نہ ہوئی ہو۔ اب اگر یہ اخباری رپورٹیں ہماری اپنی ملکی صحافت کی ہوتیں تو بھی انکی تفتیش کرنا ضروری تھا – اسلئے کہ حکمرانوں پر لگنے والے ہر الزام کو سنجیدہ لینا چاہئے۔ مگر واضح ہو کہ شریعت اسلامی میں کسی متہم جرم سے صفائی کا بار ملزم پر نہیں کہ وہ ٹی وی پر آکر صفائیاں دے۔ بلکہ اپنے الزامات کو ثابت کرنا خود الزام لگانے والے کے ذمہ ہے کہ وہ متعلقہ ملکی عدالت کے سامنے اپنا کیس ثابت کرے۔

لیکن چونکہ پانامہ لیکس کو ایک عالمی معاملہ بنا دیا گیا ہے تو اس سلسلے میں، ایک عالمی پروٹوکول موجود ہے۔ ہم اقوام عالم کی بستی میں رہنے والی ایک قوم ہیں اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر پابند ہیں۔ پس ایسے معاملوں میں ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ عالمی فورم اپنا کیا لائحہ عمل مرتب کرتا ہے ۔ یہ جو آئس لیںڈ کے وزیر اعظم نے پانامہ لیکس کی بنیاد پر استعفیٰ دیا، اس سے اہل پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں نہیں معلوم آئیس لینڈ میں اتنا بڑا مجمع خود بخود اکٹھا ہوا یا پانامہ لیکس کو وقار بخشنے کےلئے انجنیرڈ مجمع تھا؟ اور آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے پریشر میں آکر استعفیٰ دیا یا وہ خود بھی گریٹ گیم کا حصہ تھا؟

ہمیں غیر ملکی لیکس یا پراپیگنڈہ کی بجائے، اپنے معاملات کو اپنے ہی انداز میں دیکھنا اور حل کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے ہم ابھی حقیقی جمہوری منزل پہ نہیں پہنچ سکے۔ عمران خان نے پانامہ لیکس کے معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔  اگر عمران خان چاہتے تو اس گرما گرم موضوع پر ایک فوری دھرنے کا اعلان کرتے۔ نواز حکومت سے تنگ آئی مذہبی پارٹیاں، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ نئے فوری انتخابات کے لئے ترستی سب پارٹیاں اس دھرنے میں شامل ہوتیں اور نواز شریف کو ایک ہی دن میں حکومت چھوڑنا پڑتی۔ لیکن عمران خان نے جمہوری آئینی انداز اپنایا۔ کیوں؟ بظاہر تو یہ ہی نظر آتا ہے کہ جو طاقتیں دو سال پہلے نواز شریف کو ہٹانا چاہتی تھیں وہ ان کے ساتھ آج کل ایک پیج پر ہیں سو سیاسی طاقتیں بھی غیر آئینی اقدامات سے پرہیز کر رہی ہیں۔ اشارہ کافی ہے۔

 اب یہ بچگانہ باتیں بند ہونا چاہیں کہ فلاں چینل کے اینکر کے کہے پر ثابت کیا جائے کہ اس ملک کا تیسری بار منتخب وزیر اعظم انڈیا کا جاسوس ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو دنیا کی نمبر ایک ایجنسی سمیت ہم سب کو خودکشی کر لینا چاہئے۔ اس ملک کی سنجیدہ سیاست میں ہم نے وہ نمونے بھی دیکھے ہیں کہ کبھی ایک  قومی سطح کے لیڈر پر یہ الہام ہوتا ہے کہ دوسرا قومی لیڈر یہودی ایجنٹ ہے تو کبھی ایک جرنیل ایک کتاب لکھتا ہے کہ ایک دوسرے جرنیل نے فقط اپنے ذوق کی خاطر ہزاروں فوجی جوان بلاوجہ کارگل میں مروا دئے۔ یہ بدقسمت ملک پھر بھی چل ہی رہا ہے۔

 ہمیں اسی دھاندلی زدہ، کچی پکی جمہوریت کو چلنے دینا چاہئے، بصورت دیگر اپنے ملک کے آئین کے دائرے میں ایسی جمہوری جدوجہد کرنا چاہئے جس سے ملک انتشار کا شکار نہ ہو۔ شومئ قسمت کہ اس وقت نواز شریف کے علاوہ کوئی اور ایسا شخص نظر ہی نہیں آتا جو ملک چلا سکے۔ پیلپز پارٹی کا دور تو کل کی بات ہے۔ تحریک انصاف کی گذشتہ تین سال کی کارکردگی سامنے ہے۔ شکر ہے کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں بنا ورنہ آج پورے ملک میں یا تو کنسرٹ ہو رہے ہوتے یا ہم چوہے پکڑ رہے ہوتے۔ مذہبی جماعتوں کا جنت نظیر دور بھی ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔ خود نون لیگ میں نواز شریف سے زیادہ بہتر لوگ نظر آتے ہیں مگر خیال آتا ہے کہ چوہدری نثار کو وزیر اعظم بنانے کی صورت میں ہم روزانہ چار گھنٹہ پریس کانفرنسیں سنا کریں گے جبکہ اسلام آباد سکندر حافظ آبادی کے حوالے ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments