اسلامیات کی استانی اورموسیقی۔ میرے دو ادھورے عشق


نو برس کی عمر میں مجھے اٹھارہ برس کی لڑکی سے تیسری نظر میں دوسرا عشق ہوا تھا۔ وہ میری اسلامیات کی استانی تھیں جن کی شکل وصورت اب مجھے یاد نہیں ہے۔ ہاں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ میں جماعت میں ان کا سب سے پسندیدہ بچہ تھا۔ وہ پوری کلاس کو سزا دے دیتی تھیں مگر مجھے ہمیشہ میٹھی نظروں سے دیکھا کرتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کی پسندیدگی کا سبب صرف میری شکل و صورت یا شرارتیں نہیں تھا بلکہ وہ میری آواز اور میرے نغموں کی بھی رسیا تھیں۔ اکثر خالی پیریڈ اور خالی کمرےمیں وہ مجھ سے فرمائشی نغمے سنا کرتی تھیں۔ میری آواز اچھی اور سریلی تھی۔ اور ہونی بھی چاہیے تھی کیونکہ موسیقی میرا پہلا عشق تھا۔

میرا پہلا اور دوسرا دونوں عشق ادھورے رہ گئے تھے۔ دوسرا عشق تو اس لیے کہ ایک دن خالی پیریڈ میں نغمہ سرائی کے دوران ہیڈ مسٹریس نے خالی کمرے میں قدم رکھ دیا تھا۔ اسلامیات کی استانی ضرورت سے کچھ زیادہ میرے قریب تھیں۔ ہیڈ مسٹریس صاحبہ کو غصہ چڑھ گیا۔ اس وقت میں بچہ تھا سمجھ نہیں پایا مگر آج تینتیس برس کے بعد ہیڈ مسٹریس کی رقابت بھری نگاہیں یاد آتی ہیں تو ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسلامیات کی استانی کا وہ اس اسکول میں آخری دن تھا۔ مگر میری نغمہ سرائی ہیڈ مسٹریس کے کمرے میں مزید دو برس جاری رہی تھی۔ دوسرا عشق تو یوں کنارے لگا مگر پہلے عشق کی نارسائی نے میری زندگی کا رخ یکسر بدل کر رکھ دیا۔

اپنے دہی کو کھٹا کوئی بھی نہیں کہتا۔ میرے والدین بھی مجھے ذہین کہتےہیں۔ جبکہ سادگی کا یہ عالم تھا کہ طفل شیر خوار کو کوک کا جھانسہ دے کر دودھ پلایا جاتا تو خوشی خوشی کوک سمجھ کر پورا گلاس بغیر ڈکار لیے ہضم کر جاتا جبکہ دودھ کے نام پر کوک پینے سے بے زاری ظاہر کرتا تھا۔ والدہ محترمہ ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر بتاتی ہیں کہ جب بھی کبھی اور کہیں خاکسار یکایک تمام تر مصروفیات موقوف کر کے آنکھیں بند کر کے جھومنا شروع کر دیتا تو لازماً آس پاس کہیں ناہید اختر کا نغمہ ”اللہ ہی اللہ کیا کرو“ چل رہا ہوتا۔

پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں۔ میرے پاؤں پالنے سے باہر بھی نظر آتے تھے اور عموماً تھرک رہے ہوتے تھے۔ عالمگیر، محمد علی شہکی، نازیہ اور ذوہیب حسن پر اپنی جان فدا تھی۔ کون سا گلوکار تھا جس کی نقل خاکسار تمام تر حرکات و سکنات اور موسیقی سمیت نہ اتار سکتا تھا۔ چناچہ آنے والے وقتوں میں اس وقت کی سمجھ کے مطابق ایک ناخوشگوار مستقبل روشن تھا۔ مگر دوسرے عشق کے حسرت ناک اختتام کے معاً بعد ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کا رخ یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔

ہوا کچھ ایسے کہ میری خالہ کی ایک سہیلی نے میری موسیقی میں ”مہارت“ اور شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے امتحان میں کامیابی پر ایک عدد گٹار کا تحفہ دے دیا۔ میں نے ان کو گٹار بجا بجا کر گیت سنا دیے۔ خالہ کی سہیلی میری فنی صلاحیتوں سے متاثر ہو گئیں۔ یہ اسی کی دہائی کا آغاز تھا۔ ان دنوں مشہور موسیقارسہیل رانا کا پروگرام سنگ سنگ چلیں ٹی وی پر آیا کرتا تھا جس میں بچے موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے اور گانے بھی گاتے تھے۔ گلوکارہ افشاں احمد ان دنوں اس پروگرام میں آیا کرتی تھیں۔ خالہ کی سہیلی سہیل رانا کی رشتہ دار تھیں چناچہ سنگ سنگ چلیں پروگرام کے لیے میرا آڈیشن اور پھر انتخاب بڑی آسانی سے ہو گیا۔

یہ خبر گویا ایک بم دھماکے کی صورت ہمارے خاندان میں پھٹی۔ ایک نیم مذہبی خاندان ِراجپوتانہ کا چشم و چراغ اور مستقبل کا مراثی؟ ضیا ءالحق کا دور حکومت تھا اور ریاست پاکستان نئی نئی مشرف بہ اسلام ہوئی تھی۔ اس غیر اخلاقی (اس زمانے کے لحاظ سے) اور غیر شرعی (ہر زمانے کے لحاظ سے) کام کو روکنے کی ترکیب سوچی گئی اور خاندان کے بزرگوں نے ایک سو اسی درجے کا موڑ کاٹتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ راہ راست سے ہٹے ہوئے اس بچے کو مروجہ انگریزی طریقہ تعلیم سے ہٹا کر حافظ قرآن بنا دیا جائے تاکہ دماغ میں کلبلاتے موسیقی کے جراثیم کی کامل سرکوبی کی جا سکے۔

اول اول تو اس فیصلے کی سمجھ ہی نہ آئی۔ احتجاج کرتا بھی تو کیا کرتا۔ اور پھر لالچ یہ دیا گیا کہ حافظ قرآن اپنے ساتھ دیگر ستر لوگوں کو بخشوا کر جنت میں لے جائےگا۔ مجھے یاد ہے کہ مدرسے میں داخلے سے قبل ایک سو دس لوگ اس لسٹ میں شامل ہو چکے تھے جو بنا حساب کتاب کے حافظ صاحب کی پیچھے پیچھے جنت میں جانے کے امیدوار تھے۔ ان میں سے چند لوگوں نے اس بات کو نہایت سنجیدگی سے لیا اور گناہ و ثواب کے فلسفلے کو خیر باد کہ کر خاکسار سے امید باندھ لی تھی۔ خاکسار بےچارہ ہکا بکا تھا۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ کراچی میں رہ کر قرآن کریم کا حفظ ممکن نہ ہو سکے گا چناچہ پنجاب میں نانا اور نانی کے پاس بھیج دیا جائے۔ ان کی آہنی نگرانی میں یہ کام بحسن و خوبی تشکیل پا سکے گا۔ چناچہ پانچویں جماعت کے امتحان ہوتے ہی پنجاب کا ٹکٹ کٹا دیا گیا۔ کاش اس وقت میں نے وہ فلم دیکھ رکھی ہوتی جس کا نام ہے ”پنجاب نہیں جاؤں گی“ تو میں بھی کچھ حوصلہ کرتا مگر حوصلہ نہیں تھا اس لیے پنجاب آنا پڑا۔

اگلے تین سال نہایت صبر آزما مگر اچھے تھے۔ نانا اور نانی نے بہت شفقت فرمائی۔ ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا۔ دنیا کے جھمیلوں سے دور دو بزرگ اور ایک کم سن نے تین برس کیسے گزارے یہ ایک الگ داستان ہے۔ درمیان میں کچھ نہایت سخت مراحل بھی آئے۔ ایک موقع پر جی بالکل اچاٹ ہو گیا اور پندرہ پارے حفظ کرنے کے بعد آگے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ مگر اللہ بخشے نانا جان کو۔ ان کی پشاوری سینڈل نہایت مضبوط اور میری چمڑی نرم و نازک تھی۔ لہٰذا یہ رکاوٹ جلد دور ہو گئی اور رٹو طوطے کا سبق پھر سے جاری ہو گیا۔ اندازہ ہو گیا کہ جان چھڑانے کا واحد طریقہ جلد از جلد حفظ مکمل کرنا ہی ہے چناچہ ”نائیٹ رائیڈر“ کی طرح ”ٹربو بوسٹ ”لگایا اور فٹافٹ حفظ قرآن کی تکمیل کی۔ خاندان بھر کے لیے یہ نہایت خوشی کا مقام تھا کہ خاندان میں پہلا حافظ قرآن آ گیا تھا۔ والدین نے ایک شاندار تقریب بطرز تقریب ولیمہ منعقد کی اور خاندان بھر نے اس میں شرکت کر کےجشن تشکر منایا۔ خاکسار کی البتہ بطور انعام ٹنڈ کروا دی گئی تھی کیوں کہ آخری تین ماہ بوجوہ ہاسٹل میں رہنے سےسر میں جوئیں پڑ گئی تھیں۔

تکمیل حفظ قرآن کے بعد کراچی واپس لوٹنا نصیب ہوا۔ اب مرحلہ تھا دنیاوی تعلیم کا۔ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے نا کہ حفظ قرآن کی تکمیل کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ جلد از جلد اپنے گھر واپس آیا جا سکے۔ دوران حفظ ہی یہ انکشاف ہو چکا تھا کہ حافظ صاحب اکیلے ہی پل صراط پر قدم رکھیں گے اور وہ بھی اس صورت میں پار ہو گا جب اعمال صالحہ ہمراہ ہوں۔ چناچہ وہ ایک سو دس لوگوں کی لسٹ منسوخ کر دی گئی تھی۔ کراچی میں میرے چھوٹے بہن بھائی شہر کے اچھے انگریزی اسکولوں میں زیر تعلیم تھے اور خاکسار کے ساتھ صورت حال یہ ہوئی کہ کوئی اچھا اسکول نویں جماعت میں داخلہ دینے کو تیار نہ تھا کہ پانچویں کے بعد چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتیں نامہ اعمال میں شامل نہ تھیں۔

بہ امر مجبوری محلے کے ایک چھوٹے سے گھر میں واقع ایک نام نہاد اسکول میں داخلہ ملا جس میں آٹھویں جماعت میں بشمول خاکسار دو طالبعلم تھے۔ والدہ نے پہلے دن جب امام ضامن باندھ کر بصورت محاذ جنگ خاکسار کو سمجھا بجھا کر اسکول بھیجا تو یہ نصیحت فرمائی کہ جاتے ہی اپنے ہم جماعتوں سے دوستی گانٹھ لینا۔ میں نے نصیحت گرہ سے باندھی اور اپنی ریسنگ سائیکل پر اسکول جا پہنچا۔ آٹھویں جماعت میں میرے علاوہ صرف ایک لڑکی تھی۔ تازہ تازہ حفظ قرآن کے بعد ماضی کی بد اعمالیاں عارضی رخصت پر تھیں چناچہ یہ دوستی نہ ہو پائی۔ صرف اسکول کی پڑھائی سے آگے بڑھنا ممکن نہ تھا چناچہ ایک ٹیوشن بھی رکھوا دی گئی۔ یہاں ایک اور مسئلہ سامنے آیا۔ ٹیوشن والے بھائی حساب کے مضمون میں اپنا ”میتھڈ“ پڑھانے پر بضد تھے جبکہ اسکول والوں کا میتھڈ مختلف تھا۔ دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ڈوب جایا کرتا ہے۔ چناچہ آٹھویں کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ فیل کیا۔ حساب میں میرا اسکور صفر بٹا سو رہا تھا۔

اب کوئی سفارش ڈھونڈنی شروع کی کہ بچے کو کسی اچھے اسکول میں داخلہ مل جائے۔ سفارش اور داخلہ دونوں مل گئے۔ کراچی میں ایک اسکول ہے عائشہ باوانی اکیڈمی۔ 1991 میں یہ اسکول اردو میڈیم ہوا کرتا تھا اور مخلوط نہیں تھا۔ اب کا معلوم نہیں۔ عائشہ باوانی کے اسکول سیکشن کے اس وقت کے پرنسپل ہمارے والد کے اسسٹنٹ کے سسر نکل آئے اور یوں ہم ایک بار پھر گھر سے نکل آئے۔ آپ اس بچے کی ذہنی کیفیت اور احساسات کا اندازہ لگائیں جو موسیقی کا شوقین تھا۔ ٹی وی پر گانا گانا چاہتا تھا۔ مگر اسے قرآن حفظ کرنا پڑا اور کراچی کے ایک اردو میڈیم اسکول میں گھٹ گھٹ کر اپنی پڑھائی کے سلسلے کو جاری کرنا پڑا جبکہ اس کے بہن بھائی اچھے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھ رہے تھے۔

اردو میڈیم کا کڑوا گھونٹ اس طرح بھرا کہ اسکول میں کلاسیں اٹینڈ کیں اور ٹیوشن میں انگلش میں کورس مکمل کیا اور اسکول کی انتظامیہ کی مخالفت مول لے کر نویں کا داخلہ انگریزی میں بھجوایا اور امتحان بھی دیا۔ یہ کوئی فلم یا ناول تو ہے نہیں کہ ہیرو نے نامساعد حالات میں بھی بورڈ ٹاپ کر دیا ہو۔ چناچہ بمشکل تریسٹھ فیصد نمبر لے کرامتحان پاس کیا۔ حالانکہ والد صاحب کا نادر شاہی حکم یہ تھا کہ پچاسی فیصد نمبر ضرور لینے ہیں۔ دسویں جماعت اور مشکلات کے ساتھ آئی۔ دسویں جماعت میں اسکول کے قاری صاحب سے مسلکی اختلافات کی بنیاد پر ساتھی طالبعلموں کی طرف سےسوشل بائیکاٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا جو میرے اسکول چھوڑنے تک جاری رہا۔ بہرحال رو دھو کر تقریبا انہتر فیصد نمبروں سے میٹرک پاس کر لیا۔

بعض اوقات والدین کے ایک غلط یا شاید صحیح مگر جذباتی فیصلے کی وجہ سے اچھے خاصے بچے کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ بچے کے رحجانات کو مدنظر رکھنے کی بجائے اپنی خواہشات اور دنیا دکھاوے کے لیے بچے کے لیے یکسر مختلف میدان منتخب کر لیا جاتا ہے جو شاید اس بچے کے لیے مناسب بھی نہ ہو۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔ پرائمری کے بعد اچھی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے اچھے اسکول میں داخلہ نہ مل سکا اور واجبی نمبروں سے میٹرک پاس کرنے کی وجہ سے کسی اچھے کالج میں داخلہ بھی نہ ملا اور یوں والدین کے وہ خواب چکنا چور ہو گئے جو کبھی انہوں نے میرے لیے دیکھے ہوں گے۔ میرا پہلا عشق یعنی موسیقی ایک دردناک انجام سے ہمکنار ہوا اور دوبارہ کبھی اس بارے میں سوچنے کی ہمت بھی نہ پڑی کہ دوبارہ کسی مدرسے میں والدین سے دور رہ کر پڑھنے کی ہمت نہ تھی۔ حفظ قرآن کا معاملہ بھی کچھ یوں ہے کہ حفظ کیے انتیس برس گزر گئے اور ضد کی وجہ سے بائیس برس سے دوہرا کر نہیں دیکھا۔ زندگی کے وہ تین برس جو حفظ میں لگائے بالآخر رائیگاں ہی محسوس ہوتے ہیں۔ اور اکثر ذہن میں وہ شعر گونجتا ہے۔ نہ خدا ملا نہ وصال صنم۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad