حسن اتنی بڑی دلیل نہیں


تم بہت جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
مت کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں

حسن اور ذہانت کی بات کی جائے تو کچھ لوگ حسن پرست ہے جن کی نظر میں حسن ہی سب کچھ ہے اور کچھ ذہانت کو اولین ترجیح دیتے ہے۔ انسان کی پہچان اس کی شخصیت سے ہوتی ہے انسان پر پڑنے والی پہلی نگاہ اس کے شکل و صورت پر پڑتی ہے وہ حسن ہی ہے جو ایک لمحے میں متاثر کر جائے اور دلوں کو اپ کا گرویدہ بنا دے۔ کسی کے ساتھ وقت گی گزارنے کے بعد ہی اس جی ذہانت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ البتہ چند لمحوں کی ملاقات میں کسی کی ذہانت کو پرکنا قدرے مشکل ہے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارے پاکستانی اسی طرح زندگی کے اہم ترین فیصلے یعنی شریک حیات کے انتخاب کے لیے بھی پہلی ترجیح حسن کو دیتے ہے۔ وہ الگ بات ہے کے کہ لڑکے میں حسن کا نام و نشان تک موجود نہ ہو مگر اپنی شریک حیات اسے جنّت کی حور چاہیے۔ چاند کے ٹکڑے کی تلاش میں گھر گھر کی خاک چھانی جاتی ہے، لاکھوں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کو دیکھا اور رد کیا جاتا ہے اور ہزاروں آہیں سمیٹنے کے بعد گوہر مقصود مل ہی جاتا ہے اور کوئی چاند کا ٹکڑا گھر آنگن میں چاندنی بکھیرنے اتر ہی آتا ہے پھر یہ علیحدہ بات ہے کہ چاند کا یہ ٹکڑا کون کونسے چاند چڑھاتا ہے گویا زندگی کے اس اہم ترین فیصلے میں بھی کردار، سیرت، سلیقہ سے زیادہ حسن کو فوقیت حاصل ہے۔

یہ بات تو سچ ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی کچھ مردوں کو عورت کے حسن سے زیادہ اس کی ذہانت متاثر کر جاتی ہے۔ کچھ مرد شریک حیات کے انتخاب کے وقت مرد حسن کے ساتھ ساتھ عورت کی ذہانت کو اہمیت دیتا ہے، اس کا ایک ثبوت یہ سروے رپورٹ بھی ہے۔ برطانیہ میں کیے گئے حالیہ سروے میں کہا گیا ہے کہ مرد شریک حیات کے انتخاب میں عورت کے حسن سے زیادہ ذہانت کو اہمیت دے رہے ہیں ۔ برطانوی یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے سروے نے گزشتہ کئی بار کے سروے نتائج کی تصدیق کردی ہےکہ مرد اپنی شریک حیات کا انتخاب خوبصورتی کی نہیں بلکہ ذہانت کی بنیاد پر کرتے ہیں تاکہ وہ ایک ذمہ دار ماں کا کردار ادا کرسکے۔ سروے میں شامل ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ مرد عورت کے ظاہری حسن سے نہیں بلکہ ذہانت سے متاثر ہو کر اسے شریک حیات کے طور پر منتخب کرتا ہے۔

موجودہ دور میں زندگی کی تیز ترین دوڑ میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہیں اور دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب معاشی بوجھ بانٹنا ان کے لیے ضروری ہو گیا ہے مگر حالات کے تقاضوں سے مجبور ہو کر تنگدستی سے تنگ آ کر صنفِ نازک جب معاشی حالات سدھارنے کا عزم لیے میدان عمل میں آتی ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمی ڈگریوں اور قابلیت سے زیادہ ترو تازہ چہرے اور توبہ شکن سراپے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ابتداء میں تو ایک دھچکے کا سبب بنتی ہے مگر رفتہ رفتہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے جو موجودہ دور کی ”جدت پسندی“ اور ”ترقی“ کا تقاضا ہے۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ ذہانت، خوبصورتی، حسن، رنگ و روپ سب اللہ کی حکمت ہے۔ اور ہم ہیں کہ تقابل میں پھنسے ہیں۔ ہر انسان کی بحیثیت خود ایک الگ پہچان ہے۔ ہم ہر انسان کو اس کی حیثیت میں اہمیت دیں تو ہی اللہ کی حکمت واضح ہوتی ہے۔ لہذا انسانوں کو حسن یا ذہانت کی بنا پر نہیں بلکہ ایک مکمل فرد کے طور پر قبول کرنا چاہیے یہ سوچ کر کے ہر انسان الگ خوبیو ں کا ملک ہے سب ایک دوسرے سے منفرد ہے۔ اور پر محبت کے تقاضوں میں میعار کیسا جو دل کو بایا وہی انمول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).