میاں نواز شریف سے بلاوجہ کی دشمنی


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

یہ چیز سمجھ سے باہر ہے کہ ’اہلیان پاکستان‘ کس وجہ سے کامیابی کو برا جانتے ہیں اور کامیاب اور مخلص لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اب یہی میاں نواز شریف صاحب کا معاملہ دیکھ لیں۔ کوئی اللہ مارا ملک ہے پاناما۔ پتہ نہیں کس براعظم میں ہے اور کس وجہ سے مشہور ہے۔ ادھر کسی جگہ کوئی کروڑ سوا کروڑ صفحات پڑے تھے۔ ان کی بنا پر میاں صاحب کا نام دنیا بھر میں بدنام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے واویلا مچا رہے ہیں جیسے میاں صاحب نے چوری کی ہو، ڈاکا ڈالا ہو، نقب لگایا ہو، یا غبن کر لیا ہو۔

سب سے پہلے تو اس بات پر منطقی انداز میں سوچا جائے تو اتنے زیادہ استعمال شدہ صفحات کسی ردی کی دکان میں ہی ہو سکتے ہیں۔ اور ردی کی دکان میں تو ہر طرح کا کچرا ہی ہوتا ہے۔ کیا یہ مناسب بات ہے کہ ردی کے چند ٹکڑوں کو لے کر کوئی اپنے ملک کے حکمران کی عزت کے درپے ہو جائے اور اس کی ساکھ پر شرمناک سوال اٹھانے لگے؟ سربراہ کی عزت ملک کی عزت ہوتی ہے صاحبو۔ جو خاندان اپنے سربراہ کی عزت نہیں کرتا، وہ محلے میں مذاق کا نشانہ بن جاتا ہے اور جو ملک اپنے سربراہ کو چور کہنے لگے، وہ دنیا بھر میں چور کا ملک نہیں کہلائے گا تو اور کیا کہلائے گا؟

صاحبو، کچھ شرم کرو، کچھ حیا کرو۔ کیوں پاکستان کو بدنام کرتے ہو۔ دنیا بھر میں کیوں اپنے وزیر اعظم کو چور مشہور کرتے ہو۔ کیا تم پاکستان کا نام بدنام کرنے والوں کے حشر سے عبرت حاصل نہیں کرو گے؟ دیکھتے نہیں ہو کہ شرمین عبید چنائے کی کیسی تھڑی تھڑی ہو رہی ہے؟ اس نے فلمیں بنا دی تھیں کہ پاکستان میں عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینکا جاتا ہے اور عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ یہ معاملہ وہ چپ چاپ یہاں گھر بیٹھ کر سلجھا لیتی تو ایسی بدنام نہ ہوتی۔ اور وہ دوسری، کیا نام ہے اس کا، ملالہ۔ اس نے جنت نذیر سوات کو بدنام کرنا شروع کر دیا کہ وہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔ پتہ نہیں کس سے کیا الم غلم لکھوا کر اپنی ڈائری کے نام سے چھپوا دیا۔ پھر بھی خاطر خواہ تسلی نہ ہوئی تو شہرت پانے کی چاہ میں یہ بھی مشہور کر دیا کہ اسے سر میں گولی لگی ہے۔ بہرحال باقی کچھ ہو نہ ہو، یہ بات ماننے کی ہے کہ اداکارہ وہ باکمال ہے۔ پاک فوج کے بہترین ڈاکٹروں، اور وہ امارات کے شیخوں کو بھِی بے وقوف بنا دیا کہ اس کے سر میں گولی ہے۔ ارے اس کے سر میں تو دماغ بھی نہیں ہے، گولی کہاں سے ہوتی۔ اسی لیے تو اب وہ ایسی قابل نفرت ٹھہری ہے کہ ہر محب وطن اسلامسٹ اس کا نام سن کر ہی نفرت سے بے تاب ہو کر ایسے اچھلنے لگتا ہے جیسے جلی ہوئی دم والے مویشی ہوتے ہیں۔ اپنے وطن کی عزت رکھو لوگو، ورنہ انہی دو زنانیوں کی طرح وطن سے باہر جانا پڑے گا۔

\"nawaz\"

خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ ظلم مت کرو۔ بہتان مت باندھو۔ اپنے میاں صاحب کی قسمت دیکھو۔ باپ ایک نہایت شریف النفس ارب پتی شخص تھا، لیکن اس مال و دولت سے نفور رکھنے والے حکمران کے نام پر ایک دو مرلے کا مکان بھی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ درویش صفت حکمران چاہتا تو اپنی رہائش کے لیے ایکڑوں پر بنے ہوئے بڑے بڑے محلات کھڑے کر سکتا تھا۔ اسے تو بمشکل والدہ کی مہربانی سے شہر سے دور ایک قصبے کے نواحی ویرانے میں رہنے کی جگہ نصیب ہوئی ہے۔ گاڑی کے نام پر سائیکل تک نہیں خرید پایا ہے یہ درویش۔ کسی مہربان نے اس کی حالت پر رحم کھا کر لینڈ کروزر کا تحفہ نہ دیا ہوتا تو آج وہ روزانہ رائے ونڈ سے لاہور کسی بس کا ہینڈل پکڑ کر آنے پر مجبور ہوتا۔ اسی وجہ سے میاں صاحب غریبوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ بنوا رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر ان کی لینڈ کروزر خراب ہو گئی تو وہ شاید اسے ٹھیک بھی نہ کروا پائیں اور روز میٹرو پر بیٹھ کر ہی لاہور آیا کریں۔

جلنے والو! اور کوئی مثال ہے دنیا میں میاں صاحب جیسی؟ ان کے والدین ارب پتی تھے، ان کے بچے ارب پتی ہیں، ان کے رشتے دار ارب پتی ہیں اور وہ خود ایسے کہ برس ہا برس ملک پر حکمرانی کر کے بھی غریب ہیں۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو بعض دوسرے پاکستانی کرپٹ سیاستدانوں کی طرح وہ بھی کرپشن کر کے اربوں کھربوں کما سکتے تھے۔ لیکن نہیں، ایسا نہیں کیا اس درویش نے۔ دشمنوں نے سر توڑ کوشش کی مگر ایک روپے کی کرپشن بھی اس شریف شخص پر ثابت نہیں کر پائے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کے بچوں کے نام کچھ آف شور کمپنیوں کے کاغذات میں آئے ہیں، تو میاں صاحب کے دشمنوں کو چاہیے کہ وہ عقل کو استعمال کریں کہ ایسا کیوں ہے؟ بلاوجہ کا شور مچانے والو، تمہیں یہ معلوم بھی ہے کہ انگریزی زبان میں شور کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہے ساحل۔ آف شور کا مطلب ہے ساحل کے پرلی طرف۔ تو میاں صاحب پر اعتراض کرنے والے خود بتائیں کہ میاں صاحب کے بیٹے کہاں رہتے ہیں؟ وہ بیس پچیس سال سے سات سمندر پار برطانیہ میں رہتے ہیں۔ یعنی وہ آف شور رہتے ہیں۔ تو ان کی کمپنیاں آف شور ہوں گی یا ادھر کانے کاچھے میں ہوں گی؟ اور وہ ہیں قانون پر عمل کرنے والے شہری، اس لیے برطانیہ کے آف شور ملک میں ہی ان کی کمپنیاں رجسٹر ہیں۔ اتنی سی بات ہے جس پر یہاں ایسے شور مچا ہوا ہے جیسے میاں صاحب کے بیٹوں نے پتہ نہیں مریخ پر کمپنی کھول لی ہو۔

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس کمپنی کھولنے کے پیسے کہاں سے آئے؟ کوئی بھی انصاف پسند شخص اس بات کی حقیقت جان لے گا تو میاں صاحب کی تعریف ہی کرے گا، نہ کہ عقل سے عاری لوگوں کی طرح شور مچائے گا جو کہ دشمنی میں اندھے ہوئے جا رہے ہیں۔ میاں صاحب کے والد مرحوم نے جدہ میں ایک بڑی سٹیل کی فیکٹری لگائی تھی۔ ان کی وفات ہوئی تو ظاہر ہے کہ یہ ورثے میں میاں صاحب کو ہی ملنی تھی۔ مگر اس درویش نے کہا کہ میں نے اتنے روپے پیسے کا کیا کرنا ہے؟ مجھے تو دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کو ایک کٹیا چاہیے جہاں بیٹھ کر میں خلق خدا کی خدمت کر سکوں۔ سو ورثے میں ملنے والی وہ اربوں کی جائیداد میاں صاحب نے ٹھکرا دی اور اپنے بیٹوں کو دے دی کہ تمہارے دادا کی نشانی ہے۔ بجائے اس کے کہ اس فقر و عجز کی تعریف کی جائے، الٹا یہ اعتراض کیا جانے لگا ہے کہ یہ فیکٹری لگانے کے پیسے کہاں سے آئے تھے۔

جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ میاں صاحب کے بیٹے پاکستان میں ٹیکس کیوں نہیں دیتے، تو بھائی جو شخص جس ملک میں رہائش پذیر ہو، جس ملک میں کاروبار کر رہا ہوں، وہ اسی ملک میں ٹیکس دیا کرتا ہے۔ میاں صاحب کے بیٹے برطانیہ کے رہائشی ہیں۔ ان کا سارا کاروبار وہیں ہے۔ ان کا ایک پیسے کا کاروبار بھی پاکستان میں ہو تو جو چور کی سزا وہ ان کی، مگر ان پر ناجائز الزام تو مت لگائے جائیں۔ پاکستان کو اس طرح اقوام عالم میں بدنام تو مت کیا جائے۔

عقل والے یہ جانتے ہیں کہ یہ پاناما کی آف شور کمپنیاں کرپٹ لوگوں کے لیے ہوتیں تو ان میں آصف علی زرداری کا نام ضرور ہوتا۔ آصف زرداری کا نام نہیں ہے تو پھر کرپشن فری ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہے؟ اس کے علاوہ یہ بھی تو سوچا جائے کہ دنیا کے ہر قابل عزت، سچے اور کھرے حکمران کا اپنا یا اس کے عزیزوں کا نام اس لسٹ میں شامل ہے۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم، برطانیہ کے وزیر اعظم، اور ایسے دس بیس شریف النفس معززین کے ناموں پر تو آپ کوئی نہ کوئی اعتراض جڑ دیں گے، مگر ذی جاہ عالی مرتبت شاہ سلیمان بن عبدالعزیز السعود کا نام آپ کیسے ٹھکرائیں گے؟ یہی ایک نام ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ پاناما ایک نہایت اچھا ملک ہے جہاں دنیا بھر کے شرفا اپنی جمع پونجی کاروبار میں لگاتے ہیں۔ لیکن میاں صاحب کے دشمن تو یہ بات اسی دن مانیں گے جس دن یہاں عمران خان کی انویسٹمنٹ ہو گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments