جمہوریت اور آمریت کی کشمکش


پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی ملک میں جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ کے مابین کشمکش شروع ہو گئی تھی۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلا مارشل لا جنرل ایوب نے لگایا تھا جبکہ پہلا مارشل لا ایک سیاستدان یعنی صدر سکندر مرزا نے لگایا تھا۔ پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل سکندر مرزا تھے اس سے قبل وہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی رہ چکے تھے۔ 1956 میں جب پاکستان کا پہلا آئین منظور کیا گیا تو اس میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر کے صدارت کا منصب تخلیق کیا گیا، جس کا انتخاب الیکٹرل کالج کے ذریعے ہونا تھا۔ تاہم صرف دو سال بعد ہی سکندر مرزا نے جس آئین کے تحت صدر بنے تھے، اسی کو معطل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا۔

اکتوبر 1958 میں سکندر مرزا نے ایوب خان سے اختلافات کی بنا پر استعفیٰ پیش کر دیا اور جنرل ایوب خان نے صدر کا منصب سنبھال لیا۔ ایوب خان کا چناؤ جمہوری طریقے سے نہیں ہوا تھا اسی لیے اپنے عہدے کو قانونی چھتری فراہم کرنے کے لیے انھوں نے 1960 میں ریفرینڈم منعقد کروایا، جس میں انھیں بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہو گئی۔ ایوب خان لگ بھگ گیارہ برس تک صدارت کے عہدے پر براجمان رہے۔ اس دوران ایک اور آئین منظور کیا گیا جس میں ان کی صدارت کی توثیق کی گئی۔ جب کہ اسی دوران انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی۔ فاطمہ جناح سے عوامی محبت قائداعظم محمد علی جناح کی وجہ سے تھی۔ ان کی شکست نے سوالات کو جنم دیا اور ایوب خان پر دھاندلی کے الزمات لگائے گئے۔ ان کے خلاف عوامی ناپسندیدگی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔

اس پیدا شدہ جمہوری خلا کو ایک شعلہ بیان سیاست دان یعنی ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی تیزی سے پُر کرنا شروع کر دیا۔ بالآخر مارچ 1969 میں ایوب خان نے اپنا عہدہ جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا۔ یحییٰ خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے رنگین و سنگین کردار تھا۔ انھوں نے پاکستان میں دوسری بار مارشل لا نافذ کیا۔ یحییٰ خان نے 1971 میں انتخابات منعقد کروائے۔ تاہم بھارت سے بدترین شکست اور ملک کے دولخت ہونے پر حالات اُن کے لیے موافق نہ رہے اور اپنے عہدے پر مزید برقرار رہنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ چناں چہ 20 دسمبر 1971 کو انھوں نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیرِ خارجہ، وزیرِ اعظم اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ ساتھ ملک کے صدر بھی رہے ہیں۔ 1971 میں واضح برتری حاصل ہونے کے باعث وہ 1973 میں وزیرِاعظم منتخب ہو گئے۔

بھٹو کو سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان والی غلطی یعنی فوج کے سربراہ کا ناعاقبت اندیشانہ چناؤ کا خمیازہ یوں بھگتنا پڑا کہ جنرل ضیاالحق 1977 میں بھٹو کو معزول کر کے ملک کے تیسرے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ بعد میں جنرل ضیاالحق نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ مدتِ صدارت کو توسیع دینے کے لیے جنرل ضیا کو بھی ریفرینڈم کا سہارا لینا پڑا۔ متنازع ریفرینڈم میں انھوں نے 95 فیصد ووٹ لیے۔ اس کے بعد ضیاالحق نے غیرجماعتی انتخابات منعقد کروائے۔ اور اسمبلی سے اپنے تمام سابقہ اقدامات کی توثیق حاصل کی۔ علاوہ ازیں آٹھویں ترمیم بھی منظور کروا لی جس کی بدنامِ زمانہ 58-2-B شق کے تحت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا۔ اب صدر کے سامنے وزیرِاعظم اور پارلیمان ربڑ سٹیمپ بن کر رہ گئے۔ ضیاء الحق کے اقتدار کا سورج تو اگست 1988 میں بہاولپور کے قریب اُن کا طیارہ فضا میں پھٹنے سے غروب ہو گیا۔ لیکن اس 58-2-B کی تلوار سے صدر غلام اسحٰق خان نے پہلے بے نظیر بھٹو کی حکومت کی بساط لپیٹی اور پھر اس کے بعد جولائی 1993 میں نواز شریف حکومت کو بھی چلتا کیا۔ مگر اس بار نواز شریف اسحٰق خان کو بھی ساتھ لے ڈوبے۔ بے نظیر بھٹو کے دوبارہ اقتدار کو فاروق احمد لغاری نے ختم کر دیا گیا۔ جس کے بعد نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی آٹھویں ترمیم کا ڈنک نکلوا دیا۔ جس پر فاروق لغاری نے استعفیٰ دے دیا اور رفیق تارڑ ملک کے صدر بنے۔ لیکن نواز شریف نے ماضی سے سبق نہ سیکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو خصوصی ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا۔ جنہوں نے اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد جون 2001 میں صدارت کا حلف اٹھا لیا۔

جنرل مشرف نے 58-2-B کا گڑا مردہ نکالا اور اسمبلی اور وزیرِاعظم کے سر پر تلوار کی طرح لٹکا دیا۔ 2008 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی، اور پرویز مشرف کو نہ صرف ایوانِ صدر بلکہ ملک ہی کو خیرباد کہنا پڑا۔ یوں آصف علی زرداری صدر منتخب ہو گئے لیکن وہ 58-2-B سے دست بردار ہو گئے۔ لگتا تھا کہ جمہوریت کی شاہراہ پر سے آمریت کی بارودی سرنگیں ختم ہو گئی ہیں۔ لیکن اہلیت سے متعلق 62 ویں شق کے تحت چیف جسٹس افتخار چوہدری نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی توہینِ عدالت میں چند سیکنڈ کے لیے سزا کو بنیاد بنا کر 2008ء کے انتخابات کا عوامی مینڈیٹ فارغ کر دیا۔ اسی طرح عدلیہ کی نظر میں ایک اور وزیراعظم میاں نواز شریف محض اقامہ ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر صادق و امین نہ رہے اور یوں ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیے گئے۔ گویا 58-2-B کی شق ختم ہو کر بھی نئی صورت میں معرضِ وجود میں آ گئی ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مسلم لیگ نون وہ واحد جماعت رہ گئی ہے جسے بھاری عوامی مینڈیٹ حاصل ہے اور یہ بات آمرانہ قوتوں کو قطعا پسند نہیں۔ اس بھاری مینڈیٹ کو توڑنے کے لیے مختلف مواقع پر مختلف جتن کیے گئے۔ کبھی دھاندلی کے نام پر دھرنے منعقد کروائے گئے جس میں آئین و قانون کی خوب دھجیاں اُڑائی گئیں۔ اور کبھی اصل حقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے ڈان لیکس کو بہانہ بنا کر قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے نام پر جمہوری حکومت کو دیوار سے لگایا گیا۔ ہیئت مقتدرہ کے ترکش میں کئی قسم کے تیر ہیں جو وہ موقع کی مناسبت سے استعمال کرتی ہے۔ عدلیہ کو بھی ایک طرح کا ہتھیار بنا کر نواز شریف کی پارٹی کو توڑنے یا کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیراعظم کے عہدے سے نااہل قرار دلوانے کے بعد اب انھیں پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔

آمرانہ قوتوں نے اس بات کی بو سونگھ لی ہے کہ اگر مسلم لیگ نون سینیٹ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر عام انتخابات میں بھی بھاری اکثریت حاصل کر لے گی۔ اور نواز شریف نے جس انداز سے سوچنا شروع کر دیا ہے وہ ضرور ایسی آئینی تبدیلیاں متعارف کروا دیں گے جن کے ذریعے جمہوریت کی بالادستی قائم ہو جائے گی۔ عدالتی مہم جوئی کے ذریعے جو دھول اُڑ رہی ہے وہ اس بات کا شاخسانہ ہے کہ ایک اور آمرانہ دور کی آمد آمد ہے، اللہ خیر کرے!

سید حسن رضا نقوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید حسن رضا نقوی

‎حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں، سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں، آج کل بطور پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں

syed-hassan-raza-naqvi has 10 posts and counting.See all posts by syed-hassan-raza-naqvi