عام انتخابات کا انعقاد کیوں ناممکن ہے؟


سینیٹ انتخابات خیر و خوبی سے ہو گئے۔ پاکستان مسلم لیگ ن جو بغیر انتخابی نشان اور جماعت کے، یعنی آزاد حیثیت میں انتخابات لڑ رہی تھی اپنی توقع سے ایک آدھ نشست زیادہ لے گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز نے بھی توقع سے زیادہ نشستیں لے لیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنی متوقع نشستیں حاصل کر لیں۔ باقی اکا دکا سیاسی جماعتوں کو اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ مل گیا۔ کچھ آزاد امیدوار جیت گئے اور اس طرح گزشتہ قریباً ایک سال سے جاری خدشات، الزامات، اطلاعات اور افواہوں کا اختتام ہوا۔

اب کل سے عام انتخابات کی شامت شروع ہو جائے گی۔ ایک سے بڑھ کر ایک تجزیہ سامنے آئے گا۔ خدشات، الزامات، اطلاعات اور افواہوں کا ایک نیا بازار گرم ہو گا اور اس طرح اگلے تین ماہ پہلے سے ذہنی مریض بنی اس قوم پر مزید نفسیاتی وار کیے جائیں گے۔ اور پھر خدشات، الزامات، اطلاعات اور افواہوں کے برعکس عام انتخابات منعقد ہوں گے۔ اس کے بعد نئی حکومت کی تشکیل ہو گی اور ایک بار پھر یہی کھیل شروع ہو جائے گا۔

پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کا استعمال نہایت سفاکانہ انداز میں کیا جاتا ہے۔ جب تک قومی افق پر گنے چنے اچھی ساکھ والے اخبارات شائع ہوا کرتے تھے اس وقت تک خبر کی ایک ساکھ ہوا کرتی تھی۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اداریے اور تجزیے غیر جانبداری اور نیت نیتی سے لکھے جاتے تھے ۔ وہ اداریے اور تجزیے ملک کے مختلف طبقات میں اپنے اپنے شعور کے مطابق پڑھے اور سمجھے جاتے تھےاور یوں قوم فکری اور سیاسی تربیت مسلسل جاری رہتی تھی۔ پھر نجی چینلز کا دور شروع ہوا اور اظہار رائے کی آزادی ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ بریکنگ نیوز کلچر کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ اس دوڑ میں سرپٹ بھاگتے ہوئے چینلز کو ریٹنگ والا نسخہ ہاتھ آیا تو جائز اور ناجائز کو پس پشت ڈال کر “ننگی” صحافت کی بنیاد ڈالی گئی۔ نوآموز اور غیر تربیت یافتہ نوجوان ہاتھوں میں مائک اور کیمرہ بطور ہتھیار تھامے میدان میں اترے اور ملک کی تقدیر بدلنے اور قوم کے سامنے ہر صورت “سچ” لانے کا تہیہ کر لیا۔ ٹاک شو شروع ہوئے اور قوم کی فکری اور سیاسی تربیت کے اس دور کا آغاز ہوا جس نے معکوس سفر کیا اور قوم کی سیاسی اور سماجی اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔

پھر سوشل میڈیا کا ظہور ہوا اور قوم کی فکری ، سیاسی، سماجی، تمدنی اور اخلاقی تربیت کی ذمہ داری ہر اس فرد نےازخود اپنے اوپر لازم قرار دے ڈالی جس کو اسمارٹ فون میسر تھا اور قوم کے نظریاتی جہاد میں حصہ ڈالنے والی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے انتہائی سستے انٹرینیٹ پیکجز تک ان کی رسائی تھی۔ افواہ سازی کی صنعت کا قیام عمل میں آیا ۔ اور پھر ہر کسی نے ہر کسی کو بتانا، سمجھانا اور دھمکانا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

سیاست تاثر کا کھیل ہے۔ عوام پر جس کا تاثر جس قسم کا قائم ہو جائے وہ اسی حوالے سے اس کے بارے میں سوچتے اور فیصلہ کرتے ہیں۔ گذرتے وقت کے ساتھ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اپنا اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا۔ ٹاک شوز میں مخصوص سیاسی کارکنوں نے مستقل ڈیرا جمایا تو سوشل میڈیا پر میڈیا ٹیمیں وجود میں آ گئیں۔ یہ ایک بہت اچھی پیش رفت تھی۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا واضح اور دوٹوک پیغام اور مؤقف عوام تک براہ راست پہنچانے کی سہولت میسر آ گئی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس سہولت کا منفی استعمال شروع ہوا ۔ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپنی مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین پر حملے شروع کیے۔ ان حملوں کا جواب ملنا شروع ہوا اور کامیابی کا دارومدار اس بات پر آ گیا کہ کون زیادہ ہذیانی گفتگو کر سکتا ہے اور کون دوسرے کے “پھٹے اکھاڑ” سکتا ہے۔ رہی سہی کسر ان اینکر خواتین و حضرات نے پوری کر دی جو اپنے پروگرام کی کامیابی محض اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کون کتنی زور سے چلایا اور کس نے کس کی عزت اتار کے ہاتھ میں پکڑا دی۔

اور پھر وہ وقت آیا کہ نو آموز اور ناپختہ کار سیاست دانوں اور میڈیا اینکروں نے اپنی ذاتی خواہشات اور خدشات کی بنیاد پر مختلف تاثر پیدا کرنے شروع کر دیئے جن میں آئے روز حکومت کے جانے کی تاریخیں، سینیٹ کے انتخابات سے پہلے حکومت کا اختتام، آرمی چیف کی تعیناتی میں پس پردہ خواہشات اور سازشیں، عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے پیچھے پس پشت قوتوں کی کارفرمائی کی داستانیں، سیاست دانوں کے بے تحاشہ اخلاقی زوال اور کردار کشی، بدعنوانی کی داستانیں، عمران خان کی شادی، نواز شریف کی بربادی، آصف زرداری کی ہوشیاری، شیخ رشید احمد کی عزا داری اور فاروق ستار کی بے کاری سب کچھ تھا۔ اگر کچھ نہیں تھا تو ملک کی معیشت، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، اخلاقیات اور سماجیات پر سنجیدہ مکالمہ نہیں تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی قوم کے سیاست دان اس قوم کا آئینہ ہوتے ہیں۔ قوم کے مجموعی مزاج کی عکاسی انہی سیاست دانوں کے افکار و اعمال سے ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے زیادہ ترسیاست دان فکری گہرائی کے تصور سے نا آشنا دکھائی دیتے ہیں۔ معدودے چند سیاست دانوں کو چھوڑ کر اکثریت قابل تقلید روایات کی حامل نہیں ہے ۔ ان کی جانب سے کسی بھی موقع پر مضبوط مؤقف آنےکی بجائے ڈرا سہما، شکوک و شبہات پر مبنی، مبہم اور غیر سنجیدہ تاثر قوم پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ درحقیقت کسی بھی خطرے سے محفوظ سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد کچھ عرصہ سے انتہائی نامساعد دکھائی دے رہاتھا۔ سینیٹ انتخابات خیر و خوبی سے ہو گئے۔ اب اگلے تین ماہ عام انتخابات کے انعقاد کے ناممکن ہونے کا بیانیہ سننے کے لیے تیار ہو جائیں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad