بادشاہ گر تو سپریم کورٹ بھی نہیں ہو سکتی


جمعہ کے روز ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں، فاٹا اور قومی اسمبلی کے ارکان سینیٹ کی 52 نشستوں کے لئے رائے شماری میں حصہ لیں گے ۔ اس طرح دراصل یہ فیصلہ ہو سکے گا کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو کس حد تک پارٹی سے بد ظن کرکے اس پارٹی کی سیاسی حیثیت پر سوالیہ نشان لگایا جا سکتا ہے۔ اس الیکشن کے نتیجہ میں یہ واضح ہو سکے گا کہ کیا نواز شریف کی نااہلی کے بعد حکمران جماعت سے وابستہ لوگوں کو نواز شریف کو مسترد کرنے پر کس حد تک آمادہ کیا جاسکا ہے۔ دراصل ملک کی اسٹیبلشمنٹ اسی کھیل کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو کنٹرول اور سیاسی لیڈروں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ البتہ سینیٹ کی باون نشستوں کے لئے ہونے والی پولنگ سے ایک دو روز پہلے نہال ہاشمی کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہونے والی پنجاب سے سینیٹ کی نشست پر جو ضمنی انتخاب منعقد ہؤا ہے، وہ درپردہ سیاست کھیلنے والوں اور منظر نامہ پر ان کی نمائیندگی کرنے والوں کے لئے کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا۔ مسلم لیگ (ن) کے اسد اشرف نے ’آزاد‘ امید وار کے طور پر انتخاب میں حصہ لیا کیوں کہ سپریم کورٹ طے کرچکی ہے کہ نواز شریف کے نامزد کردہ امید وار سینیٹ کا الیکشن بھی لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کمال مہربانی سے مسلم لیگ (ن) کے امید واروں کو آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لینے کا حق دے دیا۔ حالانکہ انصاف ، دیانت اور صداقت کی جو کسوٹی اس وقت سپریم کورٹ نے تیار کی ہے اس کے مطا بق تو ہر وہ شخص نااہل اور ناقابل ا عتبار ہونا چاہئے جو نواز شریف کا حامی ہے یا انہیں اپنا قائد کہتا ہے۔ اسد اشرف کی سینیٹر کے طور پر کامیابی اور اس کے بعد یہ بیان کہ وہ اپنی یہ کامیابی نواز شریف کے قدموں میں رکھتے ہیں، اس عدالتی حکم کا جواب ہے جس کا تفصیلی فیصلہ آج جاری کردیا گیا ہے۔

یہ کامیابی جہاں اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں توڑ پھوڑ کی کوششیں اور خواہشیں پوری نہیں ہو رہیں اور اسکرپٹ کے اندیشوں اور پیش از وقت باندھی گئی توقعات کے برعکس اب بھی یہ پارٹی نشان کے بغیر اور سپریم کورٹ کے انتباہ کے باوجود سیاسی طور سے مستحکم ہے۔ اگر جمعہ کو ہونے والے سینیٹ الیکشن میں بھی یہ بات ثابت ہو گئی تو ملک کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لئے حیرت کے کئی باب کھلنے کا امکان ہے۔ یہ حیرتیں گزشتہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو وزیر اعظم کے طور پر نااہل قرار دیئے جانے کے بعد بار بار سامنے آرہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کو کنگز پارٹی کا نام دیاجاتا ہے۔ یعنی یہ ان لوگوں کا مجموعہ ہے جو ملک کے اصل بادشاہ گر حلقوں کے دست نگر رہتے ہیں ۔ اسی لئے اقتدار کے ہما کی نقل و حرکت کے بارے میں لکھا جانے والا اسکرپٹ ایسے کرداروں کا محتاج رہتا ہے اور اسے لکھنے والوں کو کبھی اپنے قیاس میں ناکامی نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں گزشتہ سات دہائیوں سے نہ عوام کے ووٹ کی حکمرانی رہی ہے اور نہ ان کے منتخب کئے ہوئے لوگ بااختیار رہے ہیں بلکہ اقتدار موسم بدلنے کے ساتھ چولا بدلنے والے پنچھیوں کا اسیر رہا ہے اور خود ان طوطوں کی جان اسکرپٹ لکھنے والوں کے موئے قلم کی محتاج رہتی ہے جو کسی کو بھی سیاست اور سیادت کے منصب سے حرف غلط کی طرح مٹا سکتے ہیں۔

اس کھیل کے کئی منظر نامے اہل پاکستان کو ازبر ہیں۔ اسی لئے نواز شریف کی نااہلی گو کہ عدالتی حکم کے نتیجے میں ہوئی تھی لیکن اس میں ان عوامل کو تلاش کیا جاتا رہا ہے جو ملک میں اقتدار کی بساط بچھانے والے برسوں سے ایک ہی ڈھنگ اور طریقے سے کھیلتے اور جیتتے رہے ہیں۔ 28 جولائی 2017 پاکستانی سیاست میں نواز شریف ہی نہیں شریف خاندان کا بھی آخری دن سمجھا جا رہا تھا۔ اندازہ تھا کہ حکومت کرنے کے عادی اراکین اسمبلی اپنی وفاداریوں کا رخ اسی طرف موڑ لیں گے جس طرف مسلسل اقتدار حاصل رہنے کا امکان ہوگا۔ حکمران جماعت میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد نہ نواز شریف کو بولنے کا یارا ہوگا اور نہ ہی کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہو گی۔ سارا معاملہ از خود طے ہو جائے گا۔ نواز شریف جان بچا کر لندن بھاگ جائے گا اور بھائی سے بغاوت کرنے والے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ان کی وفاداری کے عوض کچھ مہلت اور موقع دے دیا جائے گا۔ تاہم یہ ساری امیدیں بر نہیں آئیں ۔ نہ نواز شریف نچلا بیٹھے اور نہ ہی ان کے ساتھیوں نے غداری کی۔ اس پر مستزاد یہ کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ’غیر معقول‘ قانون کے ذریعے نواز شریف کو پھر سے پارٹی کا صدر بنوا دیا اور ان کی غراہٹ دو چند ہو گئی۔

نواز لیگ کو آزمانے اور نواز شریف کو چت کرنے کے لئے بلوچستان میں اقلیتی مسلم لیگ (ق) کا وزیر اعلیٰ لایا گیا اور یہ امید کی گئی کہ اس طرح نواز شریف کا جاں نثار بنے رہنے والوں کو یہ سبق یاد کروایا جائے گا کہ اب نواز شریف کا ساتھ چھوڑ کر ہی ان کا اپنا مستقبل محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس میں شبہ کرنا تو گناہ ہی شمار ہوگا کہ نواز لیگ کے اکثر ’جیالوں‘ یعنی نام نہاد الیکٹ ایبلز Elect ables کی ہوس اقتدار پر شبہ کیا جائے۔ لیکن نواز شریف کے ’مجھے کیوں نکالا‘ والے بیانیہ نے انہیں لطیفہ بنانے کی بجائے یہ تاثر قوی کیا کہ اب ان الیکٹ ایبلز کو آئیندہ فتح حاصل کرنے کے لئے اسکرپٹ والوں سے زیادہ نواز شریف کی تائد و حمایت کی ضرورت ہوگی۔ لہذا بلوچستان میں سیاسی توڑ پھوڑ اور سپریم کورٹ کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر تو نہیں رہے لیکن تاحیات قائد کے رتبے پر فائز ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف پارٹی کے صدر ضرور بن گئے ہیں لیکن سکّہ نواز شریف ہی کا چل رہا ہے۔ شہباز کی صدارت سے مسلم لیگ (ن) کی حیات نو کی امیدیں فی الوقت نقش بر آب ثابت ہو رہی ہیں۔

سینیٹ کی باون نشستوں پر ہونے والے انتخاب یہ طے کریں گے کہ اس سال کے دوران ہونے والے قومی انتخابات میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ لگتا یہی ہے کہ نواز شریف کا سیاسی سورج ابھی غروب ہونے میں اندازے سے زیادہ وقت لگے گا اور اس کے لئے شاید انگلی ٹیڑھی بھی کرنا پڑے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے انتخابی ایکٹ 2017 کو مسترد کرنے کے بارے میں درخواستوں تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ جس طرح محض اتفاق سے سینیٹ الیکشن سے ہفتہ عشرہ قبل سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نااہل قرار دے کر ان کی طرف سے پارٹی کے بارے میں کئے گئے تمام فیصلے کالعدم قرار دیئے تھے اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی سینیٹ انتخاب میں براہ راست حصہ لینے سے محروم کردی گئی تھی۔ اسی طرح سینیٹ کے انتخاب کے لئے پولنگ سے چوبیس گھنٹے پہلے محض اتفاق سے ہی اس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے یاد دلایا ہے کہ جس شخص کو بادشاہ بننے کا حق نہ دیا جائے، اسے بادشاہ گر یعنی کنگ میکر کا کردار ادا کرنے کا اختیار بھی نہیں دیا جا سکتا۔ اب اس اتفاق کا سبب چیف جسٹس کی بابا رحمتا والی سادہ لوحی ہی ہو سکتی ہے کہ وہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنے کی بجائے محض انصاف کرنے اور انصاف ہوتا دکھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ بد خواہ اسے ملک کی عدالت عظمی کی ’بددیانتی، جانبداری یا سیاسی ہتھکنڈے‘ قرار دیں گے۔ لیکن یہ بد دیانتی تو اسی صورت میں ثابت ہوگی اگر جمعہ کو ووٹ دیتے وقت مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی قیادت کا حکم ماننے کی بجائے نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں گے۔

سینیٹ کے لئے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدواروں کو اگر حسب توفیق کامیابی نہ ملی تو اسے اسکرپٹ کی خوبی کے علاوہ ’عین موقع‘ پر سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلوں کےاعلانات کو وجہ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اگر نواز لیگ میں اب بھی دراڑیں نہ ڈالی جا سکیں تو قومی انتخابات سے پہلے کچھ نیا کرنا بے حد ضروری ہوجائے گا۔ ایسے میں البتہ یہ سوال اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے سرزد ہونے والے اتفاقات کا ملکی سیاست پر کیا اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے قلم سے لکھے ہوئے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جو شخص بادشاہ بننے کے قابل نہ ہو، اسے بادشاہ گر بننے اور پتلیوں کی ڈور ہلانے کا اختیار بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس فیصلہ اور حکم کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی سیاست کی ساری ڈوریاں اس وقت بدستور نواز شریف کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ مسلسل بادشاہ گر ہے اور اسی کی تجویز اور مرضی سے شہباز شریف پارٹی کے صدر بنے ہیں۔ انہیں کے تجویز کردہ امید وار سینیٹ کے انتخاب میں آزاد حیثیت سے شریک ہوں گے اور جیتنے کے بعد شاید اسد اشرف کی طرح ہی اس کامیابی کو نواز شریف کے قدموں میں رکھنے کا اعلان کریں گے۔

کیا یہ صورت حال سپریم کورٹ کی توہین کے مترادف نہیں ہوگی۔ پھر اس کی سزا سپریم کورٹ کسے دے گی۔ اس کا جواب تلاش کرنا بابا رحمتا کی خوبیوں والے چیف جسٹس کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ البتہ وہ اس سوال کا جواب تلاش کرلیں تو شاید اس حکم عدولی کا کچھ ازالہ ہو سکے کہ اگر نااہل شخص کنگ میکر نہیں ہو سکتا تو کیا سپریم کورٹ کے جج بادشاہ گر بن سکتے ہیں۔ چیف جسٹس گزشتہ دنوں ہی وطن پارٹی کی یہ پیٹیشن مسترد کرچکے ہیں کہ ججوں اور جرنیلوں کے حلف میں ’صادق و امین‘ ہونے کا اقرار شامل ہونا چاہئے۔ اس سے پہلے ان دونوں قسم کے عہدوں پر فائز افراد ملک کے احتساب قوانین سے بھی مستثنیٰ ہیں۔ کیا ایسے ججوں اور جرنیلوں کو ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کی مقبولیت سے اس کا جواب تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali