کمپنی چلانے کے سنہرے اصول اور امریکن چیف جسٹس وغیرہم


جب عام طور پہ کوئی کمپنی اپنے پراڈکٹس مارکیٹ میں لے کے آتی ہے تو اس کے سارے معاملات چار پانچ ڈیپارٹمنٹس میں تقسیم ہوتے ہیں۔ فرض کیجیے آپ نے سرمایہ لگایا، ایک معیاری پراڈکٹ بنائی، اب آپ اسے بازار میں بیچنا چاہتے ہیں۔ معاملات کو مزید سادہ کرنے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ وہ پراڈکٹ ایک اچھا سا کیک ہے۔ جس طرح ہم لوگ بچپن میں کھاتے تھے ویسا نہیں، ایک ماڈرن کیک پیس ہے، خوبصورت ریپر میں ہے، نرم سا ہے، منہ میں رکھتے ہی گھل جاتا ہے اور تین چار مختلف ذائقوں میں دستیاب ہے۔ اب تک جو ہو چکا وہ پروڈکشن والوں کی ذمہ داری تھی۔ وہ اپنی طرف سے جو بہترین کوشش کر سکتے تھے انہوں نے کر دی۔ سٹاک آپ کے پاس موجود ہے اور اسے بازار میں پہنچانا ہے۔

یہاں مارکیٹنگ والوں کا دھندہ شروع ہو جائے گا۔ وہ سر جوڑ کے بیٹھیں گے۔ ایک سٹریٹیجک پلان بنائیں گے۔ اشتہار بازی کے لیے بجٹ منظور کروائیں گے۔ وہ اس چیز کا جائزہ لیں گے کہ سیلز والے کس طرح زیادہ سے زیادہ دکانوں پہ آپ کا مال رکھوا سکتے ہیں۔ ٹی وی پہ ایک زبردست قسم کا ایڈ چلوایا جائے گا۔ کوئی نہایت حسین خاتون متوقع سسرال والوں کی آمد پر ان کے سامنے چائے اور یہی کیک رکھیں گی۔ بات پکی ہونے پہ اسی کیک سے ان لوگوں کا منہ میٹھا کروا دیا جائے گا‘ اور اس کے بعد آپ کے پراڈکٹ کاامیج یہ بنایا جائے گا کہ یہ صرف بچوں کے کھانے کی چیز نہیں ہے، کیک ہر اہم موقع پہ چائے شائے کے ساتھ بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔

پھر کیک دکانوں میں رکھنے کے لیے خوبصورت ریکس بنوائے جائیں گے تاکہ دکاندار کبھی شیلف سپیس نہ ہونے کا بہانہ کر ہی نہ پائیں۔ جو دکاندار آپ کا مال خریدے گا وہ آپ کا ریک ساتھ مفت ملتے ہی اسے مناسب ڈسپلے دینے کے لیے بھی اخلاقی طور پہ باؤنڈ ہو جائے گا۔ پھر مارکیٹنگ والے دکانوں پہ اور مارکیٹس میں لگوانے کے لئے خوبصورت پوسٹر ڈیزائن کریں گے۔ جو بندہ ٹی وی پہ آپ کا اشتہار نہیں دیکھ پایا تھا، پوسٹر لگنے کے بعد اس تک بھی آپ کی بات پہنچ جائے گی۔ پھر مال بکنا شروع ہو جائے گا۔

کیسے مزے سے پورا مال بک گیا؟ اتنا آسان نہیں ہے بھائی۔ اب اصل رپھڑ شروع ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کاغذوں سے نکال کے مارکیٹ میں پہنچانا سیلز والوں کے ذمے ہے۔ سب سے پہلے سیلز والے میدان میں اتریں گے، دکانداروں کے پاس جائیں گے، ریکس ہر دکان تک پہنچائیں گے، ان سے بات چیت کرکے مناسب سی کوئی جگہ طے کریں گے‘ جہاں آپ کے یہ کیک دکان میں داخل ہونے والوں کی نظر کے سامنے رہیں اور ریک پہ نظر پڑتے ہی انہیں یاد آ جائے کہ اوہو، یہ تو وہی چیز ہے یار جس کا ایڈ دیکھا تھا، پھر وہ لوگ فوراً اسے خرید کے اس کا ذائقہ چکھنا چاہیں اور بالآخر اسے اپنی ڈیلی گروسری (روز کا سودا) میں جگہ دے دیں۔

ریکس رکھے گئے۔ اب پوسٹر لگانے کی باری ہے۔ ہر ایسی جگہ جہاں بازار سے گزرنے والے کی نظر آسانی سے جا سکے اور وہ ایک دو سیکنڈ کو ٹھہر کے آپ کا اشتہار دیکھ سکے، وہ سب جگہیں ڈھونڈنا، دوسروں کی نظر بچا کے وہاں پہلے سے لگے ہوئے اشتہار اتارنا، اپنے اشتہار لگانا اور پھر لگاتے ہی چلے جانا جب تک سارے پوسٹر ختم نہ ہو جائیں، یہ بھی سیلز کے ذمے ہے۔ پھر سپلائی والوں کو ساتھ رکھنا، ہر جگہ سے آرڈر بک کروانا، ڈلیوری کے بعد کنفرم کرنا کہ مطلوبہ تعداد میں کیکس کے ڈبے پہنچ گئے، پھر پیسوں کی وصولی کے لیے چکر کاٹنا، پھر دکاندار کی باتیں سننا کہ جی مال سلو بک رہا ہے، آج کل سیزن نہیں ہے، پھر باقی سارے ڈیپارٹمنٹس کی طرف سے پھانسی پہ چڑھنا کہ مال کم بکنے کے ذمہ دار صرف سیلز والے ہیں، یہ سب سیلز ڈیپارٹمنٹ کے اخلاقی و قانونی فرائض ہیں۔

ان سب ڈیپارٹمنٹس کو ٹھیک سے چلانے کے لیے بھی ایک الگ شعبہ چاہئے ہوتا ہے۔ وہ ایچ آر یا بعض اوقات ایڈمنسٹریشن کہلاتا ہے۔ ہیومن ریسورس مینجمنٹ۔ وہ لوگ کمپنی میں کام کرنے والے تمام افراد کے جائز قانونی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ تنخواہیں کب بڑھنی ہیں، کتنی چھٹیاں ملازموں کو دینی ہیں، تنخواہ کے علاوہ میڈیکل، پینشن، گریچوئٹی کتنی دینی ہے، نہیں دینی ہے یا کچھ بھی کرنا ہے تو پہلے سے طے شدہ قوانین کے اندر رہتے ہوئے یہ سب طے کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ اگر دو سیلز والے آپس میں لڑ پڑیں یا سیلز اور مارکیٹنگ والوں کا پھڈا ہو جائے تو بھی یہی نمٹائیں گے۔ اس کے علاوہ ہر وہ کام جو کمپنی ملازمین کی دیکھ بھال سے ریلیٹڈ ہو وہ ان کا ذمہ ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ ایک چھوٹا سا ڈیپارٹمنٹ اور بھی ہوتا ہے۔ وہ ان بندوں پہ مشتمل ہوتا ہے جو آپ کی پراڈکٹ فوڈ کنٹرول کے محکمے سے پاس کروائیں گے۔ مطلب متعلقہ حکومتی ادارے سے فروخت کے لیے کلیئرنس لینا اس ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو گی۔ اسے ریگولیٹری ڈیپارٹمنٹ کا نام دے دیتے ہیں۔

اب ہم نے دیکھ لیا کہ صرف ایک پراڈکٹ طریقے سے بیچنے کے لیے ہمیں اپنا کام پانچ شعبوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ پروڈکشن، ریگولیٹری، ایچ آر، مارکیٹنگ اور سیلز۔ ان سب نے اپنی اپنی ڈیوٹی پوری کی تو پراڈکٹ ہٹ ہو گئی ورنہ پٹے ہی پٹے۔ یہ سب اپنی جگہ برابر اہم ہیں۔ ہوتا کیا ہے کہ سیلزمین آپ کو روتے نظر آئیں گے، ہر جگہ یہی دھاڑ پِٹ ہو گی کہ سارا کام ہم لوگ کرتے ہیں اور مالک کی نظروں میں مارکیٹنگ والے اچھے بن جاتے ہیں۔ دکانداروں کو منہ ہم دیں، سردی، گرمی، بارش، آندھی میں سپلائیاں ہم کروائیں، ادھاروں کی وصولیاں ہم کریں اور نمبر مارکیٹنگ والے بنا جائیں۔ مارکیٹنگ والے ان پہ الزام لگائیں گے کہ یہ لوگ ٹھیک سے کام ہی نہیں کرتے، سب کچھ سپلائی والوں پہ چھوڑا ہوا ہے، خود گھر بیٹھے رہتے ہیں۔

ایچ آر والے انہیں دیکھ کے مسکراتے ہیں اور سوچتے ہیں ”انہیں لگتا ہے کمپنی ان کی وجہ سے چل رہی ہے، ہونہہ‘‘ ریگولیٹری والے اپنے آپ کو سب سے اہم سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں پراڈکٹ پاس نہ ہوتی تو سارا کاروبار کھوہ کھاتے گیا تھا، اور پاس انہوں نے کروائی تھی۔ پروڈکشن والوں کی اپنی الگ دنیا ہے، وہ بے غم بیٹھے ہوتے ہیں، انہیں علم ہے کہ ان کا ایک طے شدہ کام ہے۔ یہ سب لوگ جو مرضی کریں، مال بنا کے انہوں نے ہی دینا ہے۔ تو وہ ان جھگڑوں سے عموماً دور رہتے ہیں، ان کے اپنے مسائل ہوتے ہیں جن کے لیے وہ ہڑتالیں وغیرہ کرنے کے شوقین بھی ہوا کرتے ہیں۔

اگر سیلز والے ایچ آر، پروڈکشن اور مارکیٹنگ میں جا کے بیٹھ جائیں تو انہیں کتنی ٹیکنیکل مہارت ہو گی؟ اگر ریگولیٹری والے دکانوں پہ جا کے ادھار وصولی کرنا شروع ہو جائیں تو وہ کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اگر مارکیٹنگ والے کیک بنانے کی مشین میں ہاتھ ڈال دیں تو وہ کتنی مہارت سے پراڈکٹ تیار کر سکیں گے؟ اگر ایچ آر کا بندہ فوڈ کنٹرول میں جائے اور قانون کے مطابق پراڈکٹ پاس کروانا چاہے تو کیا وہ آسانی سے کروا لے گا؟ اگر پروڈکشن والے ٹی وی اشتہار بنانا چاہیں یا عملے کی ہائرنگ فائرنگ شروع کر دیں تو کتنا چانس ہے کہ وہ یہ سب کر پائیں گے؟ جب ایک چھوٹی سی کمپنی اس طرح نہیں چل سکتی تو ہم پورا ملک کیوں چلانا چاہتے ہیں؟

چند جنرل نالج کے سوال؛ کیا میگن سمتھ کے بارے میں آپ نے سنا ہے جو ایک سال پہلے تک امریکہ کی چیف ٹیکنالوجی آفیسر تھیں؟ کیا آپ سپریم مسیحی روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا نام پہلے جانتے تھے؟ اور یہ بھی کہ وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں رکھتے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہینس البریشے وہ امریکن اٹامک سائنسدان تھے جنہوں نے ناگاساکی پہ گرنے والا ایٹم بم لاس الاموس لیبارٹری میں بیٹھ کے ڈیزائن کیا تھا اور وہ ابھی 2005 میں چپ چاپ فوت ہو گئے۔ کیا آپ جانتے تھے کہ امریکی چیف جسٹس کا نام جان رابرٹس ہے؟ کیا آپ کو علم ہے کہ امریکن چیف آف آرمی سٹاف کا نام جنرل مارک اے ملے ہے؟ یار جنرل نالج تھوڑا سٹرونگ کریں بابا۔ ٹرمپ، اوباما، بش ان کے علاوہ بھی لوگ دنیا میں بستے ہیں۔ آخر وہ سب اہم تاریخی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، آپ ان سے واقف نہیں ہوں گے تو کیسے چلے گا؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain