کسان کے پاس زمین نہیں اور زمین کے پاس کسان نہیں


چولستان جنوبی پنجاب کا بہت اہم علاقہ ہے۔ یہ تین اضلاع بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان پر مشتمل ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ صرف چولستان میں 73 لاکھ ایکڑ غیر آباد زرعی زمین پڑی ہے جو اپنے سینے سے اناج اگل کر پاکستان سے بھوک مٹانے کی منتظر ہے۔ لیکن بھوک مٹانا کون چاہتا ہے۔

بنجر زمینوں کی مقدار اور ہنرمند کسانوں کی تعداد میں پاکستان نے ایک زبردست توازن اور فاصلہ قائم رکھا ہوا ہے۔ ایک طرف تو ہمارے پاس کروڑوں ہنرمند کسان ہیں جو بھوک، بیماری اور بے تعلیم زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ وہ زمینوں سے محروم ہیں اور دوسری جانب ہمارے ملک میں کروڑوں ایکڑ زرعی زمینیں غیرآباد پڑی ہیں اور ہنر مند کسانوں کی راہ تک رہی ہیں۔ پاکستانی ریاست نے اس بات کو یقینی بنایا ہوا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں ملاپ نہ ہو پائے۔ نہ جانے ہمیں ایک دوسرے کے لئے کشش رکھنے والی چیزوں کے قدرتی ملاپ سے اتنا خوف کیوں ہے۔

آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ حکومت کے ہاں ان زمینوں کا کوئی استعمال نہیں ہے یا وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی ہیں۔ ساری حکومتں ان زمینوں کو اپنی اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی خدمت کے لئے خوب استعمال کرتی ہیں۔ یہ زمینیں مسلسل ایسے لوگوں کو الاٹ کی جاتی ہیں جنہیں ان زمینوں کی ضرورت ہے اور نہ کاشتکاری کا ہنر آتا ہو۔ صرف یہی نہیں ریاست بعض اوقات ایسی کوششیں بھی کرتی ہے کہ ان زمینوں کو غریب اور کاشتکاری کے ماہر کسانوں سے ہمیشہ کے لئے دور رکھا جائے۔

نوے کی دہائی کے وسط میں بھی حکومت نے کچھ ایسی ہی کوشش کی تھی۔ حکومت نے جنوبی پنجاب کے ضلح رحیم یار خان کے لیے ایک قانون پاس کرنے کی کوشش کی جس کے تحت اس زمین کو ہمیشہ کے لیے کسانوں کی پہنچ سے دور کرنا تھا۔ اس بات پر لوکل کسان پریشان ہوئے اور انہوں احتجاج کیا۔ ایک باقاعدہ تحریک چل پڑی۔ اس تحریک کی رہنمائی کچھ پڑھے لکھے لوکل کسان کر رہے تھے۔ وہ لوگوں کو اپنے حق کے لئے جدوجہد کرنے پر تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے اور جدوجہد زور پکڑ گئی۔ معاملات اتنا آگے بڑھ گئے کہ بات پنجاب ہائیکورٹ تک پہنچ گئی اور کسان خوش قسمت رہے کہ کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اسی تحریک کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ لوکل بے زمین کسانوں کو گزارہ یونٹ یعنی ساڑھے بارہ ایکڑ زمین فی خاندان الاٹ کی جائے۔ یہ مطالبہ 2003 میں جا کر پورا ہوا۔ چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی تھے۔ پانچ سو خاندانوں کو ساڑھے بارہ ایکڑ زمین فی خاندان الاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا تو کسانوں کی کچھ امید بندھی۔

اس سلسلے میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ اور اس جلسے میں وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی نے بڑے فخر سے 500 لوگوں کو زمین الاٹ کرنے کا اعلان کیا۔ کچھ خوش قسمت کسانوں کو الاٹمنٹ کی اسناد اپنے ہاتھ سے سٹیج پر بلا کر دی گئیں اور فوٹو بنوائے گئے۔ بہرحال 500 کسانوں کو الاٹمنٹ کی اسناد فوراً دے دی گئیں۔

اب میری طرح آپ بھی سمجھے ہوں گے کہ جب وزیراعلی نے الاٹمنٹ کر دی ہے اور زمین بھی موجود ہے تو یہ پانچ سو غریب ہنرمند کسان تو فورا مالک بن گئے ہوں گے اور اپنے خاندانوں کے لئے باعزت روزی کما رہے ہوں گے۔ غلط، وزیر اعلی پنجاب سے الاٹمنٹ کی سند لینے کے بعد زمین کا قبضہ لینے کے لئے انہیں محکمہ مال اور پٹواریوں کے بچھائے ہوئے آگ کے ایک دریا کو پار کرنا تھا۔ آگ کا یہ دریا رشوت سے پار ہوتا ہے یا سفارش سے اور ایک بے زمین کسان ان دونوں سہولیات سے عاری ہوتا ہے۔ چند ایک کے علاوہ وہ ان الاٹ شدہ زمینوں کا قبضہ نہ لے سکے۔

بہت سے کسان اگلے کئے سال محکمہ مال کے دفتروں اور پٹواریوں کے ڈیروں کی خاک چھانتے رہے۔ لیکن وزیر اعلی کی جانب سے الاٹ کی گئی زمین کا قبضہ نہ لے سکے۔ کچھ تو باقاعدہ مایوس ہو گئے اور اپنے سرٹیفیکیٹ اونے پونے داموں علاقے کے بااثر لوگوں کو بیچ دیے اور کچھ ابھی تک ضد لگائے بیٹھے ہیں کہ زمینیں لے کر ہی رہیں گے۔

ان لوگوں نے اکٹھے ہو کر ایک مرتبہ پھر ہائیکورٹ لاہور کا رخ کیا ہے اور کورٹ نے بھی ایک مرتبہ پھر غریب کسانوں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس بات کا فیصلہ ہوئے بھی کئی سال گزر گئے ہیں لیکن فیصلے پر عمل درآمد ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ کسان اپنا حق حاصل کرنے پر پکے تیار ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں کئی اپیلیں بھی دائر کر چکے ہیں لیکن بات ابھی تک کسی کنارے نہیں لگی۔

قصہ مختصر یہ کہ وہ پانچ سو کسان جو 2003 میں بڑے فخر سے اپنی الاٹمنٹ کے سرٹیفیکیٹ لے کر گھر پہنچے تھے ان میں سے پچھلے 15 سال میں تقریبا 200 ان زمینوں کا قبضہ لے سکے ہیں اور باقی 300 ابھی بھی سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں لئے در در کے دھکے کھا رہے ہیں اور پٹواریوں کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں۔

روٹی کپڑا مکان، تبدیلی، پڑھا لکھا پنجاب، یا باعزت روزگار دینے والے سرمایہ دار اور مسلسل وقفوں سے آنے والے ڈکٹیٹر سبھی مل کر بھی صرف اس لیے غربت نہیں مٹا سکے کیونکہ وہ غربت مٹانا چاہتے ہی نہیں تھے۔ سرکاری زرعی زمینوں کی ہنر مند اور حق دار لوکل کسانوں میں تقسیم پاکستان کی ایک بڑی آبادی کو غربت کے عذاب سے چھٹکارا دلا سکتی ہے۔ یہ بات البتہ اب بھی شاید ہی کسی پارٹی کے منشور میں ہو۔ آئیے، احمد مشتاق کی ایک غزل کے کچھ اشعار دیکھتے ہیں

یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا

درخت کاٹ لئے سائبان بیچ دیا

اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر

زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا

یہی ہے بھوک کا عالم تو دیکھنا اک دن

کہ ہم نے دھوپ بھرا آسمان بیچ دیا

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik