قائدِ اعظم نے بھی کونہ پکڑ لیا


کہانی کچھ یوں ہے کہ خیبر ایجنسی کا ایک ٹرک ڈرائیور ڈیورنڈ لائن کے آرپار منشیات کے کاروبار سے منسلک تھا کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور افغانستان میں سوویت یونین گھس آیا۔ سی آئی اے کو حاجت ہوئی مجاہدین کو اسلحہ پہنچانے کی۔ لہذا واقفانِ علاقہ سمگلرز کی بن آئی۔ ہمارے ہیرو نے افغان مجاہدین کو اسلحہ پہنچایا اور واپسی پر خالی ٹرکوں میں منشیات لانے لگا۔

اتنی منشیات کہ اسی کی دہائی میں بلجیئم میں اس کی ساڑھے چھ ٹن حشیش پکڑی گئی۔ یوں اس جنگ میں پارٹنر ہو کر ہمارا ہیرو بھی ارب پتی ہوگیا اور اس نے لنڈی کوتل میں ایک محل بنا لیا۔ جب پیسے آئے تو سیاست کو بھی جی للچایا۔ اور پھر ہمارا ہیرو سمگلنگ کے کئی پرچے کٹنے کے باوجود انیس سو نوے میں نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کے حمایت یافتہ امیدوار کے طور پر فاٹا سے قومی اسمبلی کا ممبر بن گیا اور مئی انیس سو بانوے میں افغانستان میں صلح جوئی کے لیے قبائلی عمائدین کے سرکاری وفد میں بھی شامل ہوا۔

جب انیس سو ترانوے میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی صدر غلام اسحاق سے کھٹ پٹ اور پہلا ’مجھے کیوں نکالا‘ ہو گیا تو ہمارے ہیرو نے پیپلز پارٹی کا دامن پکڑ کے اگلے عام انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے مگر کاغذات مسترد ہو گئے۔

اس دوران ہمارے ہیرو نے منشیات کی سمگلنگ کے بین الاقوامی مقدمات میں مطلوب ہونے کے سبب امریکہ کو رضاکارانہ گرفتاری دے دی اور ساڑھے تین برس جیل میں گزار کر انیس سو ننانوے میں اسلام آباد پہنچا۔ اینٹی نارکوٹکس فورس نے اسے کچھ عرصے کراچی جیل میں رکھا اور پھر رہائی کے چند برس بعد ہمارے ہیرو کا انتقال ہوگیا۔ اس کا ایک قول نوے کی دہائی کے اخبارات میں بڑی چمک دمک سے شائع ہوا ’میں چاہوں تو اسمبلی خرید لوں‘۔ ہمارے ہیرو کا نام ہے حاجی ایوب آفریدی۔

ڈیرہ اسماعیل خان والے گلزار فیملی کے فلاحی و خیراتی کاموں سے اچھے سے واقف ہیں۔ خدا نے پراپرٹی، لینڈ ڈویلپنگ، سرمایہ کاری اور گیس ڈسٹری بیوشن وغیرہ کے کام میں خاصی برکت ڈالی اور اثر و رسوخ بھی دو چند ہوا۔ گلزار احمد خان کا طبعی جھکاؤ پیپلز پارٹی کی جانب رہا۔ بی بی جب بھی حزبِ اختلاف میں ہوتیں اور لاہور آتیں تو ان کا قیام گلزار ہاؤس میں رہتا۔ چنانچہ 1994 میں گلزار احمد خان اور پھر ان کے صاحبزادے وقار احمد خان اور پھر عمار احمد خان سینیٹر بنے۔ دو ہزار تین میں جب گلزار احمد خان دوسری بار سینیٹر بنے تو خیبر پختون خواہ اسمبلی سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار تھے۔ گلزار احمد خان کے بھائی مختار احمد خان بھی سینیٹر رہے۔ اور پھر سینیٹر بننا ایک آرٹ ہو گیا۔

کیا یہ آرٹ نہیں کہ پنجاب اسمبلی میں سینیٹر بننے کے لیے چالیس سے زیادہ ووٹ درکار ہوں۔ تحریکِ انصاف کے اسمبلی میں تیس ارکان ہوں اور اس کے امیدوار چوہدری محمد سرور چوالیس ووٹ لے کر سینیٹر بن جائیں اور اس چمتکاری پر عمران خان سے مبارک باد بھی وصول کریں اور پھر عمران خان یہ بیان بھی دیں کہ ’آصف زرداری نے خیبر پختون خواہ اسمبلی کے ارکان کو خریدنے کے لیے نیلام گھر کھول دیا‘۔ کیا یہی ہے جمہوریت۔ شاید اسی لیے خان صاحب نے سینیٹ انتخابات میں بطور رکنِ قومی اسمبلی اپنا ووٹ بھی جیب سے نہیں نکالا اور ضائع ہونے سے بچا لیا۔

پی ٹی آئی کے چوہدری محمد سرور چوالیس ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں

آرٹ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے خیبر پختون خواہ اسمبلی میں چھ ارکان ہوں۔ اس اعتبار سے ایک سینیٹر کا منتخب ہونا بھی ناممکن ہو۔ پھر بھی زرداری جادوگر اس ناممکنیت میں سے دو سینیٹ نشستیں اڑا لے جائے اور عمران خان اپنی ہی پارٹی کے بیس سے پچیس ارکان کے ووٹ پر ڈاکہ پڑتا دیکھتے رہ جائیں۔ خود خان صاحب کے حمایت یافتہ امیدوار مولانا سمیع الحق کو تحریکِ انصاف کے صرف تین ارکان نے اپنے ووٹ کے قابل سمجھا۔ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے!

کیا یہ پولٹیکل انجینئرنگ کی معراج نہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود اپنا ایک بھی سینیٹر منتخب نہ کروا سکی۔ کیا یہ کمالِ فن نہیں کہ سندھ اسمبلی میں چالیس نشستیں ہوتے ہوئے ایم کیو ایم کو بھی سینیٹ کی ایک سیٹ ملے اور نو نشستوں والی مسلم لیگ فنکشنل بھی ایک سینیٹر بنوا لے۔

آئین سازوں نے سینیٹ اس لیے تشکیل دی تھی کہ قومی اسمبلی میں کوئی ایک جماعت یا صوبہ عددی اکثریت کی بنا پر اگر وفاق پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرے تو مساوی وفاقی نمائندگی والی سینیٹ اس عددی بلڈوزر کو روک سکے۔ یہاں تو سینیٹ ہی بلڈوزر تلے آگئی۔

ایک عرصے تک قائدِ اعظم کی تصویر کرنسی نوٹ کے عین درمیان میں ہوا کرتی تھی۔ مگر سال بہ سال کرپشن کا معیار دیکھ کر قائدِ اعظم کی تصویر بھی درمیان سے کھسکتے کھسکتے نوٹ کے کونے کی طرف جا رہی ہے۔ ذرا دھیان رکھیے گا، اگلے الیکشن تک کہیں قائدِ اعظم نوٹ سے فرار ہی نہ ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).