وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے نام کھلا خط
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی بیشتر اقوام اپنی افواج کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں مگر فوج سرحدوں کے دفاع کے فرائض اور اپنے مخصوص عسکری تربیت کی وجہ سے ایک ایسا واحد اور منفرد ادارہ ہے جو سویلین سے جتنا دور ہو، اتنا ہی محترم رہتا ہے۔ یہ ادارہ جتنا زیادہ عوام کے روزمرہ کے معمولات، معاملات اور سول اداروں میں مداخلت کرتا ہے، اتنا ہی بے آبرو اور بے توقیر ہوجاتا ہے۔ اگرچہ آئینی اور اخلاقی طور پر فوج اور عدلیہ کا احترام تمام شہریوں پر لازم ہے لیکن اگر فوج کا ادارہ بھی دوسرے سول اداروں مثلاً واپڈ، پولیس اور سی این ڈبلیو کی طرح ہر گلی اور گاؤں میں فعال اور مستعد نظر آئے تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ سول اداروں کی طرح فوج کے بارے میں بھی ناخوش گوار نعرے دیکھنے یا سننے کو ملیں۔
جب میں سکول کا طالب علم تھا تو لفظ فوج کے ساتھ دل و دماغ میں میجر عزیز بھٹی، میجر طفیل، پائیلٹ راشد منہاس اور سوار محمد حسین کی رومانوی تصویریں اُبھر آتی تھیں۔ یہاں تک کہ ایف ایس سی کرنے کے بعد میں نے فوج میں کمیشن لینے کی بھی کوشش کی مگر آئی ایس ایس بی میں ناکام ہونے کی وجہ سے یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ اس زمانے میں یہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ فوج ہمارے لیے کرفیو، چیک پوسٹوں، سرچ آپریشنوں، گم شدگیوں اور مسمار آبادیوں کا حوالہ بن جائے گی۔ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جنوبی وزیرستان سے لے کر سوات تک، وہ پشتون جو افواجِ پاکستان کا سب سے زیادہ احترام کرتے تھے، وہ ہی ان سے سب سے زیادہ نالاں ہوجائیں گے اور مدتوں کی قربت اور اعتماد کا رشتہ رقابت اور بد اعتمادی میں بدل جائے گا اور پاک فوج کو بطور طعنہ پنجابی فوج کے نام سے پکارا جائے گا۔
ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ چونڈا میں ٹینکوں کی لڑائی لڑنے والے فوجی جوانوں کی روایت کے خلاف فوجی اہل کار ملاکنڈ اور شانگلہ ٹاپ پر میری ہی سرزمین پر میرا ہی شناختی کارڈ چیک کرنے بیٹھ جائیں گے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ 2002ء سے لے کر آج تک وہ کونسا ظلم ہے جو پشتونوں پر نہیں ڈھایا گیا۔ فاٹا، پاٹا اور دوسرے بیشتر بندوبستی علاقوں میں طالبانائزیشن مسلط کر دی گئی۔ پختونوں کے پر امن علاقوں میں بیت اللہ، حکیم اللہ، نیک محمد، فقیر محمد، منگل باغ اور فضل اللہ جیسے دہشت گردوں کی امارتیں قائم کردی گئیں۔ ان کے جنازوں، شادیوں، مسجدوں، چرچوں، مزاروں اور ہنستے بستے بازاروں میں خون کی ہولیاں کھیلی گئیں۔ ان کے جرگوں پر خود کش حملے کیے گیے اور حجروں کو مسمار کردیا گیا۔ ان کے سیکڑوں سکولوں کو بموں سے اڑا دیا گیا۔ ان کے سیاسی مشران اور صاحب الرائے سماجی کارکنوں کو چن چن کر قتل کردیا گیا۔
میں یہاں صیغۂ مجہول میں اس لیے بات کر رہا ہوں کہ میں سوات میں طالبانائزیشن کا عینی شاہد ہوں۔ میں نے فضل اللہ کا چئیر لفٹ کے ڈرائیور سے لے کر سوات کے ڈیفکٹیو امیر المومنین بننے تک کا سفر دیکھا ہے۔ جس ریڈیو ملا کو 2003ء میں مقامی پولیس سٹیشن کا ایک انسپکٹر اور دو سپاہی آسانی سے حوالات میں بند کرسکتے تھے، اسے ایم ایم اے کی رضامندی سے نادیدہ قوتوں نے حربی اور افرادی لحاظ سے اتنا مضبوط اور خطرناک بنا دیا کہ پھر اس کو بھگانے کے لیے پاک فوج کے 30 ہزار جوانوں کو آپریشن ’راہِ راست ‘کرنا پڑا۔
پچھلے 17 برس کی مختصر کہانی یہ ہے کہ پہلے پشتون جنوبی وزیرستان سے لے کر سوات تک دہشت گرد طالبان کے ہاتھوں مرتے رہے اور پھر آپریشن المیزان سے لے کر آپریشن ضرب عضب تک فوجی آپریشنوں کے دوران بے گھرہوکر چیک پوسٹوں پر خوار ہوتے رہے۔
طالبان کے گزشتہ ڈیڑھ عشروں پر محیط ظلم و بربریت اور ان کے خلاف ہونے والے فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں دو بیانیے سامنے آئے۔ ایک طالبان کا بیانیہ، جس کو مذہبی جماعتوں اور بڑی حد تک پی ٹی آئی کا سپورٹ بھی حاصل رہا اور دوسرا ریاستی بیانیہ جس کو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور پشتون خوا کی قوم پرست جماعتوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔ یہ دونوں ایسے سیاسی بیانیے تھے جن کا مظلوم لوگوں کے انسانی المیوں سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ ایسے میں تیسرا بیانیہ اس وقت وجود میں آیا جب منظور پشتین جنوبی وزیرستان سے اٹھا اور درد و غم کی ایک لمبی داستان لے کر ’’محسود تحفظ موومنٹ‘‘ کی بنیاد رکھنے پر مجبور ہوا۔جو بعد میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے نتیجے میں ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ میں تبدیل ہوگئی۔ یہ بیانیہ اچھے برے جہاد یا اچھے برے طالبان کا نہیں تھا۔ یہ موت اور ذلت کے مارے ان کروڑوں پشتونوں کا بیانیہ تھا جس کے اظہار کے لیے ہر زبان ترستی تھی اور سننے کے لیے ہر کان منتظر تھی۔ اس بیانیے کے اظہار کے لیے کسی ٹاک شو میں بیٹھنے والے نامی گرامی اینکر پرسن یا تجزیہ کار کی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ پورا بیانیہ پشتو کے ایک مختصر انقلابی نغمہ ’’دا سنگہ آزادی دہ‘‘ میں سمویا گیا۔ اس مختصر نغمہ نے پشتون لانگ مارچ کو اکسایا بھی اور گرمایا بھی۔
منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں نے پہلی دفعہ ہر پختون کو اپنے لیے کھڑا ہونے اور اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی راہ دکھائی۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ یہ بیانیہ خیبر سے کراچی تک ہر پشتون اور ہر محب الوطن پاکستانی کی زبان پر جاری ہوا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پشتون لانگ مارچ اور پشتون تحفظ موومنٹ کی بلند، واضح اور ہمہ گیر آواز کو آج تک الیکٹرانک میڈیا نے بلیک آوٹ کردیا ہے۔ اور ریاستی اداروں نے چپ سادھ لی ہے۔ لوگوں کے سچے اور حقیقی بیانیے کو سننے کی بجائے اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی نہ صرف نقصان دہ بلکہ خطرناک نتائج کی حامل بھی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ایک پاکستانی اور دہشت گردی سے متاثرہ پشتون ہونے کی حیثیت سے میں وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کی خدمت میں درجہ ذیل گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
(1) یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پچھلے 17 برس سے بدترین دہشت گردی اور ظلم سے گزرنے کے بعد ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ کے یہ پرجوش اور پرخلوص نوجوان ہی پشتونوں کی اصل قیادت ہے۔ انھوں نے تمام خوف زدہ اور دہشت زدہ پشتونوں کے لیے امید کی ایک شمع روشن کی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے یہ نوجوان نہ تو پرائے ہیں اور نہ ہی کسی پرائے کے اشاروں پر چلنے والے ملک دشمن ہیں۔ یہ کراچی سے خیبر تک تمام پشتونوں اور محب الوطن پاکستانیوں کے دلوں کی آواز ہیں۔ یہ محض چندافراد نہیں جنھیں کسی سازشی تھیوری یا غداری کے الزام سے خاموش کیا جاسکے۔ یہ اپنے آئینی اور قانونی حقوق کی بازیابی کے لیے ایک بڑی تحریک بن چکے ہیں۔ ان نوجوانوں کے لہجے میں درد اور غصہ ضرور ہے لیکن یہ باغی ہرگز نہیں۔ یہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے آئین اور قانون کے تحت اپنے لوگوں کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور انسانی عظمت چاہتے ہیں۔ اس لیے کسی ایسی پالیسی سے سختی سے اجتناب کیا جائے جس کے ذریعے ان نوجوانوں کی درد بھری کہانیاں سننے کی بجائے ایسے جرگوں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جائے جو محض خوشامد گروں کا ایک ٹولہ ہوں اور جن کا متاثرہ لوگوں کے دکھ درد ختم کرنے سے کوئی سروکار نہ ہو۔ لہٰذا ملک کی اعلیٰ ترین عسکری اور سول قیادت سے میری گزارش ہے کہ ان جوانوں کے ساتھ بڑوں کی طرح بیٹھیں، ان کو صبر و تحمل ، محبت اور خلوصِ نیت سے سنیں اور ان کے ایک ایک مطالبے کو پوری سنجیدگی سے لیں۔ اور اگر ان کی کوئی بات ناجائز لگے تو انھیں دلیل سے سمجھائیں۔ مفاہمت اور محبت کے سچے جذبے سے ہر قضیہ اور ہر خوف ختم کیا جاسکتا ہے۔
(2) یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پچھلے ڈیڑھ عشروں سے فاٹا اور پاٹا میں دہشت گردی کے مخصوص حالات کی وجہ سے ملٹری اور سول انتظامیہ کی جو شراکت داری معرض وجود میں آئی ہے، وہ اب مزید نہیں چل سکتی اور نہ اس قسم کے انتظامی بندوبست میں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا پشتون تحفظ موومنٹ کی سفارشات سے جلد از جلد ایسی آئینی اصلاحالات عمل میں لائی جائیں جو فوج کو سول اور انتظامی امور سے دور رکھیں اور سول انتظامیہ کو موثر اور بااختیار بنائے۔
(3) پشتون تحفظ موومنٹ نے کراچی سے لے کر سوات تک لوگوں کے دلوں سے دہشت گردوں کا خوف نکال دیا ہے۔ ان بے خو ف، بے باک اور عدم تشدد پر یقین رکھنے والے جری جوانوں نے طالبان اور دوسری تمام دہشت گرد تنظیموں کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ قوم بیدار ہوچکی ہے اور فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ اپنے اندر کسی فضل اللہ یا احسان اللہ کو جگہ نہیں دے گی۔ یہ نوجوان ڈیورنڈ لائن پر لگائے گئے خاردار تاروں سے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں۔ انھیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ آزادی کے جذبے سے سرشار امن کا خواب آنکھوں میں بسائے ایسے نوجوان ہیں جو نہ ریاستی زیادتیوں کو مانتے ہیں اور نہ ہی غیر ریاستی عناصر کے جبر و تشدد کو تسلیم کرتے ہیں۔ان کا ایک ہی خواب ہے کہ پاکستان ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست ہو جس کے شہری بھی آزاد اور خود مختار ہوں۔ یہاں سب کو یکساں آئینی حقوق حاصل ہوں۔ ان کا خواب ایک ایسے پاکستان کے لیے جدوجہد پر مبنی ہے جہاں پشتون، بلوچ اور تمام دوسری اقوام محفوظ، باعزت اور خوش ہوں۔ ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ دراصل ’’پاکستان تحفظ موومنٹ‘‘ ہے۔اور بقول عاصمہ جہانگیر پشتونوں کے بغیر پاکستان ایک تنگ نظر پاکستان ہوگا۔
- مگر کیا آپ مظلوم کہلانے کے لائق ہیں؟ - 19/05/2023
- پشتو ادب کے خدائی خدمت گار - 23/12/2021
- افغانستان میں دائمی قیام امن کے لئے طالبان سے چند گزارشات - 30/05/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).