تھر کی ترقی: عارف حسن کی نظر میں


چند روز قبل نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس سندھ کی رکن انیس ہارون نے تھر کو سمجھنے کے حوالے سے اپنے دفتر میں ایک پروگرام رکھا جس میں شہری منصوبہ بندی کے ماہرعارف حسن کو گفتگو کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ عارف حسن کی قابلیت،  تجربے اور عوام دوستی کی وجہ سے ان کی گفتگو ہمیشہ روح کی غذا ثابت ہوتی ہے اور غورو فکر کی دعوت فراہم کرتی ہے۔ میں اپنی دفتری مصروفیات کے باعث اس پروگرام میں شامل نہ ہو سکی مگر جب فیس بک پر امر سندھو کا یہ کمنٹ پڑھا کہ ’’عارف حسن کو سلام۔ ہمارے قوم پرست دھرتی کا بیٹا کسے کہتے ہیں، مجھے نہیں معلوم پر عارف حسن ان تمام نام نہاد سندھی دانشوروں، سیاستدانوں اور قوم پرستوں سے مجھے زیادہ عزیز ہیں جو کمپنی کی نوکری کو جسٹیفائیJUSTIFY  کرتے ہوئے تھر کو ترقی کے نام پر بیچ کر کھانا چاہتے ہیں۔ وہ ان تمام سندھی بولنے والوں سے مجھے زیادہ عزیز ہیں‘‘۔

مجھے پہلے ہی اس پروگرام میں شرکت نہ کر سکنے کا افسوس تھا، امر کا کمنٹ پڑھ کر عارف حسن کی گفتگو کے بارے میں جاننے کا اشتیاق دو چند ہو گیا۔ انٹر نیٹ پر تلاش کیا تو عارف حسن کے خیالات جاننے کو ملے:

تھر پارکر کا ضلع 19000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جس میں سے 9000 کو کول پراجیکٹ کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ اس کے تحت مختلف کمپنیاں کوئلہ نکال کر اسے انرجی میں تبدیل کریں گی۔ یہ ایک بہت بڑا انسانی انجینیرنگ پراجیکٹ ہے اور گورنمنٹ اور نجی شعبے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تنہا اس پراجیکٹ کو چلا لیں گے۔ وہ پراجیکٹ کی انتظامیہ سے متفق نہیں اور انہیں اس پراجیکٹ کا کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ وہ این ای ڈی کے ڈاکٹر نعمان احمد کے ساتھ اس کی فیلڈ اسٹڈی کر چکے ہیں۔

تھر کول پراجیکٹ نے مقامی سطح پر زمین کی ملکیت کی حرکیات کو تبدیل کر دیا ہے۔ زمین کے حصول کے منصوبے کی عدم موجودگی کی وجہ سے کمپنی مقامیوں کی زمین کو سندھ لینڈ ایکوئزیشن ایکٹ کے تحت مالکان بنیاد پر حاصل کر رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تھر کی آدھی زمین کانکن کمپنی خرید لے گی۔ عارف حسن پوچھتے ہیں کہ پھر مقامی آبادی کا مستقبل کیا ہو گا؟ انسانی بے دخلی ایک اہم پہلو ہے لیکن اس پراجیکٹ میں دیگر عوامل بھی کار فرما ہیں۔ اس خطے میں 6.5 ملین مویشی بھی پائے جاتے ہیں جن کی بقا کا انحصار اجتماعی چراگاہوں پر ہے جنہیں مقامی زبان میں ’’گاؤچر‘‘ کہتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں یہ مویشی کہاں جائیں گے؟ عارف حسن نے یہ سوال کانکن کمپنی کے نمائندے سے پوچھا تھا لیکن اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کانکن کمپنیاں تھر کا سارا زیر زمین پانی ختم کر دیں گی۔ بہت سے انجینیرنگ ماہرین اس کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ یہ پراجیکٹ پانی کو ترسے ہوئے اس علاقے کا سارا زیر زمین پانی ختم کر دے گا۔

دنیا کے دیگر ممالک قابل تجدید توانائی Renewable Energy کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ ارجنٹائن سب سے زیادہ گیس اور تیل پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن وہاں کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان ناقابل تجدید ذرائع کو استعمال نہیں کریں گے بلکہ Renewable Energy استعمال کریں گے۔ چین بھی اب ان ذرائع کی طرف متوجہ ہو رہا ہے اور پہلے کے مقابلے میں سینتیس فی صد زیادہ شمسی توانائی پیدا کر رہا ہے۔

جب کوئلہ نکالنے کے لئے کھدائی کی جاتی ہے تو زیر زمین پانی کی تین سطحیں سامنے آتی ہیں۔ پچاس میٹر کی گہرائی پر بارش کا پانی ملتا ہے۔ جو اکثر صورتوں میں پینے کے قابل ہوتا ہے۔ تھر کی آبادی کی اکثریت کنویں کھود کر اس پانی تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ دوسری سطح پر نمکین پانی ہوتا ہے جو ایک سو بیس میٹر کی گہرائی پر ملتا ہے۔ تیسرا انتہائی گہرائی میں لاکھوں سال میں جمع ہونے والا پانی ہے جسے اثاثہ تصور کیا جاتا ہے۔ کوئلہ کے حصول کے لئے اس زیر زمین پانی کو نکالنا پڑتا ہے۔ اس وقت ستائیس کنوؤں سے روزانہ پینتیس ملین کیوبک میٹر پانی نکالا جا رہا ہے۔ اس طرح پینے کے قابل پانی اور نمکین پانی ایک دوسرے سے مل جاتا ہے اور پینے کے اور کھیتی باڑی کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے علاج کے لئے پراجیکٹ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ یہاں وہ فصلیں لگائی جائیں جن کے لئے نمکین پانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے بے دخل ہونے والی آبادی اور ان کے مویشیوں کو اسی صورت فائدہ ہوسکتا ہے جب صحیح قسم کی زرعی اصلاحات کے ذریعے انہیں زمین کے مالکانہ حقوق مل جائیں۔ لیکن ایک تو اس کے لئے طویل عرصہ درکار ہو گا اور ویسے بھی کوئی حکومت اس طرح کی زرعی اصلاحات کرتی نظر نہیں آتی۔

کوئلہ کی کھدائی کے لئے نکالے جانے والے پانی کا کیا ہو گا؟ اس وقت تو گورونو گاؤں کے قریب پندرہ سو ایکڑ پر پھیلے گڑھے میں صرف اینگرو سائٹ کا پانی ڈالا جا رہا ہے۔ گاؤں کے لوگ مہینوں سے ا س کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کوئلہ نکالنے کے اس عمل سے ہوائی آلودگی پیدا ہو گی،  کوئلے کے پراجیکٹ کے علاقے میں سارے درخت تباہ ہو جائیں گے اور مویشیوں کی چراگاہیں کم ہو جائیں گی۔ پینے کے پانی میں کمی آنے سے لوگوں کو دیگر ذرائع پر انحصار کرنا پڑے گا۔ پیاسے انسانوں اور مویشیوں کو پانی فراہم کرنے کے لئے پراجیکٹ میں اوسموسس پلانٹس تجویز کئے گئے ہیں۔ لیکن اس طرح کے مہنگے پراجیکٹس زیادہ عرصے چل نہیں پائیں گے۔

اینگرو نے تھر ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن کے قیام میں مدد دی ہے جو تھر کی آبادی کے لئے اسکولز،  ہیلتھ کئیر اور اسکلز یا مہارتیں فراہم کرے گی۔ اس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس سے تھر میں پیدا ہونے والے سماجی و اقتصادی اور ماحولیاتی اثرات پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ تھر میں تیزی سے بڑھنے اور باہر سے کنٹرول ہونے والا رئیل اسٹیٹ اور سروسز کا شعبہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر بڑے پیمانے پر شہر کاری یا URBANISATIONکے عمل کو شروع کر چکا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نشانہ بے زمین مقامی آبادی اور نباتات بنیں گی۔

اس وقت تھر کو مستقبل کے لئے ایک مربوط ویژن کی ضرورت ہے،  کانکنی والے نو ہزارکلو میٹر کے علاقے اور بقیہ دس ہزار کلو میٹر کے لئے بھی۔ منفی ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی اثرات کو کم کرنے کے لئے ایک منصوبہ بنایا جائے لیکن یہ منصوبہ اسی وقت مفید ثابت ہو گا جب تھری عوام، ان کی ثقافت اور تاریخ سے محبت کو اس کا لازمی جزو بنایا جائے۔

میری رائے میں حکومت کو سنجیدگی سے عارف حسن جیسے عوام دوست ماہر کی باتوں پر توجہ دینی چاہئیے اور تھر کے عوام کے مستقبل کے لئے سول سوسائٹی کو ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئیے۔ ہمارے گرو آئی اے رحمنٰ کے بقول تھر ہمارے قومی گلدستہ کا سب سے خوبصورت اور خوشبودار پھول ہے،  ہم اسے مرجھانے نہیں دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).