اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں


\"inam-rana-3\"

آج ایک سال ہو گیا اسے دیکھے ہوئے، مگر اب بھی بہت یاد آتا ہے۔

محترم عدنان کاکڑ اور عامر خاکوانی کے ’تبادلہ بیانیہ‘ مضامین نے مجھ کم علم کے دماغ کا وہی حال کیا ہے جو ابولکلام آزاد کی نثر پڑھتے ہوتا ہے، یعنی بس الفاظ پہچان لیتا ہوں۔ لکھنے کو بہت سے خیال دماغ میں آتے ہیں؛ پانامہ لیکس سے سیاستدانوں کا تو جو ہو گا میرے ہم پیشہ کس جگہ منہ دیں گے کہ اس میں وکلا کا کردار بھی ’وہی وہانوی‘ کی کہانیوں کی ہیروئن سا تھا، ایک سترہ سال کی لڑکی ہزاروں خواب آنکھوں میں سجائے اسی کے ہاتھوں ماری گئی جسکی سیج سجانے کے لیے سجی تھی، ایک بوڑھے دوست کا افسانوی عشق، اور کچھ نہیں تو یہ سوال کہ آخر غیور علی خاں شادی کیوں نہیں کرتا۔ مگر میرے حواس اور قلم پر ڈیننگ سوار ہے۔ جو میرا ذاتی دکھ ہے مگر جب میں آپ کا، تو میرے دکھ بھی آپ سے سانجھے۔

صاحبو شادی سے اگلے ہی روز صبح صبح میری زوجہ ماجدہ کو ایک کال آئی اور اس نے اس زور و شور سے رونا شروع کیا کہ ہر بد خیال اس کے بولنے تک میرے دل و دماغ پہ چھا گیا۔ دل ہی دل میں تعزیت کے جملے موزوں کرتے ہوئے جب چار پانج بار پوچھا تو ہچکیوں سے روتی بیگم نے کہا ’میرا کیناگارٹ مر گیا‘۔ فورا تمام سسرالی رشتہ داروں کا نام یاد کیا پر دماغ میں کچھ نہ آیا۔ کون کیناگارٹ؟ میرا کتا، بیگم نے ایک چیخ ماری اور اس زور سے روئیں کہ مجھے میرے والد کی موت پر اپنا رونا یاد آ گیا۔ ساتھ ہی ہچکیوں میں کہا، ’تم ایشین ہو، تم میرا غم نہیں سمجھو گے‘۔ اور وہ سچی تھی کہ مجھے سمجھ نہ آیا کہ اتنا ماتم ایک کتے کے لیے؟ اب کچھ دیر تو میں ہونق یہ سوچتا رہا کہ اس موقع پر کہنا کیا ہے کہ کسی کتے کی تعزیت کا اس سے پہلے تجربہ نہ تھا۔ سو بہت سوچ کر کہا، حوصلہ کیجیے، اللہ کی رضا۔ جب پھر بھی کوئی خاص فرق نہ پڑا تو میں نے کہا مرحوم بہت سمجھدار تھے، جیسے ہی پتہ چلا آپ کی زندگی میں میں آ گیا ہوں، سمجھ گئے کہ میری اب ضرورت نہ رہی ہے۔ شکر ہے اس بات پہ روتی ہوئی بیگم ہنس پڑیں اور کم از کم ہمارا ولیمہ ہو گیا۔ کون جانے زوجہ ماجدہ نے ولیمہ مرحوم کے قلوں کی روٹی سمجھ کر ہی کھایا ہو۔

\"den4\"

‘کیناگارٹ‘ کی موت کے بعد میری بیگم کا مسلسل اصرار رہا کہ کتا پالا جائے مگر میں کسی نہ کسی بہانے ٹالتا رہا۔ کتے مجھے بھی پسند ہیں مگر میں ہمیشہ کتے سے خوفزدہ ہی رہا ہوں کہ بقول پطرس کون جانے کب بھونکنا چھوڑ کر کاٹنا شروع کر دے۔ میرے اک کلائنٹ جو کتوں کے کینل (کتا گھر) چلاتے ہیں نے کیس جیتا تو بطور شکریہ صبح صبح مجھے کہا سر ایک جرمن شیپرڈ ہے، لیجیے گا؟ اب اصولا تو نا ہی بنتی تھی مگر مفت کی شے میں یہ برائی ہے کہ اصولوں کو ڈگمگا دیتی ہے۔ سو بیگم کو اٹھاتے ہوے کہا، کتا لینا ہے؟ اب پہلے تو ان کی نظروں میں وہی شک ابھرا جو مصطفی کمال کی ہر پریس کانفرنس پہ ابھرتا ہے، مگر پھر میرا مظبوط لہجہ دیکھ کر کہا ہاں ابھی لاؤ تاکہ تم مکر نہ سکو۔ چنانچہ ایک پیارا سا جرمن شیپرڈ ہمارے گھر آ گیا۔ اور سچ پوچھیے تو اتنا پیارا تھا کہ دل میں ہی آ گیا۔ اب اس موقع پر دل میں جو شکوک آئے انھیں قاری حنیف ڈار صاحب سے فتوی لے کر دور کیا تاکہ بوقت ضرورت رحمت کے ان فرشتوں کو دکھانے کے کام آئیں جو ڈیننگ سے گھبرا کر میرے گھر نہ آئیں۔ دوسرا بیگم سے وعدہ لیا کہ یہ رہے گا ہمارے لان میں، گھر کے اندر نہیں رہے گا۔

دوستو اس موقع پر زرا اس موضوع پر بھی نظر ڈال ہی لیں کہ کتا پالنا برا کیوں؟ حضرت سفیان (ر) سے مروی ایک حدیث مبارک ہے ’جس نے کوئی کتا پالا ، اور پالنے والے کا مقصد کھیت (گهر) یا مویشیوں کی حفاظت نہیں ہے تو روزانہ اس کے نیک عمل میں سے ایک قیراط ثواب کی کمی ہو جاتی ہے‘۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 3325۔

دوستو مجھ کم علم کا ایک خیال ہے جس سے محترم دوست پیر عبیداللہ بھی اتفاق کرتے ہیں کہ ایک تو غربت میں کتا پال کر اضافی پیٹ کا بوجھ خود پہ لادنا اس پابندی کی وجہ تھی۔ دوسرا لڑانے کے لیے کتے پالنے کی دل شکنی مطلوب تھی۔ بلکہ پیر عبید اللہ تو کہتے ہیں کہ یہ جو رحمت کے فرشتے نہ آنے والی بات ہے یہ خونخوار کتوں کی موجودگی سے گھبرا کر مہمانوں کے نہ آنے کی بات ہے کہ مہمان کو رحمت کا فرشتہ کہا گیا۔ پھر سوچیے جس جانور سے اچھے سلوک پر ایک کسبی بخشی جائے اور جو اصحاب کہف کے ساتھ قیامت تک بٹھا دیا گیا، وہ اتنا بھی برا نہیں ہو سکتا جتنا ہم لوگوں نے بنا ڈالا۔

\"den2\"

بیگم نے نووارد کا نام لارڈ ڈیننگ کے نام پر ڈیننگ تجویز کیا اور میرے تمام احتجاج رد کر دیے کہ میرے ایک دوست اور استاد کی لا فرم بھی اس نام سے تھی۔ یقین کیجیے آج بھی قسمیں کھاتا ہوں کہ نام اس کو چڑانے کے لیے نہیں رکھا۔ لوگ بال ہٹ، تریاہٹ کہتے ہیں، زوجہ ہٹ شاید زوجہ کے خوف سے اردو لغت میں نہیں ڈالا گیا۔ خیر ہوا یہ کہ دو دن بعد بیگم ’ہدایت نامہ برائے ٹہل سیوا ڈیننگ‘ ہمیں تھما کر خود ضروری کام سے تین دن کے لیے جرمنی چلی گئیں اور میں ’سلیپنگ ود دی اینیمی‘ کے احساسات کے ساتھ جاگنے لگا۔ میرا کتوں سے خوف مجھے اس کے زیادہ قریب جانے سے روکتا تھا مگر ’ہدایت نامہ‘ میں درج تھا کہ دو وقت سیر بھی کرانی ہے۔ مجھے یہ خوف کہ یہ سیر کراتے مجھے ہی پڑ گیا تو میں تو اب تمباکو نوشی کی وجہ سے زیادہ دور بھاگ بھی نہیں سکتا۔ اب آپ سے کیا چھپانا، تین دن میں بیگم کا کوٹ، بوٹ اور دستانے پہن کر ڈیننگ کو واک کرواتا رہا کہ اسے لگے مالکن ہی ہے۔ بلکہ سچ پوچھیے تو آواز بھی ذرا نسوانی نکال کر اسے پکارتا تھا۔ ان تین دن میں میرا اور اس کا وہ تعلق قائم ہوا جو ماں اور بچے کا ہوتا ہے۔ میں اسے کھلاتا تھا۔ پھراتا تھا۔ قانون کے مطابق جب کہیں وہ فضلہ گراتا تو اٹھا کر پلاسٹک بیگ میں ڈالتا تھا اور اسکے قریب آتا جاتا تھا۔ یہی تین دن اسے بھی میرے اتنا قریب لے آئے کہ وہ مجھ سے ایسے ہی پیار کرتا تھا جیسے بچہ اپنے باپ سے۔ میں جہاں جاتا، وہ پیچھے پیچھے آتا۔ اگر کچھ دیر میں نظر نہ آتا تو وہ ہلکا ہلکا غراتا یا ایک آدھ بار بھونک کر پوچھتا کدھر ہو؟ تین دن بعد جب بیگم آئیں تو کتا تو ان کا تھا، بچہ میرا بن چکا تھا۔ تب ہی مجھے یہ گیان بھی پرتاب ہوا کہ اپنا کتا پالنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کسی اور کے کتے سے ڈر نہیں لگتا۔

ہم میاں بیوی نے اسے اتنے ہی لاڈ سے پالا جتنا اولاد کو پالا جاتا ہے اور اس نے بھی ویسی ہی محبت کی جیسی بچہ والدین سے کرتا ہے۔ ہم اسکی تعریف کرنے والوں کو اپنا دوست اور اس کی برائی کرنے والوں کو برا خیال کرتے تھے۔ یادش بخیر میرے ایک دوست دو دن کو میرے پاس تشریف لائے۔ اک دور کے سرخے اب شدید نمازی مسلمان ہو چکے تھے اور ڈیننگ کے پاس آنے پر یونہی بدکتے تھے جیسے کسی دور میں کسی بوژوا مرد کو دیکھ کر۔ عورت تو خیر بوژوا بھی ہو تو مادے کی جدلیات پر حاوی ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے اک بار انھوں نے ڈیننگ کے بارے میں کچھ برا کہ دیا تھا۔ کافی عرصے تک میں دل ہی دل میں ان سے ناراض رہا۔ اس عرصہ میں میرا بھائی بھی آ گیا اور ڈیننگ کے کافی کام اس کے ذمہ لگے۔ وہ بھی اس سے بہت پیار کرتا تھا مگر یقین کیجیے اگر کبھی وہ ڈیننگ کو ڈانٹ دیتا تو میرا دل ڈوب جاتا تھا۔

\"den1\"

ڈیننگ تھا بھی بہت پیار لینے والا۔ بچہ تھا سو کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کرتا اور پھر فورا ایسی معصوم شکل بنا لیتا کہ ڈانٹنے کی ہمت نہ پڑتی۔ میری اور بیگم کی ایسی ایسی چیز اس نے خراب کی کہ اگر ہم خود بھی ہوتے تو کبھی ایک دوسرے کو معاف نہ کرتے، مگر اس کی بار ہم ایک دوسرے کو کہہ دیتے کہ کچھ نا کہنا ابھی بچہ ہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد وہ اپنا کھلونا منہ میں دبائے آ جاتا کہ کھیلو، اب آپ لاکھ بچنا چاہیں پر وہ کھیلنے پر مجبور کر ہی دیتا تھا۔ ارے ہاں اس دوران میری بیگم نے میرے (جھوٹے دل سے) نا کرنے کے باوجود اس کو گھر کے اندر رکھ لیا تھا کہ باہر بہت سردی تھی اور وہ ابھی بچہ تھا۔ میری اور اس کی زندگی کا ایک پیٹرن سا بن گیا تھا۔ میں صبح صبح اٹھتا اور نیچے آ کر سیڑھیوں کے پاس پڑا اسکا جنگلہ کھولتا، وہ میرے پاؤں پر سر رکھتا اور لاڈیاں کرتا، پھر میں کافی اور پہلا سگریٹ پیتے ہوے اخبار پڑھتا اور وہ کانی آنکھ سے کبھی مجھے دیکھتا اور کبھی اس کھلونے کو جو پاس پڑا ہوتا۔ جرمن شیپرڈ بہت ذہین کتا ہوتا ہے، وہ جانتا تھا کہ جب تک میں صبح ایک دو سگریٹ نہ پی لوں مجھے چھیڑنا کافی کتا کام ہو سکتا ہے۔ جب میں دفتر سے آتا تو وہ میرے بوٹوں کے ساتھ کھیلتا اور میرے تسمے دانتوں سے کھولتا۔ ہم واک کرتے، اکٹھے کھیلتے اور یقین کیجیے اک دوسرے سے باتیں کرتے۔ کئی بار میں نے پنجابی میں اس سے بیگم کی برائیاں بھی کیں اور اس نے ایک ’ہئو فیر‘ (پھر کیا ہوا) جیسی آواز نکال کر حوصلہ بھی دیا۔ اسے میری جدائی برداشت نہ ہوتی تھی۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ رات کو وہ اپنا جنگلا کھول کر دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھتا، میرا دروازہ اگر تھوڑا سا بھی کھلا ہوتا تو میرے بیڈ کے پاس آ کر بیٹھ جاتا۔ پہلی بار جب آدھی رات کو میری آنکھ کھلی اور اسے دیکھا تو یقین کیجیے میری چیخ اتنی شدید تھی کہ ڈیننگ بھی ایسے بھاگا جیسے پکڑا جانے پر ایک چور، چور چور کہہ کر بھاگ پڑتا ہے۔ مگر چرخ نیلی فام کو دو محبت کرنے والے دل کب بھاتے ہیں خواہ ان میں سے ایک کتے کا ہی کیوں نہ ہو۔

\"den3\"

پچھلے سال بیگم کو اپنی جرمن ڈگری کی تکمیل کے لیے چھ ماہ کے لیے جرمنی رہنا تھا، میں نئی جاب شروع کر رہا تھا اور میرا بنگالی لینڈ لارڈ ہر دوسرے روز احتجاج کر رہا تھا کہ کتا گھر میں کیوں رکھا ہے۔ سو طے یہ پایا کہ بہتر ہے ڈیننگ چھ ماہ جرمنی رہے تاکہ معاملات درست رہیں۔ ہم تینوں اکٹھے بزریعہ سڑک جرمنی گئے اور کچھ دن اکٹھے وہاں رہے۔ وہاں بھی وہ یوں میرے پیچھے پیچھے پھرتا تھا کہ میرے ساس سسر کو یقین تھا کہ یہ میرے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ مجھے یاد ہے جب اسے چھوڑ کر میں گاڑی میں بیٹھا تو وہ دروازے کے شیشے سے مجھے یونہی دیکھتا تھا جیسے کوئی بچہ اپنے اس باپ کو جو اسے یتیم خانے میں جمع کرا کر چلا جائے۔ اگلے کتنے ہی روز میں ڈیننگ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے سوتا تھا۔ میرا سسرال ایک پرفضا وادی میں ہے۔ سنا ہے ڈیننگ وہاں بہت خوش ہے اور بھاگتا پھرتا ہے۔ سنا ہے سارا قصبہ اس کا دیوانہ ہے اور وہ اپنی حرکتوں سے ہر ایک کا دل جیت لیتا ہے۔ حالات نے اجازت نہ دی اور میں اسے دوبارہ نہ مل سکا۔ خیال آتا ہے کہ شاید کبھی وہ سوچتا ہو، میں کیسا بے وفا نکلا۔ کتنے ہی ایسے رشتے ہیں جنکی بے وفائی کا ہمیں گلہ رہتا ہے یہ جانے بغیر کہ وہ رشتہ ہمارے لیے کیسے تڑپ رہا ہے۔

صاحبو آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ مجھے کیا ہوا، میں یہ کیا کتا کہانی لے کر بیٹھ گیا۔ آج میں بھی بس یہی کہوں گا کہ ’آپ ایشین ہیں، آپ نہیں سمجھیں گے‘۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
17 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments