جام ساقی- ایک سوانحی خاکہ


تحصیل چھاچھرو، ضلع تھر پارکر کے ایک گاؤں جھنجیی میں 1944 میں پیدا ہونے والے محمد جام جو جام ساقی کے نام سے معروف ہیں عوامی جدوجہد کرنے والوں میں سر فہرست ہیں اور وہ اپنی زندگی میں ہی پاکستان کی عوامی تاریخ کا ایک دیومالائی کردار بن گئے۔ ساقی دراصل انکا تخلص تھا لیکن وہ انکے نام کا مستقل حصہ بن گیا۔

انکا بچپن اپنے چھاچھرو میں واقع گاؤں میں ہی گزرا۔ سندھ کا یہ دور دراز گاؤں شہروں میں برپا سیاسی اور سماجی لہروں سے کوسوں دور تھا لیکن انکی ترقی پسند سیاسی سوچ کی بنیادیں اسی گاؤں میں رکھی گئیں۔ اپنے بچپن کے ماحول کا ذکر وہ اپنی سوانح عمری ‘چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی’ میں ان الفاظ میں کرتے ہیں

‘بچپن کی سب سے پرانی دھندلی سی یادیں اپنی یادوں میں کہیں گڈمڈ اخباروں کی شہہ سرخیاں ہیں اور اخبار بیچنے والوں کا غوغا ہے۔ ابا کے چار دوست گھنٹوں ملکی اور غیر ملکی سیاست پر گپ لڑاتے رہتے۔ لینن نے مزدوروں کی فوج بنائی ہے اور مزدوروں کا راج بھی بنادیا ہے، روس، لینن اور انقلاب کی بات ان بھولے بسرے دنوں میں پہلی بار کان میں پڑی تھی’

گاؤں کے اسکول میں ہی تعلیم کے دوران وہ ایک اچھے مقرر کے طور سامنے آئے اور ان کے خیالات اور صلاحیتوں سے متاثر ہونے والوں میں ایک پرائمری اسکول کے استاد عنایت اللّہ بھی شامل تھے جن کی زیر زمین کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی تھی اور انہوں نے ہی پارٹی سے جام کا ابتدائی تعارف کرایا اور جام کی حیدرآباد روانگی پر ان کا رابطہ پارٹی کے رہنما عزیز سلام بخاری سے کروایا۔ سن انیس سو باسٹھ میں چھاچھرو سے میٹرک کرنے کے بعد وہ حیدرآباد آگئے جہاں انھوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ حیدرآباد میں انکی اولین سیاسی سرگرمیوں میں انکا لکھا ہوا ون یونٹ کے خلاف ایک کتابچہ تھا جس پر چند ماہ بعد پابندی لگا دی گئی لیکن اس پابندی نے کتابچے کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ کردیا۔

جام ساقی کی شائع شدہ سوانح میں تو اس بات کا ذکر نہیں لیکن حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے یونس شرر نے، جو سندھ یونیورسٹی سے اپنے اخراج کے بعد کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے اور این ایس ایف کے ایک سرگرم کارکن رہے، ہم سے گفتگو میں بتایا کہ جام کی پہلی تنظیمی وابستگی یونس شرر کی قائم کی ہوئی ترقی پسند طلبا تنظیم انڈس اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تھی۔ یونس بتاتے ہیں کہ جب ستمبر سن باسٹھ میں کراچی کی طلبا تحریک کی حمایت میں انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کی تو انکے بنیادی مطالبات میں سندھی زبان کی بطور ذریعۂ تعلیم بحالی کا مطالبہ سب سے پہلے شامل تھا۔ شرر کے مطابق جام ساقی اس وقت گورنمنٹ کالج کے ایک جونئیر طالب علم کی حیثیت سے انڈس اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تھے۔ بھوک ہڑتال کے دوران یونس شرر کی طبعیت خراب ہونے پر جب انہیں ایک بگھی کے ذریعے اسپتال منتقل کیا جارہا تھا تو طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی جس میں جام ساقی بھی شامل تھے۔ یونس شرر نے اپنی گفتگو میں اس بات پر دکھ کا بھی اظہار کیا تھا کہ سندھی ترقی پسند سیاسی کارکنان اپنی تحریروں اور یاد داشتوں میں اس بات کا کبھی ذکر نہیں کرتے کہ سندھی زبان کی حمایت میں سب سے پہلا احتجاج ایک اردو بولنے والے طالب علم کی رہنمائی میں ہوا تھا۔ اس تحریک کا ذکر جام ساقی کی حالیہ شائع شدہ سوانح حیات میں یونس شرر اور انڈس اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کسی باقاعدہ ذکر کے بغیر اس صورت میں ہے کہ جام اور انکے ساتھیوں نے سن تریسٹھ میں ایک دستخطی مہم چلائی جس کے مطالبات میں پہلا نکتہ مادری زبانوں میں امتحانات لینے کا تھا۔

دس نومبر سن انیس سو چونسٹھ کو پارٹی کی رہنمائی میں حیدرآباد میں ایک اور ترقی پسند طلبا تنظیم حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی۔ یوسف لغاری اس تنظیم کے بانی صدر اور جام ساقی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کی بڑی سیاسی سرگرمیوں میں ایک سرگرمی اس سیاسی جلسے کا انعقاد تھا جو تیرہ دسمبر سن چھیاسٹھ کو حیدرآباد میں ہوا اور جس میں رسول بخش تالپور کے اصرار کے نتیجے میں جام ساقی کی دعوت پر ذوالفقار علی بھٹو شریک ہوئے۔ اس طرح یہ جلسہ وزارت خارجہ سے استعفیٰ کے بعد بھٹو کا پہلا عوامی اجتماع تھا۔ ایچ ایس ایف نے تعلیمی اداروں میں سرکاری اہل کاروں کی مداخلت کے خلاف بھی ایک بڑی جدوجہد کا آغاز کیا جس میں سندھ کی تمام طلبا تنظیمیں پیش پیش تھیں۔ حیدرآباد کے کمشنر مسرور احسن کی سندھ ہونیورسٹی کے معاملات میں مداخلت اور وائس چانسلر پر ہمہ وقت سرکاری دباؤ اور انکی غیر قانونی برطرفی کے خلاف طلبا میں بہت غم و غصہ تھا۔ طلبا نے چار مارچ سن سڑسٹھ کو اس سلسلےمیں ایک بڑا جلوس نکالا جس پر پولیس نے بہیمانہ تشدد کرکے جام ساقی سمیت دو سو سے زائد طلبا کو گرفتار بھی کیا۔ یہ جام ساقی کی پہلی گرفتاری تھی۔ یہ تحریک سندھ کے طلبا کی تحریک میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور ‘چار مارچ’ تحریک کے نام سے مشہور ہے۔ جام ساقی نے اس اچانک ابھرنے والی تحریک کو ون یونٹ کے خاتمے کے مطالبے سے مشروط کرکے ایک مستقل تحریک کی شکل دے دی جو ون یونٹ کے خاتمے تک جاری رہی۔

سن انیس سو پینسٹھ اور چھیاسٹھ میں زیر زمین کمیونسٹ پارٹی اور اس سے وابستہ عوامی تنظیمیں باقاعدہ روس اور چین نواز دھڑوں میں تقسیم ہو گئیں۔ سن انیس سو سڑسٹھ میں روس نواز دھڑے نے اپنےایک فیصلے کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں میں قومیتوں کی بنیاد پر علیحدہ طلبا تنظیموں کے قیام کا فیصلہ کیا۔ اس متنازعہ فیصلے کے نتیجے میں بلوچستان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، خیبر پختونخواہ میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سندھ میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایس این ایس ایف) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ روس نواز این ایس ایف کاظمی گروپ کے سابق کارکنان اس فیصلے کو این ایس ایف کاظمی گروپ کے زوال کا سبب سمجھتے ہیں۔ ایس این ایس ایف کا قیام حیدرآباد میں تین نومبر سن انیس سو اڑسٹھ کو ہوا اور انڈس ہوٹل میں ہونے والے اس کے پہلے اجلاس میں جام ساقی کو اس کا بانی صدر، ایک اردو بولنے والے طالب علم ندیم اختر کو نائب صدر اور میر تھیبو کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ دیگر عہدیداروں اور نمایاں کارکنوں میں ہدایت حسین، احمد خان ملکانی، سلیم قاضی، اسلم قاضی، عزیر سومرو اور ہلال پاشا وغیرہ شامل تھے۔ اس اجلاس میں اسوقت ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوگئی جب رسول بخش پلیجو کی قیادت میں انکے ساتھیوں نے اس جلسے کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی۔

ایس این ایس ایف اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی جام ساقی کی قیادت میں ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد میں شامل ہوگئی۔ سات اکتوبر سن اڑسٹھ کو این ایس ایف کی شروع کی ہوئی طلبا تحریک بہت تیزی سے پورے ملک میں پھیلتی جارہی تھی۔ چھ نومبر سن اڑسٹھ کو طلبا اور سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کی ایک بڑی لہر کا آغاز ہوا جس کے دوران جام ساقی ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور تین ماہ نظربند رہے۔

بھٹو کے پہلے عوامی اجتماع کا انتظام کرنے والے جام ساقی بھٹو دور میں بھی ریاست کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہ رہ سکے اور انکو حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کردیا گیا اور انکی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جانے لگے۔ اس مرحلے پر انکا زیر زمین سیاسی سرگرمیوں کا دور شروع ہوا جو ضیاء الحق کے دور میں انکی گرفتاری تک جاری رہا۔

ضیاء الحق کے دور آمریت میں جام ساقی نے مسلسل آٹھ سال قید و بند کا سامنا کرتے ہوئے گذارے۔ سن انیس سو تراسی میں ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں جن میں پروفیسر جمال نقوی، سہیل سانگی، میر تھیبو، بدر ابڑو، کمال وارثی اور شبیر شر وغیرہ شامل تھے اور ان سب پر جام ساقی سمیت غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ یہ مقدمہ ‘جام ساقی کیس’ کے نام سے مشہور ہوا جس میں متعدد سیاسی رہنما بشمول بےنظیر بھٹو، ولی خان، غوث بخش بزنجو، معراج محمد خان، فتحیاب علی خان وغیرہ بطور گواہ پیش ہوئے۔ مقدمے کی سماعت کراچی سنٹرل جیل کے اندر ایک خصوصی عدالت میں ہوئی جو کئی ماہ جاری رہی۔ قید کے دوران جام ساقی اور متعدد سیاسی کارکنوں کو بے انتہا تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں ایک مرحلے پر شاہی قلعے میں قائم ایک عقوبت خانے میان منتقل کرکے مسلسل جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا انہوں نےاس تشدد کا مقابلہ ثابت قدمی سے کیا۔ اس بد نیتی پر قائم مقدمے کا نتیجے میں انکو سازش کا مجرم قرار دیا گیا لیکن سن چھیاسی میں بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے انکو سزا مکمل ہونے سے دو سال قبل رہا کردیا گیا۔ جام ساقی نے اپنی زندگی کے قریباً پندرہ سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزارے۔ ان پندرہ سالوں میں انہیں پاکستان کے چاروں صوبوں کی جیلوں میں قید رہنے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا۔ انکی ایک قید کے دوران ہی انیس جنوری سن انیس سو اناسی کو وہ الم ناک واقعہ پیش آیا جب قید میں تشدد کے نتیجے میں انکی موت واقع ہونے کی افواہ سننے کے بعد انکی اہلیہ نے خودکشی کرلی۔

 جام ساقی سن چونسٹھ عیسوی میں زیر زمین کمیونسٹ پارٹی میں باقاعدہ شامل ہوئے اور سن انیس سو نوے میں اس کی کراچی کانگریس میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی منتخب ہوئے لیکن سن انیس سو اکانوے میں انہوں نے پارٹی چھوڑ کر پہلے لال خان کی تنظیم ‘جدوجہد’ اور بعد میں سن چورانوے میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اور عبداللّہ شاہ کی وزارت اعلیٰ کے دوران انکے مشیر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ پارٹی چھوڑنے کے بعد وہ پارٹی کے تنظیمی طریقہ کار اور فیصلہ سازی کے ساتھ ساتھ ترقی پسند نظریے کے کچھ بنیادی تصورات کے بھی ایک بڑے ناقد کی حیثیت سے سامنے آئے اور انہوں نے اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار اپنے متعدد انٹرویوز میں کیا۔ وہ خاص طور پر روسی اور چینی پالیسیوں کی آندھی تقلید کے رویے پر تنقید کرتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں محنت کشوں کی آمریت کے تصور کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ یہ تصور لینن کے اُس بیان کی نفی ہے کہ ‘زیادہ جمہوریت زیادہ سوشلزم کی راہ ہموار’ کرتی ہے۔ لیکن ان تنقیدی خیالات کے باوجود وہ ترقی پسند نظریے سے وابستگی کے دعویدار ہیں اور محروم عوام کے مسائل کے حل کو ہی اپنی سیاست کا محور سمجھتے ہیں۔

جام ساقی نے اپنی سیاسی جدوجہد کے بارے میں متعدد کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سندھ کی طلبا تحریک کے بارے میں ‘سندھ جی شاگرد تحریک’، جام ساقی کیس میں انکے بیانات پر مشتمل ‘تاریخ موکھے نہ وسرایندی’ (تاریخ مجھے نہیں بھولے گی) اور ضمیر کے قیدی قابل ذکر ہیں۔ حال ہی میں نزہت عباس کی تحریر کی ہوئی انکی آپ بیتی بھی ‘چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی’ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔

)جام ساقی کا یہ سوانحی خاکہ حسن جاوید و محسن ذوالفقار کی مرتبہ کتاب ‘سورج پہ کمند’ سے لیا گیا ہے جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کی تعارفی تقریبات گیارہ مارچ دن ایک بجے کاسموپولیٹن کلب لاہور اور سترہ مارچ سہ پہر چار بجے کراچی آرٹس کونسل میں منعقد ہو رہی ہیں(


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).