خود کشی کرنے والے لوگ گناہگار ہیں، مجرم ہیں یا ذہنی بیمار؟


ایک ڈاکٹر کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا دکھی خبر ہو سکتی ہے کہ اس کے کسی مریض نے خود کشی کر لی۔ مجھے اپنی چالیس برس کی پیشہ ورانہ زندگی میں ہزاروں مریضوں کی خدمت کرنے اور ان کی صحت یابی کی خبریں سننے کے باوجود ایک مرتبہ ایسی خبر سننی پڑی۔ اس واقعہ کی تفصیل حاضرِ خدمت ہے۔

میرے مریض کو سکزوفرینیا کی ذہنی بیماری تھی۔ وہ ایک خوبصورت، ذہین اور تخلیقی صلاحتیوں کا مالک جوان تھا لیکن حد سے زیادہ حساس طبیعت کا مالک تھا۔ چونکہ اس کے چہرے پر چند کیل اور مہاسے تھے وہ سمجھتا تھا کہ وہ نہایت بدصورت ہے۔ وہ بہت شرمیلا انسان تھا اور دوسرے لوگوں سے بہت کم ملتا تھا۔ وہ تمام دن شہر کی گلیوں میں تنہا گھومتا پھرتا تھا۔ مختلف ڈاکٹروں نے اس کا علاج مختلف ادویہ سے کیا تھا لیکن اسے کوئی افاقہ نہ ہوا تھا۔ وہ جب بھی کوئی دوا کھاتا تو اس کے SIDE EFFECTS  سے بہت پریشان ہوتا کیونکہ اس کا دماغ اور جسم بہت حساس تھے۔

جب میں اس مریض سے پہلی بار ملا تھا تو مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا مرض ایک حد سے بہت آگے بڑھ گیا تھا کیونکہ اس کا صحیح وقت پر صحیح طریقے سےعلاج نہ ہوا تھا۔ وہ ایک عجیب و غریب کرب کا شکار تھا۔ وہ اپنی صلیب لے کر روز چلتا تھا اور وہ صلیب بہت بھاری صلیب تھی۔ ایک دن وہ مجھ سے ملنے آیا اور کہنے لگا، آپ نہیں جانتے کہ میں کس کرب میں مبتلا ہوں۔ میں ہر وقت اپنے ماضی کے ڈرائونے خواب دیکھتا رہتا ہوں۔ میں اس آسیب سے چھٹکارا پانا چاہتا ہوں لیکن ناکام رہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میری مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ بھی بے بس ہیں۔ میرا مرض لاعلاج ہو چکا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ شاعر ہیں اس لیے آپ کو اپنی ایک نظم سنانے آیا ہوں، اور پھر اس نے مجھے مندرجہ ذیل نظم سنائی جس کا میں نے ،ہم سب، کے قارئین کے لیے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

آؤ، میرے گھر میں آؤ، میرا نام جہنم ہے

آؤ میں تمہیں بھی کرب دوں تا کہ تم بھی مضطرب ہو جاؤ

میرے گھر اور دل میں تاریکی ہی تاریکی ہے

میں تمہیں اپنے خوف میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں

ایک وہ دور تھا جب میں خدا کے قریب جنت میں رہتا تھا

لیکن پھر میں نے شکست کھائی

خدا کے تخلیق کردہ جہنم زار میں آ گرا

اور نفرت کا ایک عفریت بن گیا

میں انسان سے نفرت کرتا ہوں اور

 اس کی روح پر مایوسی کا سایہ کرتا ہوں

میرا نام تباہی ہے

دنیا میں جتنی جنگیں ہوئی ہوں

میری ہی وجہ سے وقوع پزیر ہوئی ہیں

میں جہنم کا شیطان ہوں

خدا ایک فاختہ ہے اور میں ایک عفریت

عفریت نے فاختہ کے کمزور پر کچل ڈالے ہیں

میری وجہ سے کرہِ ارض پر انسانی زندگی

سسکتی اور کراہتی ہے

میں حرص کے گیت گاتا ہوں

میں جنگوں میں بربادی کا بگل بجاتا ہوں

انسانی چیخیں سن کر خوش ہوتا ہوں

ایک دن میں

خدا کی انسانی مخلوق کو

نیست و نابود کر دوں گا

اور خود بھی نیست و نابود ہو جائوں گا

آؤ شیطان میری روح کو سیاہ کر دو

آؤ، میرے گھر میں آؤ، یہی جہنم ہے۔

اور پھر ایک دن میرا مریض مجھ سے ملنا آیا تو مسکرا رہا تھا۔ اس کے سراپا سے مسرت و انبساط کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ میں نے کبھی اسے اتنا خوش نہ دیکھا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک مقامی کلب میں گیا تھا جہاں اس کی ایک حسینہ سے ملاقات ہو گئی۔ وہ اس پر اتنی مہربان ہوئی کہ اسے اپنے گھر لے گئی اور ساری رات اس کے ساتھ بسر کی۔ اس عورت نے میرے مریض کو بتایا کہ وہ نہ صرف ایک اچھا انسان ہے بلکہ ایک اچھا عاشق بھی ہے۔

وہ رومانوی رشتہ چھ ہفتے قائم رہا۔ جب اس عورت کو پتہ چلا کہ اس کا محبوب ذہنی مریض ہے تو وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی اور میرے مریض کا دل ٹوٹ گیا۔ میرے مریض کی حالت اتنی ابتر ہوئی کہ مجھے اسے ہسپتال میں داخل کرنا پڑا جہاں ایک اور ماہرِ نفسیات اس کا معالج بن گیا۔ چند ہفتوں کے علاج کے بعد اسے گھر جانے کی چھٹی ملی۔ اس کے والدین اسے گھر چھوڑ کر ویکنڈ کے لیے کہیں چلے گئے۔ واپس آئے تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی۔

اپنے مریض کی رومانوی کہانی سے مجھے EQUUS فلم یاد آئی جس میں رچرڈ برٹن ماہرِ نفسیات کا کردار ادا کرتا ہے اور اس مریض کا علاج کرتا ہے جس نے پاگل پن کے دورے کے دوران چھ گھوڑوں کو ایک لمبے چاقو سے نابینا کر دیا تھا۔ رچرڈ برٹن کی نفسیاتی تحقیق سے پتہ چلا کہ اس نفسیاتی بحران کی وجہ مریض کے اپنے مالک کی بیٹی سے جنسی تعلقات تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ نفسیاتی طور پر کمزور ہوں کیا وہ جنسی تعلقات کی شدت سے نفسیاتی بحران اور PSYCHOSIS SEXUAL  کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے لیے یہ ایک اہم سوال ہے؟

مجھے اپنے مریض کی موت کا بہت دکھ ہوا۔ میرا خیال ہے کہ ماہرینِ نفسیات اپنے مریضوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ میں نے بھی اپنے مریضوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اپنے یونیورسٹی کے اساتذہ سے بھی زیادہ۔ میں نے ذہنی مریضوں کے علاج سے یہ سبق سیکھا ہے کہ ذہنی مریضوں کا جتنی جلدی مناسب علاج ہو، بہتر ہے۔ ذہنی بیماری جتنی CHRONIC ہو اس کا علاج اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے مریضوں نے مجھے ایک ہمدرد انسان بنایا ہے اور مجھے یہ بھی سکھایا ہے کہ انسانیت کی خدمت ایک عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔

جب ہم مغربی دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ

ایک وہ دور تھا جب خودکشی کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔

پھر ایک دور ایسا آیا جب خود کشی کو جرم سمجھا جاتا ہے۔

جوں جوں مغربی لوگوں کو اندازہ ہوا کہ خودکشی کرنے والے لوگ کتنے دکھی ہوتے ہیں انہیں ان لوگوں سے ہمدردی ہونی شروع ہوئی۔ اب نہ تو وہ مذہبی طور پر گناہ سمجھی جاتی ہے اور نہ ہی قانونہ طور پر جرم۔

ساری دنیا میں ایک فیصد انسان خود کشی کرتے ہیں۔

ہر سال ایک لاکھ انسانوں میں سے دس انسان اپنی جان خود لیتے ہیں۔

خودکشی کرنے والے انسانوں میں ڈیپریشن اور سکزوفرینیا کے مریض بھی شامل ہیں، نفسیاتی مسائل اور منشیات کے مریض بھی اور محبت میں ناکام ہونے والے بھی۔

بعض لوگ بندوق سے، بعض ادویہ سے، بعض پانی میں اور بعض اونچی عمارت یا پل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرتے ہیں۔

مغرب میں ماہرینِ نفسیات ،ماہرینِ سماجیات اور پولیس مل کر کام کر رہی ہیں کہ خودکشی کی کیسے روک تھام کی جائے۔ اس میں چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں

شمالی امریکہ کے اونچے پلوں کے گرد جالیاں لگا دی گئی ہیں

پلوں کے قریب بورڈ لگائے گئے ہیں جس پر ایمرجنسی نمبر لکھا ہوتا ہے

مختلف شہروں میں DISTRESS CENTRES بنا دیے گئے ہیں جہاں خود کشی کے بارے میں سوچنے والے انسان دن اور رات کے کسی وقت بھی فون کر کے نفسیاتی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ سب اقدامات خودکشی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی دنیا میں ایسے ممالک اور معاشرے موجود ہیں جہاں خود کشی کو یا گناہ سمجھا جاتا ہے یا جرم۔ ایک انسان دوست ماہر نفسیات ہونے کے ناطے میرا موقف یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے انسان بہت دکھی ہوتے ہیں اور انہیں ہماری ہمدردی کی ضرورت ہوئی ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail