ایک عورت کے لئے خوشی سے موت تک کا وقفہ


ایک کتابی کیڑے دوست نے میری کاہلی اور سستی کو کانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور مشورہ دیا کہ اگر ضخیم کتابیں پڑھنا مشکل ہے تو چھوٹی کہانیاں ہی پڑھ لیا کرو۔ اس نے زور دیا کہ میں گلے کا ہار، آخری پتا، میگی کا تحفہ، رسی کا ٹکڑا اور ایک گھنٹے کی کہانی جیسے چند افسانے ضرور پڑھوں۔

دوست نے بتایا تھا کہ Story of an hour کا شمار دنیا کی بہترین کہانیوں میں ہوتا ہے جو ہماری زنگ آلود سوچ پہ چوٹ کرتی ہیں اور ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔ کم بخت نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ میں نے عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھی تھی آج بھی دل و دماغ اس کے سحر میں جکڑا ہے۔ دو اڑھائی صفحوں کی اس چھوٹی سی کہانی کے تقریبا ایک ہزار لفظوں میں ہزارہا صدیوں کے دکھ عیاں ہیں اور مجبوریوں کی لمبی داستاں کو سمیٹا گیا ہے۔

یہ مسز میلرڈ کی کہانی ہے جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ خبر ہے کہ اس کا خاوند ریل گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہو گیا ہے۔ مسز میلرڈ کی بہن اور رچرڈ (خاوند کا دوست) اسے افسوسناک خبر سنانے میں بے حد احتیاط برتتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے فقروں اور ڈھکے چھپے لفظوں میں موت کی اطلاع دیتے ہیں۔ خاوند کی موت کا سنتے ہی مسز میلرڈ رونا شروع کر دیتی ہے۔ پھر دوسری منزل پہ واقع کمرے میں اکیلی چلی جاتی ہے۔ کرسی پہ بیٹھ کرکھلی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہتی ہے۔ باہر فطرت کے خوبصورت نظارے اور خوشنما زندگی نظر آتی ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں ایک غیر متوقع اور عجیب خوشی محسوس کرتی ہے۔ خدا سے اپنی لمبی زندگی پانے کی دعا مانگتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خاوند کی موت کا افسوس بھی ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ آخری رسومات پہ پھوٹ پھوٹ کے روۓ گی۔ مسز میلرڈ کی بہن اوپر آتی ہے اور کمرے کا دروازہ کھولنے کا کہتی ہے۔ مسز میلرڈ بہن کے ساتھ نیچے چلی جاتی ہے۔

گھر کا مرکزی دروازہ کھلتا ہے اور اس کا خاوند مسٹر میلرڈ گھر میں داخل ہوتا ہے۔ خاوند کر زندہ دیکھ کر مسز میلرڈ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اچانک خوشی موت کا سبب بنی۔

امریکی مصنفہ کیٹ چاپن (Kate Chopin) اس کہانی کی خالق ہیں۔ انہوں نے یہ کہانی 1994 میں لکھی جو پہلی بار Dream of an Hour کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ کیٹ چاپن نے اپنے ناول The Awakening اور باقی کہانیوں کی طرح اس کہانی میں بھی عورتوں کی مجبوریوں، استحصال اور حقوق کو اجاگر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماڈرن فیمنزم کی جڑیں Story of an Hour کے لفظوں سے پھوٹتی نظر آتی ہیں۔

Kate Chopin

خاوند کی موت کے بعد مسز میلرڈ آزادی اور من چاہی زندگی کے سپنے کو پورا ہوتی دیکھتی ہے۔ اس کے کمرے کی کھلی کھڑکی اس کے آزاد و روشن مستقبل اور خوبصورت زندگی کی علامت ہے۔ کھڑکی سے نظر آنے والے ہوا کے دوش گھومتے روئی کے گالوں سے بادل، درختوں کی چوٹیاں جن سے بہار کے رنگ سبز پتوں کی صورت پھوٹے ہیں، بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا گہرا نیلا آسمان، دور سے آتی کسی گانے کی مدھر لے، گلی سے اٹھتی زندگی سے بھرپور آوازیں، ہوا میں ملی بارش کی مہک اور موسیقی سے بھری چڑیوں کی چہچہاہٹ سب اس دل لبھانے والے جیون کا استعارہ ہیں جو خاوند کے ہوتے اسے نصیب نہ ہوا۔

یہ ہمارے معاشرے کی المناک حقیقت ہے کہ عورت کے لیے مرد نے یہ کھڑکی بند کر رکھی ہے۔ خاوند کے جیتے جی بیوی ایسی زندگی نہیں جی سکتی۔ خاوند کی موت پہ مسز میلرڈ بار بار سرگوشی کرتی ہے۔ ‘ آزاد، جسم اور روح آزاد ہو گئے‘

کیٹ چاپن کے نزدیک ایک عورت کے لیے خاوند سے چھٹکارا پانا اہم نہیں بلکہ ایسی زندگی کی اہمیت ہے جس کی وہ خود مالک ہو۔ کیٹ چاپن مسز میلرڈ کی خوشی کی وجہ لکھتی ہیں۔

 آنے والے برسوں میں وہ کسی دوسرے کے لیے نہیں جیے گی، اپنی زندگی اپنے لیے جیۓ گی۔ اس کی مرضی کو کسی دوسرے شخص کی مرضی توڑ مروڑ نہیں سکے گی۔‘

انیسویں صدی کے آخر میں جب یہ کہانی لکھی گئی تو امریکی معاشرے میں اس کو خاص پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ یہ کہانی صدیوں پرانی روایات کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کہانی اپنے وقت سے پہلے لکھی گئی۔ ہمارے ملک میں شاید ایسے خیالات کو آج بھی بہت سارے لوگوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جاتا۔

میلرڈ خاوند کے بعد ایک نئی زندگی گزارنے کا خواب دیکھتی ہے۔ یہ خواب اتنا دلکش ہے کہ وہ دعا مانگتی ہے کہ وہ لمبی زندگی جیے اور آزادی کے احساس کا لطف زیادہ عرصہ اٹھا سکے۔ ایسا خواب اور ایسی دعا پہلی بار اس کی زندگی میں آئے تھے۔ ہم کہانی میں دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کا یہ خواب تعبیر کی منزل نہیں پاتا نہ ہی اس کی دعا شرف قبولیت حاصل کر پاتی ہے۔ بلکہ ایک گھنٹے کے اندر ہی سہانی زندگی جینے کا خواب مٹی میں مل جاتا ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق مسز میلرڈ کی موت خاوند کو زندہ دیکھنے کی اچانک خوشی کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن کہانی پڑھنے والے جانتے ہیں کہ درحقیقت خاوند کو زندہ دیکھنے کا صدمہ وہ برداشت نہیں کر پاتی اور مر جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خاوند ہی بیوی کی خوشی کی زندگی جینے میں رکاوٹ ہے۔

ڈاکٹرز کا موت کی غلط اور متضاد وجہ کی تشخیص معاشرے کے اس رویے کی علامت ہے کہ ہم عورت سے متعلقہ معاملات کو غلط رنگ دیتے ہیں اور حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ شاید خواتین کے دکھوں کے پیچھے کارفرما اصل وجوہات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

مسز میلرڈ کی کہانی میں کیٹ چاپن کی ذاتی زندگی کا عکس بھی دکھائی پڑتا ہے۔ کیٹ چاپن کے خاوند کا انتقال ہوا تو چھ بچوں کی ماں اور گھریلو عورت کو روزی روٹی کمانے کے لیے ایک آرٹسٹ اور قلم کار کا رول اپنانا پڑا تھا۔ کیٹ چاپن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور وہ کامیاب لکھاری بن گئیں۔ یہ کہانی بھی عورت کو اپنی صلاحیت کے مطابق آزادی سے کام کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا پیغام دیتی ہے۔

اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ شادی ایسا لڈو ہے جو دیکھنے میں خوش ذائقہ نظر آتا ہے اور چکھنے پہ کڑوا ثابت ہوتا ہے۔ جو بھی کھاۓ، وہ پچھتاۓ۔ شادی شدہ عورت کے پاؤں میں پڑی سخت مجبوریوں، بے شمار ذمہ داریوں اور بے جا پابندیوں کی زنجیریں جان لیوا ہیں۔ شادی کے بعد مرد باہر کام کرتا ہے اور عورت گھر سنبھالتی ہے۔ لہذا گھر سے باہر کے تمام مواقع عورت کی دسترس سے باہر رہتے ہیں۔ عورت نے آگے بڑھنے، دنیا میں اپنا مقام بنانے، روشن مستقبل کے حصول اور زندگی کو انجواۓ کرنے کے جو خواب دیکھے ہوتے ہیں وہ چار دیواری ہی میں چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ مسز میلرڈ بیوی کے ایسے ہی پراسرار رول میں پھنسی نظر آتی ہے۔ شادی شدہ زندگی کے کڑے مطالبات ہیں جن کے پاٹوں میں عورت پسی چلی جاتی ہے۔

Story of an hour میں رونا دھونا کافی ملتا ہے۔ کہانی کی ہیرؤئن خاوند کی موت پہ روتی ہے۔ جب کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوتی ہے تب بھی ڈسکارے بھرتی رہتی ہے۔ پھر جب اپنے خیالوں میں خاوند کے جنازے میں شریک ہے پھر بھی رونے کا ذکر ملتا ہے۔ خیالوں ہی میں خاوند کو دفنانے کے بعد رونے کا ذکر نہیں آتا۔ اس کا رونا دھونا تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک خاوند اس دنیا میں موجود ہے۔

مسز میلرڈ دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور یہ عارضہ بھی خاوند کی عطا معلوم ہوتا ہے۔ اور کہانی کے آخر پر خاوند ہی جان لیوا صدمے کی وجہ بنتا ہے۔ یہی عارضہ اس کی جان لے لیتا ہے۔ ایسے ہی ناسور جو عورت کی جان کے پیچھے پڑے ہیں، وہ معاشرے کی عطا ہیں۔

یہ کہانی امریکی مصنف Charlotte Perkins Gilman کی کہانی The Yellow Wallpaper سے بھی ملتی جلتی نظر آتی ہے جس میں ایک عورت اس قید اور پابندیوں کو کچل دینا چاہتی ہے جو اس کے شوہر نے اس پہ مسلط کی ہیں۔

یہ کہانی ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتی ہے۔ یہ ایک عورت کی پکار ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ موت ہی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ موت سے پہلے کوئی راستہ کیوں نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ خواتین کے لیے اس کہانی میں نصیحت ہے کہ انہیں اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ کیٹ چاپن اپنے ناول The Awakening میں لکھتی ہیں۔

“مجھے ہمیشہ ان خواتین پہ افسوس ہوتا ہے جو چلنا پسند نہیں کرتیں۔ وہ بہت ساری چیزوں سے محروم رہ جاتی ہیں۔ وہ بہت سارے زندگی کے چھوٹے چھوٹے نایاب نظاروں سے محروم رہتی ہیں۔”

کیٹ چاپن کی اس چھوٹی سی کہانی میں کتنی بڑی بڑی باتیں کی گئی ہیں۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti