سینیٹ انتخابات میں ’دھاندلی‘ کس نے کی؟


پاکستان تحریک انصاف نے سینیٹ انتخابات میں دھاندلی یا ووٹوں کی خرید و فروخت کا الزام عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس اس معاملہ کا نوٹس لیں۔ پارٹی چئیرمین عمران خان نے خیبر پختون خوا میں اپنے ارکان اسمبلی پر پیسے لے کر دوسری پارٹیوں کے امید واروں کو ووٹ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس معاملہ کی تحقیقات کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پارٹی سے غداری کرنے والے صوبائی اسمبلی کے ہر رکن کو چار کروڑ روپے دیئے گئے تھے۔ عمران خان سے یہ کہنے کا تو کوئی فائدہ نہیں کہ وہ قوم کے بھلے اور اپنی پارٹی کی نیک نامی کے لئے اس الزام کے ثبوت سامنے لائیں کہ ووٹ خریدنے کے لئے رقم ادا کی گئی تھی۔ لیکن وہ خود اپنی پارٹی کے ’بے وفا‘ اراکین اسمبلی کے خلاف کارروائی کرکے باقی سیاسی پارٹیوں کے لئے روشن مثال قائم کرسکتے ہیں۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اس قسم کی کارروائی کا فائدہ تب ہی ہو سکتا ہے اگر باقی پارٹیاں بھی اپنے ان ارکان کے خلاف کارورائی کریں جو ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوئے ہیں۔ یا کم از کم ایسے ارکان کو کوئی دوسری پارٹی قبول نہ کرے جو کسی ایک پارٹی سے رشوت لے کر ووٹ دینے کے الزام میں نکالے جائیں۔ فی الوقت ملک میں ایسا سیاسی کلچر موجود نہیں ہے۔ بدقسمتی سے الزام تراشی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کو ہی ملک کا بہترین مفاد سمجھ لیا گیا ہے۔ عمران خان کا غصہ بجا ہے۔ کیوں کہ ان کی پارٹی کے سب سے زیادہ ارکان صوبائی اسمبلی نے پارٹی کے امید واروں کو ووٹ نہ دے کر پارٹی کو سینیٹ کی دو نشستوں سے محروم کیا ہے۔ لیکن عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف بھی اس معاملہ میں پوری ذمہ داری اور دیانتداری کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

عمران خان ملک کی تیسری بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں لیکن وہ خود قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر ووٹ ڈالنے نہیں گئے۔ پاکستان میں جمہوری نظام کے استوار ہونے سے متعلق ایک اہم مسئلہ لوگوں کا انتخابی عمل میں حصہ نہ لینا بھی ہے۔ انتخابات میں لوگوں کی بڑی اکثریت ووٹ نہیں ڈالتی ۔ اس وجہ سے جو نمائیندے منتخب ہوتے ہیں وہ ہر حلقہ کے بہت کم لوگوں کی نمائیندگی کرتے ہیں یا وہ محدود تعداد میں ووٹ لے کرکامیاب ہو جاتے ہیں اور اکثریت کی خاموشی یا انتخابی عمل سے لاتعلقی کی وجہ سے اقلیت کی حمایت حاصل کرنے ولا شخص پورے حلقے کا نمائیندہ بن بیٹھتا ہے۔ اس صورت حال کو ملک کے سیاسی لیڈر رول ماڈل بن کر تبدیل کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک پارٹی کا سربراہ جو ووٹ لے کر ملک میں بر سر اقتدار آنا چاہتا ہے ، خود بھی ایک اہم انتخاب میں ووٹ ڈالنے نہیں جائے گا تو یہ عام شہری کے لئے کوئی اچھی مثال نہیں ہوگی۔ اگر عمران خان نے قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر اس لئے ووٹ نہیں دیا کہ اس سے کوئی ’فرق‘ نہیں پڑتا تو انہیں خبر ہونی چاہئے کہ ملک کی بڑی اکثریت بھی اسی لئے ووٹ نہیں دیتی کہ ان میں سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ووٹ دینے یا نہ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ لیکن ایک ایک ووٹ مل کر ہی تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہی جمہوریت ہے اور اسی طرح حقیقی اور پائیدار تبدیلی آسکتی ہے۔

خیبر پختون خوا میں سینیٹ انتخاب میں اپنے ہی ارکان کی طرف سے بے وفائی پر تحریک انصاف کی پریشانی قابل فہم ہے۔ لیکن عمران خان کو اس سے بھی زیادہ اس بات پر پریشان ہونا چاہئے کہ پنجاب میں ان کے نمائیندے چوہدری سرور کس طرح کامیاب ہو گئے۔ اگر وہ یہ دعویٰ کررہے ہیں اور الزام عائد کررہے ہیں کہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینا غلط ہے اور خیبر پختون خوا میں ووٹ خریدے گئے ہیں تو یہ کام پنجاب میں بھی غلط ہونا چاہئے۔ اس لئے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے جن ارکان نے پارٹی ہدایات کے برعکس ووٹ دیا ، انہوں نے بھی ایک اصولی غلطی کی اور عمران خان کو اس کی بھی اتنی ہی شدت سے مذمت کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ اس کا جواب انہیں چوہدری سرور سے طلب کرنا چاہئے کہ وہ پارٹی کی سیاسی قوت سے زیادہ تعداد میں ووٹ کیسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگر خیبر پختون خوا میں ارکان کو رشوت دی گئی تھی تو پنجاب میں ایسا کیوں نہیں ہؤا ہوگا۔ اس معاملہ پر صرف اس لئے خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی کہ اس میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) سے سینیٹ کی ایک نشست چھیننے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

سینیٹ انتخاب کے بعد اب سینیٹ کے چئیرمین کے لئے دوڑ دھوپ شروع ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس دوڑ میں مد مقابل ہیں۔ پیپلز پارٹی اگرچہ سندھ اور خیبرپختون خوا میں اپنے حصہ سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود سینیٹ میں اس کے ارکان کی تعداد 20 ہے۔ جبکہ سینیٹ چئیرمین منتخب کروانے کے لئے 53 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ اس مقصد کے لئے دونوں بڑی پارٹیاں چھوٹی پارٹیوں کو سیاسی مراعات کے وعدے کرکے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔ لیکن جس ملک میں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پیسے لے کر ووٹ دیتے ہوں وہاں بعض سینیٹر بھی ضرور ایسے ہوں گے جو وقت آنے پر اپنی قیمت لگوانے کی کوشش کریں گے۔ خاص طور سے اس انتخاب میں جس طرح بڑی تعداد میں آزاد ارکان منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں ، اس کی روشنی میں چئیرمین شپ کے لئے بھیانک سودے بازی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی سب بڑی پارٹیوں کو یہ اعلان کرنا چاہئے کہ وہ اس قسم کی سودے بازی کا حصہ نہیں بنیں گی۔

سینیٹ انتخابات میں غیر متوقع طور سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے پر جہاں پارٹی کے معاون چئیر پرسن آصف زرداری کی سیاسی ’ہنرمندی‘ کی توصیف کی جارہی ہے ، اسی کے ساتھ ہارس ٹریڈنگ کا سب سے زیادہ الزام بھی اسی پارٹی پر عائد ہو رہا ہے۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان یہ الزام عائد کررہی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر آصف زرداری نے ان حالات میں خود صورت حال کی وضاحت کرنے کی بجائے اپنے بیٹے اور پارٹی کے ناتجربہ کار چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کو میڈیا سے بات کرنے کے لئے آگے کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرادری نے ایک طرف یہ دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) چونکہ اس انتخاب کا حصہ نہیں تھی اور اس کے امید واروں نے آزاد ارکان کے طور پر انتخاب میں حصہ لیا تھا اس لئے تکنیکی لحاظ سے پیپلز پارٹی سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس حیثیت میں اسے ہی سینیٹ کا چئیرمین سامنے لانے کا موقع ملنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ سینیٹ کا چئیرمین اپوزیشن سے ہو۔

پیپلز پارٹی کو اس سوال پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ کیا وہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سینیٹ کی چئیرمین شپ چاہتی ہے یا اس اصول کو تسلیم کروانا چاہتی ہے کہ سینیٹ کا چئیرمین قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھنے والی پارٹی سے ہو۔ اس صورت میں بہتر ہوتا اگر پارٹی اس وقت یہ روایت قائم کرنے کی کوشش کرتی جب وہ مرکز میں حکومت میں تھی لیکن سینیٹ کا چئیرمین بھی اپنی ہی پارٹی کا لے کر آئی تھی۔ چئیرمین سینیٹ کے معاملہ پر کسی اصول کو طے کروانے سے پہلے البتہ پیپلز پارٹی کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ کراچی میں ایم کیوایم پاکستان اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے ووٹ کس طرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پیپلز پارٹی اگر یہ وضاحت کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے سینیٹ کے چئیرمین کے انتخاب کے حوالے سے بھی اصولی باتیں کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ سب جانتے ہیں کہ اس معاملہ میں کوئی پارٹی کسی اصول کو نہیں مانے گی اور مخالف پارٹی کو نیچا دکھانے کے لئے ہر ہتھکنڈا اختیار کرے گی۔ اسی رویہ کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات مذاق بنے ہیں اور ملک کا سیاسی جمہوری نظام جزو معطل بنا ہؤا ہے۔

ملک کی سب پارٹیوں نے سینیٹ کے لئے ٹکٹ دیتے ہوئے اہلیت کی بجائے وفاداری اور سیاسی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا تھا۔ پیپلز پارٹی کو البتہ یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اس نے ہندو اقلیت کی ایک خاتون کو سینیٹ بنوا کر تاریخ رقم کی ہے اور ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ تاہم سب سیاسی پارٹیوں کو سینیٹ کے انتخاب سے سبق سیکھنے اور یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ نظام افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اگر اس ملک میں جمہوری نظام کو توقیر اور استحکام دینا ہے تو سب کو بعض بنیادی اصولوں کا احترام کرنے اور جمہوری روایات پر عمل کرنےکی کوشش کرنا ہوگی۔ یہ معاملات الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ کی مداخلت سے درست نہیں ہو سکتے۔ اس کے لئے سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali