ایک چھوٹے لڑکے یعقوب کے نام


آج سوشل میڈیا پر ایک وڈیو جاری ہوئی ہے جس میں ایک فربہ اندام بیگم صاحبہ کم سن گھریلو ملازمہ پر تشدد کر رہی ہیں اور جرم یہ بتا رہی ہیں کہ چائے میں پتی زیادہ کیوں ڈالی؟ خبر کے مطابق یہ وڈیو وفاقی وزیر اطلاعات محترمہ شیریں مزاری تک پہنچ گئی ہے۔ ہماری نسل نے بیگم جوناگڑھ کے عہد ستم میں آنکھ کھولی تھی جنہیں ایک گھریلو ملازمہ کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کی پاداش میں ایک روز قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پنجاب کے گورنر مصطفیٰ کھر کا گھریلو ملازمین پر تشدد تہمینہ درانی کی کتاب کا حصہ ہے۔ چند برس قبل ملتان کے گیلانی خانوادے کی ایک خاتون معظم نے شیشے کا برتن مار کر گھریلو ملازم کو قتل کر دیا تھا۔ 2010ء میں لاہور کے ایک وکیل پر گھریلو ملازمہ شازیہ کے قتل کا الزام لگا تھا جس پر کالے کوٹ میں ملبوس قانون کے پاسبان اپنے ساتھی کو بچانے کے لئے دندناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ پھر اسلام آباد میں ماتحت عدلیہ کے ایک رکن اور ان کی منکوحہ کی کچھ ایسی ہی حرکات سامنے آئیں۔ قصہ تو طاقت پر اختیار کا ہے۔ کوئی گھریلو ملازم پر تشدد کر لیتا ہے تو کوئی بندوق دکھا کے قوم کا حق رائے دہی چرا لیتا ہے۔

گھریلو مشقت پر مامور ایک معصوم بچے کے گرد بنی ایک نازک سی تحریر پیش ہے۔ محمد خالد اختر اردو کے صاحب طرز نثرنگار تھے۔ کم لکھا لیکن بہت محنت اور لگن سے لکھا۔ سچی انسان دوستی، ژرف نگاہی، ریاکاری سے دو ٹوک نفور اور کلاسیکی روایت میں دقت نظر کے باوجود جدت فکر و احساس۔ محمد خالد اختر نے فروری 2002 میں وفات پائی۔

میرے چھوٹے معصوم فرشتے! آپ کیسے ہیں ؟ اچھے تو ہیں ہمارے یعقوب میاں؟ جس دن میں کراچی سے چلا میری نگاہوں نے آپ کو ڈھونڈا، میرے دل نے چاہا آپ سیڑھیوں پر سے میرے ہمراہ نیچے موٹر تک آئیں۔ میں آپ کو گلے لگاﺅں۔ کلمہ دلاسے اور حوصلے کا کہوں اور آپ کے کدو سر پر دست شفقت پھیروں اور یہ بھی کہ اپنی بیوی اور دوسرے گھر والوں سے آنکھ بچا کر کچھ پیسے خرچے کے آپ کی قمیص کی جیب میں ڈال دوں۔ آپ مجھ کو کہیں نظر نہ آئے شاید کوئی سودا لینے گئے تھے یا شاید میرے جانے پر کسی کونے کھدرے میں چھپ کر روتے تھے۔ بھولے چھوٹے لڑکے ! باور کرو گھر سے اسٹیشن تک سارے راستے تمہارے متعلق سوچا کہ جاتے وقت تمہاری صورت نہ دیکھی اور یہ کہ اب کون پُر شفقت مسکراہٹ سے تمہارا ننھا دل بڑا کرے گا ؟ کون تم کو چوری چھپے اپنی بغل سے لگا کر اپنے ساتھ بھینچے گا؟

ابھی جب میں یہ سطور لکھتا تھا دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے قلم ہاتھ سے دھرا اور دروازے تک گیا۔ آپ کا والد تھا۔ ننگا پنڈا، چادر باندھے، محنت مزدوری کے پسینے سے چمکتا۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا اور تمہارا پوچھا کہ تم کب آﺅ گے۔ ”صاحب ہم کو اپنے پتر کی بڑی مونجھ ہے۔ یعقوبے کی ماں تو روتی رہتی ہے۔ “

”وہ بالکل خوش، ٹھیک ٹھاک تھا۔ پانچ دس روز تک بی بی اور بچے لوٹ آئیں گے فکر نہ کرو۔ “

صاحب ہماری تانگ نہیں جاتی۔ کل آپ کراچی ٹیلیفون کریں یعقوبے نے کہا تھا میں ٹیلیفون پر خود بولوں گا۔ ہماری تسلی ہو جائے گی۔ میں کل اس وقت مزدوری سے فارغ ہو کر یعقوبے کی خیریت پوچھ جاﺅں گا۔ “

”میں فون کروں گا وہ میرا بھی پتر ہے“

میرا شکریہ تمہارے والد نے ادا کیا اور چلا گیا۔ لڑکے میں نے تمہارے والد سے وعدہ تو کیا تم سے ٹیلیفون پر بات کرنے کا لیکن اب اس طور پر سوچتا ہوں کہ ٹیلیفون کروں گا تو کس منہ سے اور کہاں۔ وہ لوگ تم کو ٹیلیفون پر بلائیں گے کیونکر۔

آپ میرے بچوں کی خدمت کرنے والے، ان کو کھلانے والے نوکر ہیں۔ نوکر بچے آقا بچوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی نہیں سمجھتا کہ سب بچے خواہ وہ مالک کے اپنے ہوں یا ان کی خدمت پر مامور، ان کے جذبات و احساسات، ایک سے ہوتے ہیں۔ وہی شفقت کی طلب، وہی کھلونوں کا لالچ، وہی کھیل کود کا شوق، ہائے یہ کوئی احساس نہیں کرتا سب بچوں کے دل آبگینوں کی طرح نازک ہوتے ہیں اور سب ہوتے ہیں اپنی ماﺅں کے لال۔ ان کے راج دلارے، شہزادے، غریب امیر کا ا س میں امتیاز نہیں اور لڑکے ! کسی کا امیر کے محل میں تولد پانا یا غریب کے گھر پیدا ہونا محض حسن اتفاق زمانہ ہے۔ یہ بات تمہارے چاچا خضر کے نزدیک بعید از رحم و انصاف ہے کہ ایک کو تو بوجہ اپنے اتفاق ولادت کے دنیا جہاں کے چاﺅ چونچلے عیش و آرام میسر ہوں اور دوسرے کو بجز دھتکارے جانے اور محرومی کے کچھ نہ ملے۔

جس صبح میں نے ملتان جانے کا قصد باندھا اس سے گزشتہ رات میں قدرے دیر سے لوٹا یعنی کوئی دوپہر دن ڈھلے بعد، پاس ہی سوسائٹی کے محلے میں اپنے ایک دو جگری دوستوں سے گپ شپ کرتے، شطرنج کے مہرے پیٹتے پٹاتے دیر ہو گئی اور میں سمجھتا ہوں اتنی دیر بھی نہیں۔ وہ مجھ کو فلیٹ کے دروازے کے پاس موٹر کار میں چھوڑ گئے۔ میں ڈرتا سہمتا دبے پاﺅں اوپر چڑھا اور اندر آیا تم راستے کی چھوٹی غلام گردش میں گٹھڑی بنے سوتے تھے۔ خوابیں دیکھتے تھے۔ جس کمرے میں میرے بیوی اور بچے سوتے تھے اس میں بجلی کے قمقمے روشن تھے میں مجرموں کی طرح اندر داخل ہوا۔ شب خوابی کے کپڑے پہنے اور سونے سے پہلے چاہا کہ چندھیانے والی بتی کو گل کر دوں میں تیز روشنی میں سو نہیں سکتا۔ تمہاری مالکن میری بی بی جاگتی تھیں۔ آتش غضب میں بھنی تھیں جھٹ بولیں ”قمقمے جلتے رہیں گے نونو اور ہارون کو اندھیرے میں ڈر لگتا ہے۔ میں نے جواب دینا مناسب خیال نہ کیا اور چپکے سے تکیہ اٹھا کر کمرے سے باہر آ گیا۔ دوسرے کمرے میں میری ساس اور سالے سوتے تھے۔ کہاں سوﺅں، نہ سوﺅں تو کہاں بیٹھ کر اونگھوں۔ اس تخت پوش پر، جس پر میرے شہزادے، تم پڑے سوتے تھے۔ تھوڑی سی جگہ خالی تھی اتنی البتہ نہیں کہ تکیے کی گنجائش نکل آئے۔ مجھ پر نیند کا غلبہ تھا۔ تکیہ رکھا ایک کونے کی کرسی پر اور تمہارے ساتھ ہی کہنی پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ تمہارے جسم کی گرمی بھی وہی تھی جیسی میری جگر گوشہ سائرہ بی بی کی حدت۔ کچھ دیر لیٹا سمٹ سمٹا کر لیکن جگہ تھوڑی تھی نیند نہ آئی میں اونگھتا رہا مگر اپنی بے سکونی میں خوش تھا کہ مالک اور نوکر بچہ ایک بستر میں سوتے ہیں۔ تم کو پتہ نہ چلا۔ پتہ کیونکر چلتا پچھلی رات میں اٹھا اور باورچی خانے میں رکھی بنگالی خانساماں لڑکے زین العابدین کی چارپائی پر جا سویا! وہ نیچے ایرانی کے ہوٹل کے برآمدے میں سوتا ہے اور مجھ کو یہ پہلے معلوم نہ تھا۔

میں وہاں تھا تو حتی الامکان خیال کرتا تھا کہ تمہارا ننھا سا دل نہ دکھے۔ ایک بارتم کو ڈانٹ ملی یا تمہارا دل ماں کی یاد میں اُلٹا۔ تم ایک دیوار کے کونے میں لگ کر سسکیاں بھر بھر کر رونے لگے۔ میرا کلیجہ ہلا اور مجھ کو اس طور لگا کہ جیسے میرے اقلیم قلب کی مہارانی سائرہ بی بی روتی ہیں۔ میں بھاگا گیا اور تم کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ الفت اور تسکین کی باتیں کیں۔ میری نیک بخت بی بی اور تمہاری مالکن جن کے جگر گوشوں کو کھلانے پر تم مامور ہو، ان کو میرا آپ کو یوں پیار کرنا برا لگا وہ جھٹ بھاگی آئیں اور تم کو بازو سے پکڑ کر لے گئیں۔ کلمات تندو تیز کہے اوئے اب یہاں روتا کس لئے ہے تیری ماں نے تو خود منت کر کے تجھ کو ہمارے ساتھ بھیجا۔ موٹر میں بیٹھ کر کراچی کی سیر کرتا ہے۔ “

میں غصے میں تلملاتا تھا، پر اپنے کو بے بس پاتا تھا۔ میں نے گمان کیا کہ موٹر میں سیر کی خوب کہی۔ سب سے پیچھے موٹر میں گھسنے اور پاندان پر بیٹھنے کا حکم کھڑکی سے باہر دیکھنے پر ڈانٹ ڈپٹ کہ بچوں کا خیال رکھنے کو وہ لے کر آئی ہیں، باہر کیا دیکھتے ہو؟ تم کتنے سہمے ہوئے چپ چاپ بیٹھے تھے اس موٹر گاڑی میں جب ہم گئے کلفٹن اور میرے بچے بار بار چڑھے جھولے میں اور پھر ڈوجن پارک میں بجلی کی موٹر گاڑیوں میں تو تم ان کو حسرت ناک نگاہوں سے تکتے تھے۔ مجھ کو ہمت نہ ہوئی تم کو ٹکٹ لے کر دینے کی۔ ہاں بھائی تمہارا چاچا خضر ہے خوب شرارتی تمہاری جیب میں پیچھے سے آٹھ آنے ڈال دیئے اور میرے شہزادے نے ان پیسوں سے ٹکٹ لے کر اپنے مالک کے بچوں کے ساتھ جھولے کی سیر کی۔ پر شہزادے یعقوب کی ڈوجن پارک میں خوب سبکی ہوئی۔ بجلی کی موٹر گاڑی کا ٹکٹ ڈیڑھ روپیہ ہے اس میں چاہے ایک شخص بیٹھے چاہے دو بیٹھیں، دام وہی ہیں جب میر بڑا بیٹا منصور اکیلا موٹر گاڑی میں بیٹھا تو ہمارے میاں یعقوب خان بہادر سے رہا نہ گیا۔ دل چاہا ہو گا ہم بھی موٹر میں سوار ہو کر اُڑیں، ٹکر لگائیں، ٹکر کھائیں، صاحبزادے بھول گئے کہ ملازم بچوں کو اپنی حیثیت جاننی چاہیے وہ جا کر منصور کے ساتھ مزے سے ہو بیٹھے، ہماری بی بی بھلا یہ برداشت کرتی کیونکر۔ وہ فورا باڑ پھاند کر چوبی فرش مدور میں جا وارد ہوئیں اور رِنگ کا سارا فاصلہ طے کر کے آپ کو بازو سے پکڑ کر لے آئیں۔ تمہارے بھولے چہرے پر سے تمام بشاشت غائب ہوئی۔ واہ کیسی سیر کی ہمارے یعقوب میاں نے ! جب ہم اپنے بچوں کے لیے پلے لینڈ کے قصر کے سامنے بیٹھے دکانداروں سے سیپ کے کھلونے خریدتے تھے تم کس حسرت سے ان کھلونوں کو تکتے تھے۔ چاچا خضر غریب ڈرپوک، بے ہمتے۔ وہ بھلا جرات تم کو کھلونا لے کر دینے کی کرتے تو کیونکر! قصے کیا کیا نہ بنائے جاتے۔ وہ ڈر گئے اس واسطے کہ کھلونا ان کا تم کو لے دینا قیامت عظیم بپا کر دے گا۔ ہائے ہائے بیٹے اس چمنستان پاکستان میں کہ تم اس کے ایک گل نودمیدہ ہو، بادِ زہر ناک کے جھونکے ہر سمت چلتے ہیں، تم کھلنے نہیں پاﺅ گے کہ مرجھا جاﺅ گے۔ یہاں کے مسلمین پاکباز کے دل سنگ ہیں اور مہر و محبت سے کورے۔ البتہ اخوت اسلامی کا جس قدر ورد اس خطے میں شب و روز ہوتا ہے اتنا اس کرہ عالم میں کسی جگہ نہیں ہوتا۔ کیا امراء صاحبِ جائداد اشخاص، کیا مرد کیا عورت، جوہرِ انسانیت ان میں نہیں۔ بالتخصیص طبقہ اناث اس ریاست کا مال و دولت اور موٹر کار کی طلب و ہوس کو مدعائے حیات جانے ہے۔ کوئی صاحب فرماتے ہیں :

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ افسوس کہ انسان نے اس سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔ شقی القلب بھیڑیا بنا۔ بڑا رونا یہی ہے یعقوب خان !

جب میں وہاں تھا تو ہمارے درمیاں انسیت و ہمرازی کی مسکراہٹ جس کو سب بھانپ نہیں سکتے تھے، آپ کا حوصلہ بڑھاتی تھی۔ سوکھی ہوئی، پژمردہ کشت روح کی آبیاری کرتی تھی۔ میرے آئے پیچھے تم پر کیونکر گذرتی ہو گی ؟ ٹیلی ویژن دیکھتے وقت خوش بخت بچوں سے الگ پائدان کے پاس بٹھلاتے ہوں گے۔ بچہ کوئی کسی وجہ سے روتا ہو گا تو اس کے ذمہ دار تم ٹھہرتے ہو گے کہ خیال تم نے نہ رکھا کہ تم ان کے بچوں کا خیال رکھو۔ ان کو گرنے نہ دو، ان کو کھلاﺅ۔ اس خاطر نہیں کہ تم ان کے ساتھ کھیلو۔ تمہارے ماں باپ غریب ہے نا۔

آﺅ شہزادے یعقوب میاں تم اور ہم اور تمہارا عرق محنت سے تاباں باپ باہم یکجا ہو کر بر لب دریا ایک جھونپڑے میں رہیں اور اپنے جیسے غریب سادہ لوح آدمیوں کے درمیان جن کی خو خسروانہ ہے اور ادا مہر گسترانہ ہے۔ یہ اشخاص جو اینٹ اور پتھر کی عالی شان حویلیوں میں رہتے ہیں ان کے دل بھی اینٹ اور پتھر ہیں۔ ان پر ایسا فالج گرا کہ حسِ دردمندی و بندہ نوازی ناکارہ ہوئی۔ یہ نام کے بادشاہ بخیل اور بے رحم پرلے درجے کے ہیں۔ چلو میرے لال اپنے قبیلے کے لوگوں میں چل کر رہیں یہاں ہم کو کوئی جانتا نہیں پہچانتا نہیں:

آﺅ نکل چلیں، آﺅ بھاگ چلیں

یہاں سانس ہمارا گھٹتا ہے

 تمہارا چچا

خضر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).