جگدیش اور سڑک مہاراج کا چمتکار


دس سال کے بعد میں دوبارہ اسی جگہ پر تھا مگر یہ جگہ ویسی نہیں رہی تھی۔ دس سال پہلے تو یہاں پر ایک چھوٹی سی معمولی سی، ویران سی دکان تھی۔ دکان سے تھوڑا سا دور چند گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اور گاؤں کے اندر ایک ٹوٹا پھوٹا اجڑا سا مندر تھا۔ اس ٹوٹے پھوٹے چھوٹے سے مندر میں کچھ دیوی دیوتاؤں کی مورتیں تھیں اور ان مورتیوں کی دیکھ بھال کرنے والا ایک پجاری تھا۔ صدیوں پرانا گاؤں صدیوں پرانی دنیا میں رہ رہا تھا۔

تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کسی گاڑی، وین، بس، ٹرک، ٹریکٹر کے آنے سے۔ پانی، گٹکا، چھالیہ، چائے، سوڈا بوتلوں کی دکان پر تھوڑا سا ہنگامہ سا ہوتا، پھر وہی صحرا کی مٹی، وہی ٹوٹی پھوٹی ہوئی سڑک، وہی صدیوں پرانا علاقہ وہی صدیوں پرانی ویرانی اور وہی پرانے لوگ۔

بارہ تیرہ سال پہلے جب میں آیا تھا تواس جگہ پر مجھے رہنا پڑگیا تھا۔ میں اس وقت مندروں کے بارے میں معلومات جمع کررہا تھا، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ، شہر شہر گھوم کر مندروں کی تعداد، ان کی حالت زار اور ان کی تاریخ پر تحقیقی کام کررہا تھا۔ جب میں نے یہ کام شروع کیا تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام اتنا مشکل ہوجائے گا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ چھوٹے بڑے شہروں میں گنے چنے ہی مندر ہوں گے اور ان کا سروے کرنا اتنا مشکل نہیں ہوگا، آرام آرام سے سروے مکمل ہوجائے گا، اس کی بنیاد پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کرلوں گا اور پھر کام ختم۔ مگر میرا خیال غلط ثابت ہوا۔

یہ بات تو صحیح تھی کہ چھوٹے بڑے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں گنے چنے ہی مندر تھے اور ان کا سروے مشکل بھی نہیں ثابت ہوا مگر ہوا یہ کہ ہر چھوٹے بڑے شہر کے ساتھ شہر سے باہر چھوٹے موٹے گاؤں دیہات قصبوں میں مندروں کے ساتھ ساتھ دوردراز ویرانوں میں بھی ان کے موجود ہونے کی خبر ملی۔ ان میں سے کچھ کے بارے میں پتا چلا کہ ان کی بڑی تاریخی حیثیت ہے کہیں کہیں پر ساری دنیا سے ہندو لوگ منتیں پوری کرنے آتے ہیں، عبادت کرتے ہیں، یاترا کرتے ہیں، یہی سب کچھ میں نے اپنے نگراں کو بتایا تھا۔

میرے تحقیقاتی کام کے نگران نے مجھے کہا کہ اس نئی معلومات کے بعد تحقیق صرف شہروں، دیہاتوں اور قصبوں تک محدود رکھنے سے تحقیق کی افادیت نہیں رہے گی۔ جب کام کر ہی رہے ہو تو پھر صوبے کو کنگھی کی طرح کھنگال دو تاکہ تمہارا مقالہ ایک کتاب بن جائے اور کتاب بھی ایسی کہ مستقبل میں اس کی حیثیت ایک ریفرنس کی کتاب کی طرح ہوجائے۔ کسی کو بھی مندروں کے بارے پتا کرنا ہوتو اسے تمہاری کتاب پڑھنی پڑے۔

مجھے بھی یہ بات پسند آئی تھی اور میں نے اپنے تحقیق کا دائرہ وسیع کردیا، میرا کام تو بڑھ گیا تھا مگر مجھے یہ تو اندازہ ہوگیا کہ مندروں کی اس حد تک تفصیل خودبخود میرے کام کو معتبر کردے گی مگر مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام اتنا مشکل ہوجائے گا اور مجھے کام مکمل کرنے میں اتنا وقت لگ جائے گا۔

ہندو مت دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے، کنفیوشس، گوتم بدھ اور زرتشت سے بھی بہت پہلے ہندو مت کے ماننے والے موجود تھے۔ وہ جہاں رہتے اپنے بھگوانوں، دیوتاؤں، دیویوں کی پوجا کرتے، ان کے لیے چھوٹے بڑے مندر بناتے، اپنے ہاتھوں سے اپنے دیوتاؤں کی تخلیق کرتے اور انہیں منج پر سنبھال کر بٹھاتے، ان کے سامنے دعائیں کرتے، نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ ان کا یہ قدیم مذہب فطرت کا مذہب ہے، فطرت کے لبادے میں، فطرت کے تجربات لیے ہوئے، فطرت کے خوف میں الجھا ہوا، اس کے تانے بانے ہزاروں سال سے موجود ہیں، اس میں زندگی امن سے گزارنے کا فلسفہ بھی ہے اور اپنے آپ کو تلاش کرنے کی چابی بھی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک اچھا ہندو صرف محبت ہی کرسکتا ہے۔

پاکستان میں بھی دور دراز گاؤں دیہاتوں، دریاؤں کے کنارے، چشموں کے ساتھ، اونچی پہاڑیوں، گھاٹیوں، درّوں، ندی کے بیچ، ساحلوں کے کنارے، آبشاروں کے ساتھ جہاں جہاں انسان پہنچا ہے وہاں مندروں کی تعمیر ہوئی ہے۔ کہیں چھوٹے مندر ہیں، کہیں بڑے مندر ہیں۔ کہیں صرف بھگوان کی مورت ہے، کہیں صرف پتھروں کا ڈھیر ہے۔

ان سارے مندروں کا جائزہ لینا آسان کام نہیں تھا۔ وقت لگ رہا تھا مگر کام اچھے طریقے سے ہورہا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بہت سارے مندروں کو گرادیا گیا، کہیں آگ لگا کر جلادیا گیا اورکہیں ان پر قبضہ کرکے مکان، دکان، تجارتی عمارت یا مسجد بھی بنادی گئی تھی۔ اسی طرح سے جیسے ہندوستان میں مسجدوں کو آگ لگادی گئی، ڈھادیا گیا اور مسجدوں کی جگہ یہ نئی عمارتیں کھڑی کردی گئیں تھیں۔ جس وقت میں یہ کام کررہا تھا اس وقت تو اِکّا دکّا ہی واقعات ہوئے تھے مگر آج کل یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی تھا۔ دونوں ممالک میں مسجدوں مندروں کو توڑنے، جلانے، ڈھانے کا جیسے مقابلہ شروع ہوگیا تھا۔ شکر ہے کہ میرا کام ایسے حالات سے پہلے ختم ہوگیا اور میرے مقالے کو تسلیم کرکے مجھے ماسٹرز کی ڈگری بھی مل گئی تھی۔

اسی زمانے میں مندر کی تلاش میں عظیم الشان صحرا کے بیچ و بیچ اس جگہ پر پہنچا جس کا نام بھرت گان تھا اور یہاں پر یہ چھوٹی سی دکان تھی جس کے مالک کا نام جگدیش تھا۔
یہ میرے کام کا آخری حصہ تھا۔ بلوچستان، پنجاب اور افغانستان کے ساتھ واقع سرحد کے صوبے میں اپنا سروے مکمل کرکے میں سندھ میں کام کررہا تھا۔ دوپہر کو جب چلچلاتی گرمی میں وہاں پہنچا تو میں سخت بخار میں مبتلا تھا۔ میرے سر میں شدید درد تھا، بخار اتنا تیز کہ مجھے کسی پل سکون نہیں مل رہا تھا۔ دِل کررہا تھا کہ کسی درخت کے نیچے بیٹھ جاؤں اور جان ہی چلی جائے۔
جگدیش بڑی مہربانی سے ملا، بخار کی شدت اور سردرد کے باوجود ہمت کرکے۔ میں نے اسے اپنے آنے کا مقصد بتایا تھا۔

اس نے کہا تھا کہ ”وہ مجھے مندر بھی دکھادے گا، اس کی تصویر بھی بنالینا اور مندر کے گروجی سے بھی مل لینا، ان سے بات چیت بھی ہوجائے گی۔ ‘‘ پھر اس نے کہا کہ ”مگر تمہیں تو سخت بخار ہے اور تم نے اگر اپنا علاج نہ کیا تو شاید یہیں مرجاؤ گے۔ ‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے یہ الفاظ ادا کیے تھے۔

جگدیش نے صحیح کہا تھا مجھے سخت قسم کا ملیریا ہوگیا تھا، شام تک سر کے درد سے میں بے حال ہوگیا۔ جگدیش نے اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں زمین کے اوپر ہی بستر لگادیا، اس کی بیوی نے میرے لیے پانی ابال کر دو ٹین کے جگوں میں رکھ دیا۔ جگدیش نے کسی کو بھیج کر بہت دور سے ملیریا کے علاج کے لیے کونین کی گولیاں منگوائی تھیں۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا ہوا گہری نیند سوگیا تھا۔

مجھے ہلکا سا یاد ہے کہ تیز بخار میں غنودگی کی حالت میں رات گئے اس نے مجھے اٹھایا، گرم گرم دودھ کے ساتھ کونین کی گولیاں اور کوئی اوردوا بھی دی تھی، پھر مجھے ہوش نہیں رہا تھا۔
صبح میری آنکھ کھلی تو میرا بخار تو کم تھا مگر میری طبیعت بالکل بھی صحیح نہیں تھی۔ جگدیش کا خاندان اور گاؤں کے لوگ میری دیکھ بھال کررہے تھے۔ پانچ دن کے بعد میں اس قابل ہوا تھا کہ سفر کرسکوں مگر جگدیش نے مجھے پانچ دن اور روکے رکھا تھا۔

میرے وہ پانچ دن عجیب و غریب گزرے۔ میں کراچی میں پلا بڑھا، پھر لندن جا کر تعلیم حاصل کررہا تھا، لندن یونیورسٹی سے مجھے وظیفہ ملا تھا، کراچی میں میرا کھاتا پیتا خاندان تھا میرے لیے لندن کی زندگی بھی آسان ہی تھی۔

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ غربت اس طرح سے بھی ہوسکتی ہے، لوگ اتنے بھی غریب ہوسکتے ہیں جہاں دکھ ایک مستقل سلسلہ ہوتا ہے اور ان کی زندگی اتنی دردناک ہوتی ہے۔ جگدیش کی شادی کو صرف چھ سال ہوئے تھے، پہلا بچہ پیدا ہوا تو ساتھ میں اس کی بیوی کو بلڈ پریشر بھی ہوگیا۔ بچہ پیدا ہوا اورپیدا ہوتے ہی مرگیا۔ بیوی کوخوفناک جھٹکے لگنے شروع ہوگئے، گدھا گاڑی پر پچاس میل دور ایک کمپاؤنڈر کے پاس لے جایا گیا جس کی دواؤں سے وہ صحیح تو ہوگئی مگر گھر میں جو کچھ بھی تھا بک گیا۔ جگدیش نے بڑی افسردگی کے ساتھ بتایاکہ اسے ایسا لگا تھا کہ جیسے وہ مرجائے گی مگر وہ مری نہیں تھی، بہت دنوں تک اپنے مرے ہوئے بچے کو یاد کرکرکے روتی رہی۔ پھر بھگوان کی مرضی سمجھ کر سب کچھ قبول کرلیا۔

میں نے سوچا کہ بھگوان کتنا ضروری ہے، اگر بھگوان نہ ہو اوراس کی مرضی پر بھروسہ نہ ہو تو غریب کیا کرے گا۔ ‘‘ میں نے دِل ہی دِل میں بھگوان کا شکریہ ادا کیا تھا جب تک غربت ہے، جب تک نا انصافی ہے، جب تک ظلم ہے، زیادتی ہے، بیماری ہے اور بیماری سے موت ہے، تب تک بھگوان بہت ضروری ہے، بہت ضروری!

تین سال کے بعد جگدیش کے گھر دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔ جگدیش احتیاط کے خیال سے حمل کے آخری دنوں میں اپنی بیوی آشا کو لے کر شہر چلا گیا، جہاں سب کچھ صحیح طریقے سے ہوگیا اوروہ دونوں خوشی خوشی اپنے بیٹے کو لے کر گاؤں آگئے۔ دو ہفتے کے بعد اس کے بیٹے کو دست آنا شروع ہوگئے۔ مندر کے پجاری اور گاؤں کے بڑے بوڑھوں کے علاج کی ناکامی کے بعد وہ دونوں اپنے بچے کو بس میں لے کر شہر آگئے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک کے اوپر رینگتی، ہچکولے کھاتی بس میں شہر پہنچنے سے پہلے ہی اس کے بچے کی جان چلی گئی تھی۔ وہ سڑک ایسی ہی تھی اس پر تو صحت مند آدمی بھی ہچکولے برداشت نہیں کرسکتا تھا، وہ بچہ تو بیمار تھا۔

زندگی میں بہت دکھ ہیں جگدیش نے مجھ سے کہا تھا۔ اس کہانی کو سن کر میرے بھی آنسو نکل آئے تھے۔ بس بھگوان کسی بات پر ناراض تھے، نہ انہوں نے میری پراتھنا سنی، نہ ہی انہیں میری بیوی کے آنسو مناسکے اور نہ ہی مندر کے پجاری کی منتوں نے رام کو رام کیا۔ بھگوان بھی ضرورت مندوں کا ہی امتحان لیتا ہے، غریب کو ہی آزماتا ہے۔ بھگوان کے اپنے ڈھنگ ہیں جنہیں بھگوان ہی سمجھتا ہے۔

ان دونوں سے میری دوستی بڑھتی چلی گئی۔ دس دن میں میں جیسے ان کے خاندان کا فرد بن گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا یہ چھوٹا سا مندر کئی سو سال پرانا ہے اور دور دور سے یاتری یہاں آتے ہیں مگر راستہ خراب ہونے کی وجہ سے یہاں آنا بہت مشکل ہے۔

دونوں میاں بیوی مذہبی تھے، گھر میں بھگوان کی مورت تھی اور روزانہ مندر میں گھنٹہ بجا کر وہ عبادت کرتے اور سکون سے رہنے کی کوشش کرتے تھے، بھگوان نے انہیں صبر جی بھر کے دیا تھا۔ دس دن گزار کر میں شکریہ ادا کرتے ہوئے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ وہاں سے آگے کی جانب رخصت ہوگیا تھا۔ انہوں نے ہی مجھے آگے کے دس بارہ مندروں کے بارے میں بتایا تھا اور مجھے ایسے رخصت کیا جیسے میں ان کے خاندان کا فرد ہوں۔

مجھے کام ختم کرنے میں تقریباً دس روز اور لگ گئے تھے۔ واپسی میں پھر ایک رات بھرت گان میں رہا۔ جگدیش، اس کی بیوی اور گاؤں والوں نے میری بڑی خاطر کی۔ غریب لوگوں سے جو بھی ہوسکتا تھا انہوں نے کیا۔ دال، سبزی اور گرما گرم روٹیاں اور اچھی سی نیند۔ مجھے تو ایسی ہی رات ملی تھی جیسے کسی بڑے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ ان کی تھوڑی بہت مالی مدد کروں مگر انہوں نے بڑی سادگی سے منع کردیا تھا یہ تو ایسا ہے جناب جیسے آپ معاوضہ دے رہے ہو۔ وہ غریب لوگ تھے، ان کے دِل بڑے تھے اور ان کے دِل کا دروازہ ایک اجنبی غیر ہندو کے لیے بھی کھلا ہوا تھا، بغیر کسی نفرت کے۔ انہوں نے جیسے مجھے خریدلیا تھا۔

دو سال بعد میں یہاں دوبارہ پھر آیا میری ماسٹرز مکمل ہوگئی تھی، لندن میں میرے پاس اچھی نوکری تھی اور میں اپنے ماں باپ سے ملنے آیا تھا۔ میں نے لندن سے نکلتے ہوئے جگدیش اس کی بیوی کے لیے سوئٹر، کمبل، قمیضیں خریدیں، مندر کے پجاری اور گاؤں کے چار پانچ لوگوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ لے لیا اور کراچی سے ایک دوست کے ساتھ دوبارہ بھرت گان پہنچ گیا۔

وہی ٹوٹی پھوٹی سڑک، بارشوں کی ماری ہوئی اور سیلابوں سے بہی ہوئی، کھنڈروں کے درمیان سے ہوتے ہوئے جب ہم وہاں پہنچے تو جگدیش اورآشا نے کھلے بانہوں اور پیار بھرے دِل کے ساتھ میرا استقبال کیا، بڑی محبت سے ملے اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر خاطر کی۔
میرے تحفوں کو انہوں نے پسند کیا۔

گاؤں کا وہی حال تھا، وہی غربت، وہی موت کے اندھیرے، وہی دور دراز سے لایا ہوا پانی، وہی خشک کنواں اور وہی بارشوں کے بعد ہونے والی فصل پر دارومدار۔ جگدیش کی چھوٹی موٹی سی وہی دکان تھی، آتے وقت میں نے اسے لندن کا فون نمبر اور کراچی میں اپنے والدین کا نمبر دیا کہ اگر کبھی میں اس کے کام آسکوں تو وہ مجھے ضرور یاد رکھے۔

پھر میں کراچی آکر لندن واپس چلا گیا۔ تین سال کے بعد میری واپسی شادی کے لیے ہوئی، میری خواہش تھی کہ دوبارہ بھرت گان جاؤں مگر شادی کی گہماگہمی میں بھرت گان جانا ممکن نہیں ہوسکا۔
لندن واپس پہنچنے کے ایک سال کے بعد ابّا جان سے فون پر بات کررہا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ بھرت گان سے جگدیش نے انہیں فون کیا اور اپنا فون نمبر دیا تھا، اسے بہت خوشی ہوئی تھی کہ میری شادی ہوگئی ہے۔ میں نے اسے فوراً ہی فون کیا۔ اس کی آواز میں مجھے ایک اعتماد سا محسوس ہوا۔ اس نے بتایا کہ ان کے گاؤں سے گزرنے والی سڑک بن گئی ہے، ڈامر والی پکی پختہ چمچاتی سڑک اور یہ پکی سڑک بننے سے صحرا کا رابطہ سارے بڑے شہروں سے ہوگیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے دکان بڑی کرلی ہے اورکوئی کمپنی والے اس کی دکان کے ساتھ پیٹرول پمپ بنارہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ آشا بہت خوش ہے اور اسے بچہ ہونے والا ہے۔

مجھے بھی بڑی خوشی ہوئی اور میں نے وعدہ کیا کہ اگلی دفعہ کراچی آؤں گا تو اس سے ملنے ضرور آؤں گا۔ پھر دیکھتے دیکھتے چار سال گزرگئے۔ جگدیش سے میں فون پر بات کرتا رہا۔ وہ بیچ میں دو تین دفعہ کراچی میرے والدین سے ملنے آیا۔ مجھے لگا کہ اس کے معاشی حالات کافی درست ہوگئے ہیں۔

اگلی دفعہ جب میں کراچی آیا تو میں اس سے ملنے بھرت گان چلا گیا۔ میری بیوی کو صحرا میں جانے کا کوئی شوق نہیں تھا، وہ دونوں بچوں کے ساتھ میکے میں رہنا چاہتی تھی جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔

بھرت گان کا راستہ بہت اچھا ہوگیا تھا، نو گھنٹے میں طے ہونے والا سفر چار گھنٹے میں پورا ہوگیا۔ جگدیش کا پیٹرول پمپ ڈامر سے بنائی ہوئی پکی سڑک پر دور سے نظرآگیا۔ گاؤں میں کئی پکے مکان نظر آرہے تھے اور دور سے ہی پتا لگتا تھا کہ وہاں ایک بڑا سا مندر بھی ہے۔

جگدیش پیٹرول پمپ پر ہی مل گیا، جہاں وہ اپنے بڑے سے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا جہاں پنکھا بھی تھا اورایئرکنڈیشنر بھی لگا ہوا تھا۔ باتوں کے دوران جب بجلی چلی گئی تو جنریٹر کے چلنے کی بھی آواز آنا شروع ہوگئی، مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ جگدیش کی زندگی میں بڑی تیزی سے اچھی تبدیلی آگئی ہے۔ آخر کار بھگوان کو جگدیش پر رحم آگیا تھا۔

ہم لوگ اس کے ساتھ ہی اس کے گھر گئے، اس نے اچھا سا گھر بنالیا تھا جہاں آشا اپنے بیٹے اوربیٹی کے ساتھ موجود تھی۔ وہ سب بڑے محبت سے ملے۔ ہم لوگوں کو اچھا سا کھانا کھلایا اور رات گئے تک باتیں کرتے رہے۔

انہوں نے بتایا کہ گاؤں کی زندگی بدل گئی ہے، مندر بڑا ہوگیا ہے، گاؤں کے ساتھ ساتھ پکی سڑک پر تین ہوٹل بن گئے ہیں۔ آشا نے بتایا کہ جگدیش کا کام بھی بہت اچھا ہوگیا ہے کیوں کہ روڈ کے ساتھ ہی جگدیش کے بابا دادا کی زمین تھی جس پر پیٹرول پمپ بنا ہے اور اسی زمین کو کسی نے خرید کر وہاں ہوٹل بھی بنالیا ہے۔

میں نے حیرت سے پوچھا کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں کون آتا ہے جس کے لیے ہوٹل بنانے کی ضرورت پیش آگئی۔
جگدیش نے بتایا کہ روڈ بننے کے بعد سے دور دور سے یاتری اس سینکڑوں سال پرانے مندر کو دیکھنے آتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں۔ اب ہر سال یاتریوں کا میلہ ہونے لگا ہے اور ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش سے بھی یاتری آنے لگے ہیں۔ بہت رش ہوتا ہے جناب میلے کے دنوں میں، قسمت بدل گئی ہے ہم لوگوں کی۔

میں نے کہا کہ صبح جانے سے پہلے مندر دیکھنے جائیں گے تو جگدیش نے کہا کہ ضرور جائیں گے، جسے سن کر آشا کو ہنسی آگئی۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھا تو اس نے کہا کہ جگدیش اب اس بہانے سے ہی مندر چلے جائیں گے۔ وہ پھر ہنس دی تھی۔

دوسرے دن ناشتہ کرکے ہم لوگ مندر چلے گئے۔ پرانے ٹوٹے پھوٹے مندر کی جگہ پر اب ایک بڑی سی عمارت تھی۔ پرانے مندر کی دیواروں کے ساتھ خوبصورتی سے چنائی کرکے مندر کو اونچا کردیا گیا تھا۔ مندر کے چاروں طرف دکانیں بن گئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے مندر پر اچھا خاصہ پیسہ خرچ کیا گیا ہے۔ مندر کے پجاری بھی وہی پرانے والے تھے جو بہت اچھے سے ملے مگر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ جگدیش سے ناراض سے ہیں۔ میں نے اس وقت کچھ بھی نہیں کہا۔

پیٹرول پمپ پہنچ کر ہم لوگ جگدیش کے کمرے میں بیٹھے ہوئے واپسی سے پہلے چائے پی رہے تھے تو مجھے یاد آگیا، میں نے اس سے پوچھا کہ مندر کے پجاری اس سے ناراض سے کیوں لگ رہے تھے؟

وہ ہنس دیا تھا، ہاں وہ مجھ سے ناراض ہیں کیوں کہ میں نے مندر جانا چھوڑدیا ہے۔
اچھا تم نے مندر جانا چھوڑدیا ہے مگر کیوں؟ تم تو بڑے بھگوان کی سیوا کرنے والے آدمی ہوتے تھے، میں نے حیرت سے پوچھا۔
ہوتا تھا، اب نہیں ہوں اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

کیا مطلب ہے تمہارا، کیا تم نے پوجا پاٹ سب کچھ چھوڑدیا ہے۔ یہ تو میں پہلی دفعہ سن رہا ہوں۔ مسلمان ہوگئے ہو کیا۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
نہیں مسلمان تو نہیں ہوا مگر دیوتا بدل گیا ہے۔ اسی بدلے ہوئے دیوتا کی پوجا کرتا ہوں۔ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ مگر وہ مندر میں نہیں ہے لہٰذا مندر بھی نہیں جاتا ہوں۔ اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔

میں اسے حیرت سے دیکھ ہی رہا تھا۔ تو اس نے پیچھے کی دیوار کی طرف اشارہ کیا جہاں اس کے سر کے اوپر ایک بڑی سی تصویر تھی جس میں ایک کالی سیاہ چمکتی بل کھاتی ہوئی سڑک صحرا سے گزرتی ہوئی دور تک جاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔

میں اب اس سڑک مہاراج کی پوجا کرتا ہوں، یہ روڈ میرا دیوتا ہے۔ میرے لیے تو یہی سڑک، یہی روڈ، یہی پکا راستہ ہی دیوتاؤں کا دیوتا اور مہاراجوں کا مہاراج ہے۔
میں اور میرا دوست اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ سانس لینے کے لیے رکا اور پھر بولنے لگا۔

صدیوں سے اس صحرا کے اس چھوٹے سے گاؤں میں اس سینکڑوں سال پرانے مندر کے دیوی دیوتاؤں کے ساتھ رہتے ہوئے ہم لوگوں کو کچھ نہیں مل رہا تھا۔ بچہ جننے کے دوران ہماری عورتیں مرجاتی تھیں اور ہم ان کی لاشوں پر بین کرتے رہتے تھے۔ میرے دو بچوں کی طرح یہاں کے سینکڑوں بچے دست اور الٹیاں کرتے ہوئے کھائیوں اور پتھریلی اکھّڑ بکھڑ راستوں میں سفر کے دوران ہی بھگوان کے پاس چلے گئے، ہنگامی صورت میں نہ جانے کتنے ہمارے پیارے ان پرانے راستوں سے ہوتے ہوئے علاج کے لیے شہر پہنچ ہی نہیں سکے اور راستے میں جان دے دی مگر جب سے یہ پکی سڑک مہاراج میرے روڈ دیوتا ہمارے گاؤں آئے ہیں میں امیر ہوگیا ہوں۔ پیٹرول پمپ کا مالک بن گیا ہوں، میرے دونوں بچے بیمار پڑے تو اس سڑک پر تیزی سے چلتے ہوئے ہم لوگ بہت جلدی شہر کے ہسپتال پہنچ گئے، جہاں ان کی جان بچ گئی۔ اور تو اوراس روڈ دیوتا سڑک بھگوان کی وجہ سے اب سارے پاکستان، ہندوستان اور دیگر ممالک سے یاتری یہاں آرہے ہیں جو ہمارے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں، دکانوں سے خریداری کرتے ہیں، ان کی وجہ سے ہماری عورتوں کو دستکاری کے پیسے ملتے ہیں، گاؤں میں قالین بنی جانے لگی ہے اور بک رہی ہے۔ ان مہاراج کی وجہ سے مندر میں رونق ہوگئی ہے، لوگوں کو روزگار ملا ہے۔

گاؤں اب قصبہ بنتا جارہا ہے۔ لوگ اسکول کھولنا چاہتے ہیں، خوشحال ہورہے ہیں، میں، میری بیوی، میرے بچے، میرا گھر، میرا گاؤں، میرے گاؤں کے لوگ سب پر روڈ دیوتا سڑک مہاراج کی بڑی مہربانی ہے۔ مہان ہے یہ سڑک اور مہان ہے روڈ مہاراج یہ سڑک دیوتا۔
یہ کہہ کر وہ اٹھا تھا، صحرا میں لہراتی بل کھاتی گھومتی گھامتی کالی سیاہ چمکیلی سڑک کی تصویر کے آگے سرجھکادیا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).