مشہور فراڈیے: رقم ڈبل کرنے والی پونزی سکیم


آپ نے پاکستان میں ہونے والے ایسے فراڈ کے بارے میں پڑھا ہو گا جس میں کوئی شخص بہت زیادہ منافع کا لالچ دے کر بہت سے لوگوں کو لوٹ لیتا ہے اور چمپت ہو جاتا ہے۔ حالیہ عرصے میں ڈبل شاہ اور مضاربہ سکینڈل اس کی مثال ہیں۔ اس طریقے سے لوگوں کو لوٹنے کو پونزی سکیم کہتے ہیں۔ گو کہ فراڈ کی یہ سکیم پہلے بھی چھوٹے پیمانے پر استعمال کی جاتی رہی تھی لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں چارلس پونزی نے اسے اوج کمال پر پہنچایا اور یوں اس سکیم کو پونزی کے نام سے موسوم کیا گیا۔

اس سکیم میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ آپ سے کوئی امیر دکھائی دینے والا شخص ملتا ہے۔ آپ کو بتاتا ہے کہ اس کی خوشحالی کا راز اس کی سرمایہ کاری کی صلاحیت ہے۔ لمبی کہانی ڈالنے کے بعد وہ آپ کو اس بات پر قائل کر لیتا ہے کہ اگر آپ اسے ایک لاکھ کی رقم دیں تو وہ اس پر پچیس ہزار یا پچاس ہزار ماہانہ منافع دے گا، اور آپ کسی بھی وقت اس سے اپنی تمام رقم واپس لے سکتے ہیں۔ آپ رقم دے دیتے ہیں۔ واقعی اگلے مہینے آپ کو طے شدہ منافع مل جاتا ہے۔ آپ اس سرمایہ کاری سے بہت خوش ہوتے ہیں اور منافع بھی اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ اسے بھی ڈبل کر دو۔ ہر مہینے آپ کو سٹیٹمنٹ مل جاتی ہے کہ اب آپ کی کل رقم دگنی چوگنی ہو گئی ہے۔ آپ نہایت خوش ہو کر اپنے جاننے والوں کو پیسے کمانے کا یہ آسان طریقہ بتاتے ہیں۔ وہ سب بھی پیسے اس شخص کے حوالے کر دیتے ہیں۔

یہ امکان رہتا ہے کہ کچھ لوگ ماہانہ منافع وصول کریں گے، یا اصل رقم واپس لے لیں گے۔ یہ منافع یا اصل رقم وہ فراڈیا آپ کو بلا حجت دے دیتا ہے۔ وہ یہ رقم کسی کاروبار سے نہیں کماتا۔ بلکہ دوسرے لوگوں نے جو پیسہ انویسٹ کرنے کے لئے دیا ہوتا ہے اس میں سے یہ پیسے نکال کر دیتا ہے۔ یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ پہلے لیول کے تمام لوگ اپنی تمام رقم واپس لے لیں گے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان لوگوں کے توسط سے دوسرے لیول کے لوگ گھیرے جائیں جن کی رقم پہلے لیول والوں سے دگنی ہو۔ اس کے بعد تیسرے لیول کے لوگ جن کی رقم دوسرے لیول سے دگنی ہو اور یہ سلسلہ کچھ عرصے کامیابی سے چلتا رہتا ہے۔ ایک سٹیج پر جا کر مزید لوگ آنے بند ہو جاتے ہیں تو فراڈیا تمام رقم سمیٹتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے اور انویسٹر لالچ کی سزا پا لیتے ہیں۔

چارلس پونزی 1882 میں اٹلی کے شہر پارما میں پیدا ہوا۔ وہ 1903 میں امریکی شہر بوسٹن پہنچا۔ وہ بتاتا ہے کہ راستے میں بحری جہاز پر جوئے میں اس نے اپنی تمام رقم ہار دی تھی اور جب وہ امریکہ اترا تو اس کی جیب میں صرف ڈھائی ڈالر باقی بچے تھے۔ امریکہ میں اس نے چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ 1907 میں وہ کینیڈا چلا گیا اور مانٹریال میں ایک بینک میں جاب شروع کر دی۔ بینک کا دیوالہ نکل گیا تو پونزی دانے دانے کو محتاج ہو گیا۔ اس نے ایک چیک کے ذریعے فراڈ کرنے کی کوشش کی مگر پکڑا گیا اور تین سال کے لئے جیل چلا گیا۔ جیل سے باہر نکل کر اس نے اطالوی باشندوں کو امریکہ سمگل کرنے کا کام شروع کیا۔ دوبارہ پکڑا گیا اور اٹلانٹا کی جیل میں دو برس تک رہا۔

1918 میں وہ بوسٹن واپس آیا۔ شادی کی۔ اور یہاں فراڈ کی اس بدنام زمانہ سکیم کا جنم ہوا جسے پونزی سکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ اسے سپین کی ایک کمپنی سے ایک خط ملا جس میں انٹرنیشنل ریپلائی کوپن تھا جس کے بدلے امریکی ڈاک کے ٹکٹ حاصل کیے جا سکتے تھے۔ اس زمانے میں یہ کوپن مختلف ممالک کے محکمہ ڈاک جاری کیا کرتے تھے۔ تو ایسا ممکن تھا کہ ایک سستے ملک اٹلی میں پانچ سینٹ میں خریدے گئے کوپن کے بدلے جب امریکہ جیسے امیر ملک کے ڈاک ٹکٹ لئے جائیں تو ان کی مالیت بیس سینٹ ہو۔ پونزی نے دوسرے ممالک سے یہ کوپن خرید کر امریکہ میں بیچنے شروع کر دیے۔ بعض روایات کے مطابق پونزی نے اس طرح اصل رقم سے چار گنا زیادہ منافع بھی کمایا۔

پونزی نے ”سیکیوریٹیز ایکسچینج کمپنی“ کے نام سے اپنی کمپنی بنا لی اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ڈیڑھ مہینے میں پچاس فیصد یا تین مہینے میں سو فیصد منافع دینے کا لالچ دے کر ان سے پیسے لینے شروع کیے۔ پونزی نے سرمایہ کاروں کو یہ یقین دلایا کہ وہ دوسرے ممالک میں اپنے ایجنٹس کو رقم بھیجتا ہے اور وہ اسے ان ممالک سے ڈاک کے کوپن خرید کر اسے بھیجتے ہیں جن کے بدلے پونزی امریکی ڈاک ٹکٹ حاصل کر کے بہت زیادہ منافع پر بیچتا ہے۔ پونزی نے ابتدائی سرمایہ کاروں کو نہایت ایمانداری سے منافع دیا اور مطالبے پر اصل رقم بھی واپس کی۔ پونزی کی شہرت پھیلنے لگی۔

فراڈ کی یہ سکیم بے انتہا کامیاب رہی۔ فروری 1920 میں پونزی نے پانچ ہزار ڈالر منافع کمایا۔ مارچ میں یہ منافع تیس ہزار ڈالر ہو گیا۔ مئی میں یہ سوا چار لاکھ ڈالر ہو چکا تھا۔ ایک ایسا وقت آیا جب چارلس پونزی اس طرح ایک دن میں ڈھائی لاکھ ڈالر کما رہا تھا۔ آج کے حساب سے یہ تقریباً 33 لاکھ ڈالر روزانہ بنتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو وہ ڈاک کے ذریعے ان کی سٹیٹمنٹ بھیجتا تھا کہ تمہاری رقم دن دگنی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ پونزی نے محل نما رہائش گاہ خریدی اور بادشاہوں جیسی زندگی گزارنے لگا۔

چارلس پونزی کا گھر

چارلس پونزی کی یہ شرح منافع دیکھ کر کلیرنس بیرن نامی ایک صحافی کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی۔ بیرن کو جدید معاشی صحافت کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ وہ ڈاؤ جونز اینڈ کمپنی کا صدر اور وال سٹریٹ جنرل کا چلانے والا شخص بھی رہا ہے۔ کلیرنس بیرن نے سوال اٹھائے کہ کتنی مالیت کے کوپن اتنا منافع دے سکتے ہیں جتنا پونزی بتا رہا ہے۔ پورے کے پورے بحری جہاز بھی بھر کر لائے جاتے تو اتنے کوپن نہ بنتے۔ نہ ہی اتنے کوپن سرکولیشن میں تھے۔ پھر بیرن نے یہ بھی پوچھا کہ پونزی اگر دوسروں کو انویسٹ کرنے پر پچاس فیصد تک کا منافع دیتا ہے، تو خود اپنی رقم مروج سرمایہ کاری میں کیوں لگاتا ہے جو بمشکل پانچ فیصد سالانہ منافع دیتی ہے۔

بیرن کی رپورٹ میں اعداد و شمار بھی تھے اور عقل سلیم میں آنے والے چبھتے ہوئے سوالات بھی۔ لیکن پونزی ایسا جادو بیان تھا کہ لوگوں نے بیرن کی رپورٹ پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔ پونزی کے سرمایہ کاروں کو اس کے درست ہونے پر سو فیصد یقین تھا۔ بلکہ جس دن بیرن کی رپورٹ شائع ہوئی اس دن پونزی کا نام ایسا پھیلا کہ لوگ اس کے دفتر کے باہر لمبی قطاریں بنائے دکھائی دیے تاکہ پونزی کو مزید پیسے دے سکیں۔ پونزی نے بعد میں بتایا کہ صرف اس دن اس نے دس لاکھ ڈالر (آج کل کے حساب سے سوا کروڑ ڈالر) کی نئی سرمایہ کاری حاصل کی۔

لیکن پونزی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ معاملہ گڑبڑ ہو رہا ہے۔ اس نے پبلک ریلیشننگ کے لئے ولیم میکماسٹر نامی ایک شخص کو ٹھیکہ دیا لیکن ولیم کو اندازہ ہو گیا کہ یہ سب کچھ ایک بڑے فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس نے کام کرنے سے انکار کیا اور ایک پریس ریلیز میں چارلس پونزی کے متعلق اپنا بیان دیا۔ اس نے بتایا کہ پونزی اس وقت تقریباً دو ملین ڈالر کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔

اگلے مہینے وفاقی حکام نے پونزی کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ انہیں پوسٹل کوپن کی کوئی خاص تعداد نہیں ملی۔ کیونکہ پونزی نے ڈاک کے ذریعے اپنے کلائنٹس کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے تو اس پر ڈاک کے ذریعے فراڈ کے 86 الزامات عائد کیے گئے۔ حکام سے ڈیل کے نتیجے میں پونزی نے ان میں سے ایک الزام پر اقرار جرم کر لیا اور پانچ برس کی سزا پائی۔

ساڑھے تین برس بعد اس کی ضمانت ہوئی تو 1922 میں میساچوسٹس کا ریاستی مقدمہ قائم ہوا۔ اس پر دھوکہ دہی کے دس جرائم پر مقدمہ چلایا گیا۔ پونزی کے پاس پیسہ نہیں تھا، اس نے خود اپنا مقدمہ لڑا اور بے مثال چرب زبانی سے جیوری کو قائل کر لیا کہ وہ معصوم ہے۔ ریاست ہکی بکی رہ گئی۔ اب پونزی پر فراڈ کے پانچ مزید الزامات پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس مرتبہ بھی چرب زبانی نے ساتھ دیا اور جیوری ففٹی ففٹی کی تقسیم سے سزا دینے میں ناکام رہی۔ تیسرے مقدمے میں اسے نو برس سزا ہو گئی۔

سنہ 1925 میں پونزی نے اپنی سزا کو چیلنج کر دیا تو اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ وہ میساچوسٹس سے فرار ہو کر فلوریڈا چلا گیا اور ادھر ایک نئی کمپنی بنا کر لوگوں کو اس وعدے پر زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بیچنے لگا کہ ان کی قیمت دو مہینے میں ڈبل ہو جائے گی۔ ان میں سے کچھ ٹکڑے دلدل میں واقع تھے اور کچھ پانی کے نیچے۔ دوبارہ پکڑا گیا اور ایک سال کی سزا ہوئی۔ پندرہ سو ڈالر کی ضمانت دے کر باہر آیا اور فرار ہو گیا۔ اس نے حلیہ بدل کر بحری جہاز کے ذریعے اٹلی فرار ہونے کی کوشش کی مگر پکڑا گیا اور اسے میساچوسٹس میں بقیہ سات سال کی سزا کاٹنے بھیج دیا گیا۔

قید خانے میں بھی پونزی کو ان معصوم انویسٹرز کی طرف سے کرسمس کارڈ ملتے رہے جنہیں وہ فراڈ کا نشانہ بنا چکا تھا۔ بلکہ کئی تو اس سے اب بھی یہ درخواست کر رہے تھے کہ وہ ان کی رقم کو اپنی سرمایہ کاری میں استعمال کرے۔

اس دوران یہ پتہ چلا کہ 1903 سے امریکہ میں رہنے کے باوجود پونزی نے امریکی شہریت حاصل نہیں کی تھی۔ اسے سنہ 1934 میں اٹلی ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ اٹلی میں بھی اس نے فراڈ کرنے کی کوششیں کیں مگر اٹلی کے لوگ سیانے نکلے، وہ اس کے جھانسے میں نہ آئے۔ پونزی نے اطالوی ائیرلائن میں ملازمت حاصل کی اور برازیل میں بطور ایجنٹ چلا گیا۔ اسی اثنا میں دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور ائیرلائن کا دفتر بند کر دیا گیا۔

سنہ 1941 میں پونزی کو دل کا دورہ پڑا جس کے بعد اس کی صحت نہایت خراب ہو گئی۔ 1948 تک وہ تقریباً اندھا ہو چکا تھا اور فالج کے نتیجے میں اس کے جسم کا دایاں حصہ مفلوج ہو گیا تھا۔ جنوری 1949 میں چارلس پونزی نے ریو ڈی جنیرو کے ایک خیراتی ہسپتال میں وفات پائی اور اسے لاوارثوں کی طرح دفن کیا گیا۔ لیکن اس کا نام اس کی فراڈی سکیم کی وجہ سے دنیا بھر میں زندہ ہے۔

عدنان خان کاکڑ
  • مشہور فراڈیے: رقم ڈبل کرنے والی پونزی سکیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar