میں نے کامریڈ جام ساقی کے اندر انقلاب ڈوبتا دیکھا


بہت بہت پرانے دنوں کی بات ہے۔ ابھی ضیاء دور کے سیاہ سائے سندھ کی زمین پر اترے نہ تھے۔ بھٹو حکومت کا ابتدائی دور تھا اور میں نے بھی شعور کی نئی نئی آنکھ کھولی تھی ابھی۔ گو کہ بھٹو کی جدوجہد کے زمانے کی شعور کی آنکھ سے عینی گواہ نہ تھی میں، مگر بھٹو کے معروف نعرے اور وعدے، روٹی کپڑا اور مکان کے وفا نہ ہونے پر شور مچایا کرتی تھی اور بابا سے لڑا کرتی تھی کہ آپ اپنی زمین ہاریوں میں بانٹ دیں۔ ساتھ ہی اپنا کمیونزم اور مارکسزم ان کے سامنے بگھارا کرتی تھی اور وہ قہقہے لگا کر میری باتوں پر ہنسا کرتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب روس کا طوطی بولتا تھا۔ وہ ترقی پسند ادیب ہی کیا جو روسی ادب سے متاثر نہ ہو! وہ بندہ بشر کیا جو مارکس اور لینن کا مداح نہ ہو! مجھ پر بھی انقلاب کا خواب سوار تھا ان دنوں۔ سندھی سماج میں انقلاب کا خواب۔ سندھ کے جاگیردارنہ نظام میں انقلاب کا خواب۔ ہاری جو زمین کاشت کرتا ہے، زمین اس کی ہے، کا خواب۔

اسی ابتدائی ذھنی سفر میں کچھ آگے چل کر سنا کہ ایک کامریڈ جام ساقی نام کا بندہِ خدا ہوتا ہے جو یا تو زیرِ زمیں رہتا ہے یا پھر جبر کے قید خانوں میں۔ کمیونسٹ ورکر ہے۔ ملحد ہے۔ ضدی ہے۔ جھکتا نہیں۔ بِکتا نہیں۔ کمیونسٹ روس کا ہم نوا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

پتہ نہیں کیوں مجھے یقین تھا کہ اس کی شکل گورکی سے ملتی ہوگی! گرمیوں میں بھی وہ لمبا گرم کوٹ پہنتا ہوگا۔ گلے میں مفلر۔ سر پر ماؤ کیپ۔ روسی زبان بولتا ہوگا اور گوڈوں گوڈوں برف میں لانبے لانبے ڈگ بھر کر چلتا ہوگا!

ضیاء کا آسیب زمین پر اترا تو انقلاب،احتجاج اور مزاحمت آدمی کا کیسے اضطراب بنتی ہے، سمجھ میں آیا۔ شہر کی دیواروں پر کبھی زیادہ اور کبھی کم لکھا نظر آتا رہتا کہ کامریڈ جام ساقی کو رہا کرو۔ تیرا ساتھی میرا ساتھی، جام ساقی جام ساقی۔ جبر کے قید خانوں میں کامریڈ جام ساقی پر تشدد کی کہانیاں سننے کو ملتی تھیں کہ وہ پھر بھی جھکتا نہیں۔ ڈٹا ہوا ہے اپنے نظریے پر۔

اس تمام عرصے سے گزرتے ہوئے میں بھی اپنا احتجاج اور مزاحمت سندھی میں کہانیوں کی صورت رقم کر چکی تھی۔ پھر ایک دن ضیاء فضا میں ریزہ ریزہ ہوگیا۔ 90 کی دہائی کے بلکل ہی ابتدائی زمانے میں ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ فون کے اُس طرف سندھی زبان بولتی ایک آواز سنائی دی۔ بھاری مگر جلدی جلدی بولتی آواز۔ ہیلو بی بی! میں جام ساقی بول رہا ہوں ۔۔۔۔۔ جواب میں میں دھک سے رہ گئی دوسری طرف انداز میں ایسی بے تکلفی جیسے برسوں سے جان پہچان ہو! کل پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ایک پروگرام رکھا ہے تبادلۂ خیال کا۔ آپ کو آنا ہے۔

میں بھی پہنچ گئی انقلاب برپا کرنے کے شوق میں۔ گو کہ میرا کمیونزم اور مارکسزم سے عشق شروع جوانی میں پہلی نظر کے عشق کی طرح جھاگ بن کر بیٹھ چکا تھا مگر سندھی سماج میں انقلاب کی خواہش جوں کی توں موجود تھی۔ ہال میں ایک شخص سندھی میں بھلی کرے آیا کہتے ہوئے چھوٹے سے اسٹیج سے اتر کر میری طرف لپک کر آیا۔ اس نے یوں تعارف نہیں کروایا جیسے یہ طے تھا کہ میں اسے اور وہ مجھے پہچانتا ہی ہے!

بھاری بھرکم سا جسم۔ سادہ سی اور کئی بار کی دھلی ہوئی سفید شلوار قمیص میں ملبوس۔ اجرک کندھوں کے گرد لپیٹے ہوئے۔ سندھی ٹوپی سر پر۔ سیاہ و سفید بالوں سے بھری بے ترتیب مونچھیں جو ہونٹوں کو بھی ڈھکے ہوئے تھیں۔ میں کھڑی سوچتی رہ گئی کہ یہ تو پورا سندھی ہے! مگر مونچھیں تو روسی ہیں! میں نے دل ہی دل میں خود کو تسلی دی۔ ویسے بھی یہ وہ زمانہ تھا جب روس کی اپنی مونچھیں تقریباً جھڑ چکی تھیں اور اب صرف مرقد پر فاتحہ خوانی کا دور چل رہا تھا۔

کامریڈ جام ساقی مجھے سیدھا اسٹیج کی طرف لے آیا۔ پہلے زاہدہ حنا سے ملوایا۔ زاہدہ حنا سے بھی وہ پہلی ملاقات تھی اور زاہدہ نے خود سے یوں لپٹا لیا مجھے جیسے گورکی کی ماں! پھر پروفیسر جمال نقوی سے ملوایا۔ پورے کے پورے روسی! گرم لباس میں ملبوس، جیسے چیخوف! جمال نقوی صاحب نے میرا ہاتھ کتنی دیر تک تھامے رکھا۔ جیسے روحانیت سے لبریز بزرگ اپنا روحانی علم جوان معتقد کو منتقل کررہا ہو! بولے جو کام کر رہی ہو، اس سے پیچھے مت ہٹنا۔

اُف پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے وہ تین برگد نما درخت! جو کمیونزم کے زوال کے دنوں کی کڑی دھوپ میں بدستور گھنی چھاؤں کے ساتھ کھڑے تھے۔ مگر کامریڈ جام ساقی پورا سندھی نکلا! جیسے قلندر کا فقیر! جیسے شاہ لطیف کا مجاور! جیسے سچل کا مست!

یہاں سے میری اور کامریڈ جام ساقی کی دوستی کی ابتدا ہوئی۔ اکثر وہ میرے گھر چلا آتا۔ فون کرتا اور پوچھتا کہ کافی ملے گی؟ جام ساقی کی وجہ سے مجھے حیدرآباد کے شدید گرم دنوں میں بھی کافی رکھنی پڑتی تھی۔ آتا بھی اکثر بھری دوپہر۔ کافی کے ساتھ ساتھ وہ پائپ سلگاتا اور کافی کی بھاپ اور تمباکو سے اٹھتے دھویں کے مرغولوں کے بیچ وہ ایک لمبی ” ہوں” کھینچ کر بات کرنے کو موضوع تلاش کرتا۔ جیسے وہ طے نہ کر پا رہا ہو کہ اسے کیا بات کرنی ہے اور کیا نہیں۔ یہ ایک پائپ ہی تھا جس کے دھویں کی اوٹ میں سے اس پر کسی روسی فلسفی کا سا گمان گزرتا تھا۔ ورنہ وہ تو سندھی ملنگ کی طرح صوفہ پر پھیل کر ڈھیلا ڈھالا سا ہوکر بیٹھتا۔

میں اس سے اس کی انقلابی جدوجہد کی کہانی سننا چاہتی تھی۔ مارکسزم کا فلسفہ اس کے نقطہِ نظر سے سننا چاہتی تھی۔ اس کی ملحدانہ سوچ کو پرکھنا چاہتی تھی۔ انقلابِ روس اور روسی ادب پر بات کرنا چاہتی تھی مگر پھر دھیرے دھیرے مجھ پر کامریڈ جام ساقی کی صورت یہ منظر کھلنا شروع ہو گیا کہ ایک انقلابی اپنی شدید جدوجہد سے گزر کر کس طرح دم توڑتی تحریک کے کنارے آ بیٹھتا ہے اور اپنے نظریے کے ڈوبتے سورج کو تھکی تھکی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ آہ میرے اُس پابجولاں سفر کا یہ تھا اختتام!

اس موضوع پر میں اگر بات شروع بھی کرتی تو وہ ایک اداس ہنسی کے ساتھ کہتا کہ ہم تو فقیر لوگ ہیں۔ جو گزر گیا سو گزر گیا۔ ہم نے اپنے حصّے کا کام کردیا۔ اب دوسروں کی باری ہے۔ ایک دن بھی اس نے اپنی جدوجہد کا، نظریے کا زکر نہیں کیا بلکہ میرے سوال پائپ کے تمباکو میں راکھ بن کر رہ جاتے۔

ایک دن کہنے لگا کہ آپ کو پتہ ہے میں یہاں کیوں آتا ہوں؟ میں نے دل میں پھیل کر سوچا کہ ظاہر ہے کہ مجھ جیسی نامور کہانی کار سے ملنے! مگر بظاہر انکار میں میں نے گردن ہلا دی۔ اس نے کافی کا ایک لمبا گھونٹ بھرا۔ پائپ کا ایک لمبا کش لیا۔ ایک اداس مسکراہٹ مسکرایا اور بولا۔۔۔۔ کافی پینے آتا ہوں۔ مجھے اس کی یہ بات بہت ہی بری لگی۔ کافی شاپ تو نہیں کھولا تھا نا میں نے! لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد اس نے اپنی بات اسی اداس مسکراہٹ کے ساتھ یوں مکمل کی کہ ۔۔۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں ہر روز کافی افورڈ نہیں کر سکتا۔ آپ کے گھر میں مجھے مفت کی کافی اور کچھ دیر کے لیے ایک اچھا پرسکون گوشہ مل جاتا ہے بیٹھنے کے لیے، اس لیے آتا ہوں۔

میں کامریڈ جام ساقی کو دیکھتی رہ گئی۔ یہ تو میں نے سوچا ہی نہ تھا کہ کامریڈ جام ساقی مفلس بھی ہوسکتا ہے! اتنا بڑا کامریڈ جام ساقی جو فوجیوں کے سامنے تن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ جو کمیونسٹ پارٹی جیسے بھاری پتھر کو پاکستان کی زمین پر کھڑے ہوکر کندھوں پر اٹھا سکتا ہے، جو قید و تشدد کو سہہ جاتا ہے، وہ کامریڈ جام ساقی کافی افورڈ نہیں کرسکتا! چند لمحے سکون سے بیٹھنے کے لیے اسے کوئی گوشہِ عافیت میسر نہیں! میں اب بہت ہی دل سے اس کے کافی کا انتظام کرنے لگی۔

اسی دوران کا ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ ہوا۔

ایک دن وہ آیا تو میں گھر پر نہ تھی۔ میری کام والی لڑکی کو کہہ گیا کہ بی بی آئے تو اسے بتانا کہ وہ جو سُلفی پیتا ہے وہ آیا تھا۔ سندھی میں سموکنگ پائپ کو سُلفی کہتے ہیں۔ میں آئی تو لڑکی نے بتایا کہ آپ سے ملنے قلفی والا آیا تھا۔ اب جب بھی وہ فون کرتا تو کہتا ۔۔۔۔ ہیلو ۔۔۔۔ بی بی ۔۔۔ میں قلفی والا بول رہا ہوں ۔۔۔۔ کافی پینے آ جاؤں؟ گھر پر آتا تو کہتا ۔۔۔۔۔ قلفی والا حاضر ہے ۔۔۔۔

اس تمام عرصے میں اگر وہ کھل کر بات کرتا تو اس کا موضوع فنا اور خدا ہوتا تھا۔ فنا پر وہ یوں بات کرتا جیسے بس اگلا قدم فنا ہی تو ہے! خدا پر وہ یوں بات کرتا جیسے وہ کسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش میں ہو! گزرتے وقت کے ساتھ میں دیکھتی رہی کہ کامریڈ جام ساقی کی گفتگو سے ربط ختم ہو رہا ہے۔ کھوکھلی سی ہنسی اور بجھی بجھی مسکراہٹ زیادہ جگہ گھیر رہی ہے۔ جیسے جیسے اس کی گفتگو بے ربط ہوتی گئی، اس نے کافی پینا کم کردیا اور آنا بھی کم کر دیا۔

لینن کا مجسمہ توڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا تو میں نے پتہ نہیں کیوں اس کی تعزیت کامریڈ کے ساتھ کرنا ضروری سمجھا! شاید ایک کمینی سی خواہش کے تحت کہ دیکھوں کہ ایک کامریڈ کا ردعمل کیا ہوتا ہے! مگر وہ ہنس دیا۔ سب کو فنا ہے بی بی! یہ تو لینن کا مجسمہ ہے!

بہت دنوں بعد ایک دن پریشان پریشان سا آیا۔

اس کے گھر اس کی والدہ کی تعزیت کے لیے بےنظیر بھٹو آ رہی تھیں۔ پریشانی یہ تھی کہ کامریڈ جام ساقی کے گھر میں کوئی صوفہ نہ تھا جس پر وہ بینظیربھٹو کو بٹھائے۔ میں نے پوچھا، کرسی تو ہو گی؟ اس نے انکار میں سر ہلادیا اور کہا بس ایک پرانا پلنگ ہے میری بیٹھک میں۔ میں نے کہا، میرا صوفہ لے جاؤ۔ ایک دم سے اس نے میری بات کاٹ دی ۔۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ میں جو ہوں سو ہوں ۔۔۔۔۔ بس آپ ضرور آئیے تاکہ بی بی سے بات کرنے کے لیے کوئی بڑے نام والی خاتون موجود ہو۔

لمبی ٹوٹی پھوٹی گلی سے گزر کر بینظیربھٹو اپنے جیالوں اور جیالیوں کے لشکر کے ساتھ کامریڈ کی بیٹھک میں داخل ہوئیں۔ ایک پلنگ اور ایک بوسیدہ دری۔ چھوٹا سا کمرہ جو بینظیربھٹو کے لشکر سے یوں بھر گیا کہ تل دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ بینظیر سیدھی آکر پلنگ پر بیٹھ گئیں۔ ایک طرف میں اور دوسری طرف کامریڈ کی سادہ مزاج بیوی اور دو قدم کے فاصلے پر بینظیر کے عین مقابل کامریڈ۔

گھر میں پہلے سے موجود محلّے کے کچھ بچے ہمارے عقب سے پلنگ پر چڑھ آئے اور ہماری گردنوں کے بیچ سے سر گھسائے بینظیر کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایک بچی بینظیر کی پشت پر تقریباﹰ سوار ہونے کو تھی کہ بینظیر بری طرح گھبرا کر چونک پڑیں۔ بچی کو پہلے ہلکا سا ڈانٹا۔ پھر دس بار سوری کہا۔ پھر سامنے چپ کھڑے کامریڈ کو تعزیتی انداز میں مخاطب کیا

کامریڈ! آپ کی والدہ کا بہت افسوس ہوا۔

کامریڈ ایک اداس مسکراہٹ مسکرایا ۔۔۔۔ مجھے آپ کے آنے کی بہت خوشی ہوئی ہے بی بی! آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کی کیا خدمت کروں؟

میں دل ہی دل میں گھبرا گئی کہ کامریڈ اس پورے لشکر کی کیا خدمت کرے گا!

جواب میں بینظیربھٹو نے ایک چھوٹی سی بات ایسی کہی جس نے مجھے ایک چھوٹا سا ہُنر سکھا دیا انسانی معاملات کا۔

ان دنوں ابھی منرل واٹر بمشکل کراچی تک پہنچا تھا۔ حیدرآباد میں ابھی دستیاب نہ تھا۔ عام لوگ نلکے کا پانی پیتے تھے جس کا رنگ میلا میلا سا ہوتا تھا۔ جو لوگ ان معاملات میں حساس تھے وہ پانی بوائل کرتے تھے۔

بینظیربھٹو کے پینے کے لیے منرل واٹر کی بوتل قریب کھڑی کسی ورکر (شاید ناھید خان!) کے ہاتھ میں تھی۔ بینظیربھٹو نے بڑے سکون سے کامریڈ کو مخاطب کرکے کہا ۔۔۔۔۔۔ میں صرف آپ کے گھر کا پانی پیوں گی کامریڈ!

جب تک کامریڈ پانی لاتا، اس سے پہلے ہی بینظیربھٹو کو ان کا اپنا منرل واٹر پیش کیا گیا۔ بینظیر نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور کامریڈ جو مٹیالا سا زرد رنگ پانی بےحد سادہ سے گلاس میں لایا وہ بڑے سکون کے ساتھ پی کر کامریڈ کا شکریہ ادا کیا۔

پھر پوچھا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے!
کامریڈ ایک پرسکون سی مسکراہٹ مسکرایا اور کہا آپ آئیں یہی بہت ہے ۔۔۔۔۔
بینظیر کے جانے کے بعد میں نے اسے مشورہ دیا کہ بینظیربھٹو سے اپنے لیے کچھ فائدے بھی لو۔ حق پہنچتا ہے تمہیں۔
جواب میں وہ انکار میں سر ہلا کر ہنس دیا۔

پھر گزرتے وقت کے ساتھ کامریڈ جام ساقی اپنے اندر گویا مزید بے ربط ہوتا چلا گیا۔
اب وہ بہت ہی کم آتا۔ مہینوں میں ایک آدھ بار۔
کافی تو بلکل بھی نہ پیتا تھا۔
بینظیربھٹو کی طرح کہتا کہ بس آپ کے گھر کا پانی پیوں گا۔

صحت بھی اس کی زنگ آلود ہونا شروع ہوگئی تھی۔ پھر میں نے حیدرآباد چھوڑ دیا اور کراچی کے کارپوریٹ کلچر میں پھنس گئی اور عین کارپوریٹ کلچر کی فطرت کے مطابق قیمتی لوگوں کو کھوتی چلی گئی۔ کبھی بھولے بھٹکے حیدرآباد جاتی اور کراچی لوٹتے ہوئے ہائی وے کی طرف جانے کے لیے گاڑی نسیم نگر کے شارٹ کٹ سے گزرتی تو یاد آتا کہ یہاں کامریڈ جام ساقی کا گھر ہے۔صرف ایک پلنگ والی بیٹھک والا چھوٹا سا گھر۔ وہ گھر اب مزید بوسیدہ ہوچکا ہوگا! پلنگ مزید پرانا ہوچکا ہوگا اور بوڑھا اور بیمار کامریڈ جام ساقی اس پر لیٹا ہوا کھانس رہا ہوگا اور فنا کے سمندر میں لینن، مارکس، انقلابِ روس کے ساتھ ساتھ خود کو اوجھل ہوتا ہوا دیکھتا ہوگا۔

دل چاہتا کہ گاڑی کا رُخ اس کے گھر کی طرف موڑ دوں۔ دماغ میں بھرے بھُس میں سے خودغرض اور لالچی کارپوریٹ کلچر گردن نکال کر کہتا کہ چلو کراچی۔ میڈیا کے فلاں سیٹھ کے ساتھ میٹنگ کا وقت طے ہے۔ اگلی بار سہی۔

وہ اگلی بار کبھی نہ آئی۔ یہاں تک کہ کامریڈ جام ساقی نسیم نگر ہی کیا، دنیا چھوڑ کر چلا گیا! یہ دنیا کامریڈ جام ساقی اور بینظیربھٹو جیسے لوگوں کے لیے اب رہی بھی نہیں۔ اب نہ کوئی زمین سے نکلتا ہوا میلا پانی پینے والا رہا ہے اور نہ ہی زمین کا مٹیالا پانی پلانے والا۔ نہ وہ جام رہا اب جس میں دھرتی کا پانی پیا جائے۔ نہ وہ ساقی رہے اب جو دھرتی کا پانی پلاتے تھے۔

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah