جب میں ایم کیو ایم کا کارکن تھا


وہ بھی کیا عمر ہوتی ہے، جذبے کچے مگر بڑے سچے ہوتے ہیں، توانائی جسم میں لہریں مار کر کچھ کرنے پر اکساتی ہے، حیرت دھندلکوں کے اُس پار لے جانے پر مصر ہوتی ہے، جوش رگ رگ میں دھڑکتا پھرتا ہے، اضطراب ایک لمحہ چین نہیں لینے دیتاوہ تیس برس پار کھڑا لڑکا ایسا ہی تھا۔ سر پر سوار ایڈونچر کے بھوت نے بے کَل توانائی، متلاشی حیرت، طوفانی جوش اور پارہ سا اضطراب لیے اپنی بڑی منتوں سے نئی نئی اُگی مونچھوں کی طرح باریک سے اس لڑکے کی جان عذاب میں ڈال رکھی تھی۔

کبھی گھر کے اسٹور میں پُرانے اخبار، کتابوں، رسالوں اور خطوں میں ماضی کی تلاش، کبھی اپنی کالونی سے پرے بچھے طویل میدان سے آگے بنے تالاب کی ڈھلان پر دوست کے ساتھ سگریٹ کا دھواں اُڑانا، سائیکل پر چھوٹے سے شہر کی ان جانی راہوں پر نکل جانا، شیعہ بن کر امام بارگاہ میں نماز پڑھ لینابس کچھ ایسا ہو کہ آنکھیں کسی نئی دنیا سے آشنا ہوجائیں، نس نس میں سنسنی دوڑ جائے، کوئی انکشاف چونکا دےوہ تو محبت بھی بس یہ جاننے کے لیے کرنا چاہتا تھا کہ یہ پتا تو چلے یہ سالی ہوتی کیا ہے۔

ابن انشاءکا دُکھ یہ تھا کہ محرومیوں کی اندھیری گلی میں لڑکپن گزارنے والا بڑا ہوکر ہر شے تک رسائی کے قابل ہوگیا ”پر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں“ اِدھر میرا مسئلہ ہے کہ یہ کم بخت لڑکا بڑا ہوا کے نہیں دیا۔ اب میرپورخاص جیسے چھوٹے سے شہر میں کتنا ایڈونچر ہوسکتا تھا، جوش واضطراب کی پیاس کتنی بجھتی! سو بے کلی رہی، لیکن آخرکار دل کی کلی کِھل اُٹھی۔ اُسے محلے سے اسکول کی عمارت تک پرانی دیواروں پر ابھرتے نئے نعروں نے متوجہ کرلیا، چونکا دیا، مضطرب کردیا۔ ”مہاجروں ایک ہوجاؤ نعرہ مہاجرمہاجروں کے دل کا چین پانچویں قومیت۔ “ سیاہی سے لکھے یہ لفظ جگنو بن کر اس کی آنکھوں میں دمکنے لگے۔ اُسے اپنی طرف کھینچنے لگے۔ اس کشش کا ایک پس منظر تھا، جسے جاننے کے لیے ایک منظر میں چلیے۔

یہ اس کے دوست کا گھر ہے، پرائمری اسکول میں پنپنے والی کچی عمر کی پکی دوستی۔ اسکول کی عمارت کی رو میں آخری مکان، جہاں اسے دیکھ کر دوست کی والدہ کے ہونٹوں پر شفقت مسکراہٹ بن کے اُتر آتی ہے۔ آج دوست کا بھائی اس سے کوئی سوال کرتا ہے، سندھی اپنی ساری مٹھاس لیے سماعت میں تو اترتی ہے لیکن سر پر سے گزر جاتی ہے۔ لیکن وہ اس آم کے بور سی زبان سے ایسا ناآشنا بھی نہیں۔ جب بھولابھالا دوست اس کی بے چارگی پر بھائی کو بتاتا ہے، ”یہ مَکڑ ہے“ تو وہ جان لیتا ہے، ان الفاظ کا مطلب ہی نہیں اور بھی بہت کچھ۔ ایک نامانوس سے احساس کی پھانس دل میں چبھ جاتی ہے۔ پھر وقت حالات سے مل کر اس پھانس کی پرورش شروع کر دیتا ہے، اسے تھوہڑ کا خاردار، کڑوا اور زہریلا پودا بنانے کے لیے۔ اور پھر ایک دن وہ نعروں اور شخصیت کے سحر میں گرفتار تعصب کی چوکھٹ پر سر رکھ دیتا ہے۔

کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ میری کہانی ہے، پوری نہیں، داستان کا صرف ایک جزو، جو میری ایم کیو ایم سے وابستگی کا قصہ ہے۔ اس وقت میں نویں جماعت میں تھا، سو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگائزیشن کا رکن بنا۔ پورے ماڈل ہائی اسکول میں ہم صرف تین لڑکے اے پی ایم ایس او میں تھے، میں، سلیم (جسے سلیم کرنل کے نام سے جانا جاتا تھا) اور عقیل۔ جب میں نے مہاجر شناخت کا علم اٹھائے جماعت سے ناتا جوڑا تو شہر میں الطاف حسین کی آمد آمد تھی۔ ایم کیو ایم میں تو نوجوان جوق در جوق شامل ہورہے تھے لیکن اپنی ماں جماعت کے برعکس اے پی ایم ایس او کا دامن خالی تھا۔ سو اے پی ایس او کے اجتماعات میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو بُلا کر گنتی بڑھائی اور جھینپ مٹائی جاتی تھی۔

حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے جلسے میں کراچی سے شرکت کے لیے آنے والے قافلے پر سہراب گوٹھ پر ہونے والے حملے اور اس کے بعد پھوٹ پڑنے والے پختون مہاجر فسادات نے کراچی اور حیدرآباد کی طرح میرپورخاص میں بھی مہاجر سیاست کے لیے زمین ہموار کر دی تھی۔ ان دنوں پُرانے کارکن نئے نویلے ساتھیوں اور عام مہاجروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ایک ایسی ”آرمیگڈون“ کی پیش گوئی کرتے تھے جو مہاجروں اور پٹھانوں یا مہاجروں اور ان کے مخالفین کے درمیان برپا ہونے والی بہت بڑی یا فیصلہ کُن جنگ ہوگی، جس کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ یہ پیش گوئی ”مرکز“ سے سینہ بہ سینہ سفر کرتی پہنچی تھی۔ مرکز سے مُراد الکرم اسکوائر لیاقت آباد کراچی میں قائم ایم کیو ایم کا مرکزی دفتر، الطاف حسین کی رہائش گاہ اور قائد تحریک سمیت ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت تھی۔

ہم نووارد کارکنان سے ایک چائے خانے میں حلف لیا گیا۔ حلف نامے کے اہم نکات تھے: الطاف حسین کو مہاجروں کا واحد لیڈر ماننا، وفاداری اور رازداری۔ ایک نکتہ بڑا حیرت انگیز تھا، جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا خصوصی طور پر تذکرہ کرتے ہوئے ان سے کوئی تعلق نہ رکھنے کی یقین دہانی۔ ہم سے قرآن مجید پر ہاتھ رکھوا کر حلف لیا گیا۔ قائد تحریک کی آمد کے موقع پر ایم کیو ایم میرپورخاص زون نے خصوصی طور پر نغموں پر مشتمل ایک آڈیوکیسٹ بنوا کے جاری کی، جو مقامی تنظیم کے گلے پڑگئی، تفصیل کچھ آگے۔ اس کیسٹ میں شامل ایک نغمے کا حصہ یہ بول بھی تھے، ”پاکستان میں رہ نہیں سکتا دشمن پاکستان کا۔ “ یہ کیسٹ میں نے بھی خریدی، جسے بجاکر بجاکر کئی دنوں تک گھر والوں کا ناک میں دم کیے رکھا۔

اِدھر الطاف بھائی کا نزول ہوا اُدھر مقامی قیادت کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ جس ساتھی کہ پاس یہ آڈیو کیسٹ ہے وہ اسے تنظیم کے پاس جمع کرادے۔ اُس وقت ایم کیو ایم میرپورخاص زون کے انچارج انیس احمد خان ایڈووکیٹ تھے، جو خیر سے اب پاک سرزمین پارٹی کی شان بڑھا رہے ہیں، اور سیکٹر انچارج فقیر محمد میمن تھے، جن کے کارناموں پر لوگ حیران ہوکر کہہ اٹھتے تھے، ”میمن اور اتنا دلیر۔ “ فقیر محمد میمن بہت شرمیلے تھے۔ صوبائی اسمبلی کے لیے امیدوار نام زد ہوئے تو جلسوں میں تقریر کے لیے آتے ہوئے پسینہ پسینہ ہوجاتے، مائیک پر آکر پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بس”جیے مہاجرجیے الطاف“ کہتے اور خطاب ختم۔ اب نہ جانے کہاں ہیں۔

کیسٹ جمع کروانے کا حکم کیوں دیا گیا تھا؟ اس راز سے پردہ خود قائد تحریک نے فکری نشست میں اٹھایا۔ فکری نشست تربیت کا ایک سلسلہ تھا، جس میں ذہن سازی ہی نہیں ہوتی تھی، تقریروں اور بیانات سے ہٹ کر بہت کچھ کہا جاتا تھا، جیسے ”پٹھانوں نے ہماری بہنوں کے کپڑے اتارے، انھیں کندھے پر اٹھا کر رقص کیا پھر انھیں مار دیا۔ اب یہ گھر کی باتیں میں سب کے سامنے تو نہیں کرسکتا ناں۔ “ الطاف حسین کے یہ الفاظ ہمارے سینوں میں انگارے بن کر اُتر گئے تھے۔ دماغوں میں زہر بھرنے کے لیے ان نشستوں سے بہتر کوئی موقع ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ قائد تحریک یہ اظہارمسرت بھی کسی فکری نشست میں کرسکتے تھے، ”ہمارے لڑکوں نے پولیس کا مقابلہ تو کرلیا۔ “

جس فکری نشست کا ذکر ہے وہ انیس احمد خان کے مہاجر کالونی میں واقع گھر میں ہوئی تھی۔ کریم کلر کے کُرتے اور پاجامے میں ملبوس الطاف حسین پورا دن شہر کے مختلف علاقوں میں جلسوں سے خطاب اور ملاقاتیں کرتے رہے تھے، اور اب انھیں گھنٹوں جاگ کر اس نشست میں کلام کرنا تھا، لیکن وہ مکمل طور پر تازہ دم نظر آرہے تھے۔ یاد آیا، ایک جلسہ شہر کے ایسے علاقے میں ہونا تھا جہاں جماعت اسلامی کا اثرورسوخ تھا۔ شرافت کی سیاست اور اخلاقی واسلامی اقدار کی دعوے دار جماعت اسلامی نے تڑی لگائی کہ جلسہ نہیں ہونے دیا جائے گا، ایم کیو ایم کو جلسہ منسوخ کرنا پڑا۔

الطاف حسین نے گفتگو کا آغاز کیا، ”لفظ فکر کو جملے میں استعمال کریں۔ “ کارکن جملے بنانا شروع ہوگئے۔ کسی نے سوال کیا، ”الطاف بھائی! کیسٹ پر پابندی کیوں لگائی گئی؟ “ یہ خبر کارکنوں میں پھیل چکی تھی کہ قائد اس کیسٹ کے اجراءپر مقامی قیادت سے سخت ناراض ہیں اور اسے زبردست ڈانٹ پلائی ہے۔ پہلے تو الطاف حسین نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا اور ذرا برہمی سے کچھ اس طرح کی بات کہی، ”یار تنظیم کو اتنی تو اجازت دو کوئی فیصلہ وجوہات بتائے بغیر اپنی مرضی سے کرے۔ “ اگرچہ قائد پر اندھے اعتماد کا فلسفہ رائج ہوچکا تھا لیکن زیادہ تر قائد کے بہ جائے تنظیم اور قیادت پر اعتماد کی بات کی جاتی تھی۔ سوال پر ناراضی کے اظہار کے بعد الطاف حسین نے وہ سبب بتایا جو اس کیسٹ پر ان کی برہمی اور اس پر پابندی کا باعث بنا۔

ان کے بہ قول وجہ یہ تھی کہ ایم کیو ایم کا جی ایم سید کی زیرقیادت سندھودیش کا نعرہ لگانے والی جیے سندھ تحریک سے معاہدہ تھا، اور اس کیسٹ کے نغموں میں پاکستان سے محبت کے اظہار اور وطن دشمنوں سے عداوت پر مبنی الفاظ شامل تھے۔ بعد میں جب حالات بدلے یا بدلے گئے تو یہی الطاف حسین فرمارہے تھے”سندھو دیش ہماری لاشوں پر بنے گا۔ “ جب کہا گیا کہ جو کیسٹ عام لوگوں کے پاس ہیں تلف کرنے کے لیے کیسے حاصل کی جائیں؟ تو قائد تحریک نے اس مسئلے کا حل یہ بتایا، ”اگر کوئی کار میں کیسٹ سُن رہا ہے تو اس سے کہو ذرا دکھانا، جیسے ہی وہ کیسٹ دے“ ہاتھ کے اشارے سے بتایا یا دوڑ لگادو۔

الطاف حسین نے کیسٹ کے اجراءپر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اتنا غصہ تھا کہ وہ میرپورخاص آنے سے انکار کرچکے تھے، ”پھر مجھے چیئرمین عظیم احمد طارق نے جانے کا حکم دیا تو میں آیا۔ “ اس وقت تک ایم کیو ایم الطاف حسین کی ذات میں مرتکز نہیں ہوئی تھی۔ چیئرمین عظیم احمد طارق کی پوزیشن بہت نمایاں اور موثر تھی، جن کا احترام الطاف حسین کو بھی کرنا پڑتا تھا۔

اُس دور میں مہاجر شناخت اور حقوق کی تنہا ایم کیو ایم ہی علم بردار نہیں تھی، ایک اور تنظیم مہاجراتحاد تحریک بھی یہی جھنڈا اٹھائے ہوئے تھی۔ یہ تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن سے علیحدہ ہونے والے ڈاکٹرسلیم حیدر نے بنائی تھی، جس کا اندرون سندھ کے شہری علاقوں میں اثرورسوخ تھا۔ ایک کارکن نے میرپورخاص میں مہاجر اتحاد تحریک کے سرگرم ہونے کا بتایا۔ ”آپ لوگوں کے ہوتے ہوئے ایم آئی ٹی یہاں بنی کیسے“ قائد کے الفاظ نے کارکنوں کو بتادیا کہ اس دوسری مہاجر جماعت کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ فکری نشست جب رات تین بجے کے قریب ختم ہوئی تو میری آنکھوں میں نیند بھری تھی اور دل ودماغ میں زہر۔ یہ زہر جذبہ انتقام بنا عرصے تک خون میں تحلیل رہا۔

ان دنوں افواہ گرم تھی کہ میرپورخاص میں بھی مہاجر پختون فسادات ”ہونا قرار پائے ہیں۔ “ میں نے اس وقت کے انتظار میں انتقام کی پیاس بجھانے کے لیے ٹھیلے سے ایک چاقو خرید لیا تھا پٹھانوں کے کُشتے کے کُشتے لگانے کے لیے۔ وہ چاقو اسکول میں بھی ساتھ رہتا اور گھر آکر چھپا دیا جاتا تھا۔ کبھی مرغی ذبح کرنے اور سبزی کاٹنے کے کام بھی نہیں آیا، بے کار پڑے پڑے مایوس ہوکر کہیں گُم ہوگیا۔ جب یہ اطلاع ملی کے ایم کیو ایم جاں باز نوجوانوں کا ایک لڑاکا دستہ بنا رہی ہے تو میں نے اس دستے میں شامل ہونے کی ٹھان لی۔ شدت جذبات میں یہ ارادہ امی پر بھی ظاہر کردیا۔ وہ جھاڑ پڑی کے مستقبل کے جاں باز کی آدھی جان نکل گئی، بڑا دل دُکھا کہ ”قوم“ کو میری ضرورت ہے مگر مجھے روک لیا گیا۔

قائد اور تنظیم سے وفا کی تعلیم وتاکید کا آغاز تو حلف اٹھانے سے ہی ہوگیا تھا، لیکن کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ اب بے وفائی کی سزا تنظیم سے اخراج نہیں موت قرار پائی ہے۔ ”جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے“ کا نعرہ تو یہ ”قانون“ جاری ہونے کے بہت مدت بعد لگا۔ شناخت کی سنہری آرزو حقوق کے نعروں کی بانسری بجاتی اپنے پیچھے لگاکر مجھے اور مجھ جیسے کتنے ہی نوجوانوں کو نفرت اور تعصب کے اندھیرے کنویں میں لاکر پھینک چکی تھی۔ ہمارے لیے ماضی سے حال تک ایک لکیر کھنچ چکی تھی، جس کے ایک طرف مہاجر تھے دوسری طرف غیرمہاجر، یہ اپنے تھے، وہ دشمن۔

گھر کے ایک کونے میں رکھی اپنی چھوٹی سے الماری پر میں نے مختلف شخصیات کی تصویریں لگا رکھی تھیں، جو میرے نزدیک مہاجر ہیروز تھے، ٹیپوسلطان، مولانا محمد علی جوہر، سرسید، لیاقت علی خان۔ ”ان میں علامہ اقبال کی تصویر نہیں!“ ٹیوشن پڑھانے والے رومی بھائی کے سوال پر میرا جواب تھا، ”نہیں وہ مہاجر نہیں تھے۔ “ میں کئی سال تک اس جہل میں لتھڑا رہا، پھر مطالعے، مشاہدے، مختلف تجربات نے ذہن کو وسعت دی، دل کو کچھ روشنی ملی، آنکھوں میں حقیقی بصارت کی ننھی سی کرن جاگی، تو اندھیرا دور ہوا۔

میرے اس عہدجہالت میں ہی میرا خاندان میرپورخاص سے کراچی منتقل ہوگیا۔ یہاں جامعہ ملیہ کالج ملیر میں میرا داخلہ ہوا، جہاں اے پی ایم ایس او کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ چناں چہ ایم کیو ایم سے براہ راست تعلق تو ٹوٹ گیا لیکن فکرونظریہ کی زنجیر پیروں میں پڑی رہی۔ یہ وہ دور تھا جب شہر کے مضافاتی علاقے ایم کیو ایم اور پنجابی پختون اتحاد کے درمیان میدان جنگ بنے ہوئے تھے۔ جن کالجوں میں اے پی ایم ایس او کے مخالفین کا راج تھا ان میں جامعہ ملیہ کالج سرفہرست تھا۔ یہاں اسلامی جمعیت طلبہ، پیپلزاسٹوڈینٹس فیڈریشن پنجابی اسٹوڈینٹس ایسوسی ایشن کی حکومت تھی۔ آئے دن اردو بولنے والے طبلہ پی ایس ایف اور پی ایس اے کے تشدد کا نشانہ بنتے۔ اُمت کی ترجمان اسلامی جمعیت طلبہ تماشا دیکھتی، جو مار کھانے والے طلبہ کے تحفظ کا آسرا تھی، لیکن مار کھانے سے پہلے یا بعد، تشدد کے دوران صرف تماشائی اور پھل کے جھولی میں گرنے کی منتظر۔

اے پی ایم ایس او کے وابستگان کو یہاں اپنی شناخت چھپا کے رکھنا پڑتی تھی۔ انھیں تنظیم کی ہدایت تھی کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوکر جان بچائے رکھیں اور تنظیم کا کام بھی کرتے رہیں۔ میں نے ہر وقت درس کے لیے بلاتی جمعیت کے مقابلے میں ہلا گُلا کرتی پیپلزاسٹوڈینٹس فیڈریشن کو چُنا۔ وفاق نواز اور پاکستان کے تمام قومیتوں کی نمائندہ ہونے کی دعوے دار جماعت پیپلزپارٹی کی یہ طلبہ تنظیم اندرون سندھ جیے سندھ کا دوسرا چہرہ تھی اور کراچی کے پنجابی اکثریتی کالجوں میں پنجابی قوم پرستی میں پی ایس اے اور پی پی آئی کے شانہ بہ شانہ۔

پی ایس ایف میں شمولیت کے بعد میں اس خوف سے بے نیاز ہوگیا کہ مجھے ”مہاجر“ ہونے کی سزا ملے گی۔ یہ بے خوفی منہ چڑانے کی حد تک چلی گئی۔ میں سفید پاجامہ کرتا پہنے پی ایس ایف کا بیج لگاکر کالج میں گھومتا اور غصے میں انگارہ ہوتی نظروں کا لطف لیتا۔ ان دنوں میرے پاس ایک ڈائری ہوا کرتی تھی۔ بڑی سی سُرخ رنگ کی، جس میں شعر، بہ طور مشق لکھے گئے کچھ مضامین، اساتذہ کے لیکچرز کے نوٹس کے ساتھ، شروع ہی کے پَنوں پر ”جیے مہاجر“ اور اس فکر کی ترجمانی کرتے درج نعرے میری پہچان بتارہے ہوتے تھے۔

یہ عام رجحان تھا کہ کوئی نوجوان کسی بھی جماعت سے وابستہ ہو دیوار، کتاب، کاپی، ڈائری، جہاں بھی لکھا جاسکے، وہ اپنی جماعت کے نعرے ثواب سمجھ کر نقش کردیا کرتا تھا۔ ہوا یہ کہ میں اپنے پی ایس ایف کے ایک دوست معراج کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ عام کارکن نہیں پی ایس ایف کے ”شمشیرزن“ کارکنوں میں شامل تھا۔ معراج کے ایک طرف میں تھا اور دوسری طرف پی ایس ایف کا ایک جوشیلا جیالا۔ باتیں کرتے کرتے معراج نے میرے ہاتھ سے ڈائری لے لی۔ پہلے ہی صفحے پر نعروں کی صورت ایم کیو ایم سے میری وابستگی نمایاں تھی۔ اس نے خاموشی سے ڈائری مجھے واپس کردی۔

ان دنوں پی ایس ایف جامعہ ملیہ کالج کے الیکشن ہونے والے تھے۔ کچھ دنوں بعد وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا، ”یار اپنے لڑکوں سے کہنا مجھے ووٹ دیں۔ “ نہ جانے یہ دوستی کا جذبہ تھا، انسانیت یا ضرورت جو مجھے بچا گیا، ورنہ اس دور میں لسانی اور سیاسی اختلاف کی کم ازکم سزا بھی خوف ناک تشدد ہوتا تھا، اور جان لینا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ ایم کیو ایم سے رفاقت کے سفر نے مجھے اس تجربے سے ہم کنار کیا کہ عصبیت اور شخصیت پرستی کس طرح آنکھیں بند اور دماغ جامد کردیتی ہیں۔ ہم جھوٹ کو سچ ماننے ہی نہیں لگتے ”جوش ایمانی“ میں جھوٹ بولنا بھی فرض عین سمجھتے ہیں۔

جن دنوں میں میرپورخاص میں تھا ان دنوں الطاف حسین کے ایک سو بیس گز کے مکان کا چرچا پوری شدومد سے کیا جاتا تھا۔ ایک دن میں نے ایک تحریکی ساتھی سے، جو ہمارے اس ”قبلے“ کی زیارت کر آیا تھا، پوچھا، ”الطاف بھائی کا گھر کیسا ہے۔ “ اس وقت ہم ایک بہت ہی خستہ حال مکان کی مٹی کی دیوار کے سائے میں بیٹھے تھے، ساتھی نے ایک پل بھی سوچے بغیر دراڑیں پڑی دیوار کو ہاتھ لگا کے کہا، ”اس سے بھی زیادہ بُری حالت میں۔ “ یہ سُن کر قائد سے میری عقیدت دوچند ہوگئی۔

ہمیں قائد پر اندھے اعتماد کا جو فلسفہ گھول کر پلایا گیا تھا وہ منشیات بنا رگ وپے میں دوڑتا رہتا تھا۔ ایک ساتھی نے مجھ سے اس فلسفے کی وضاحت یوں کی، ”اگر الطاف بھائی آج پیپلزپارٹی سے معاہدہ کرلیں تب بھی صحیح ماننا ہے، وہ معاہدہ توڑ دیں تب بھی صحیح، معاہدہ دوبارہ کرلیں پھر بھی صحیح سمجھنا ہےیہ ہوتا ہے اصلی نظریاتی کارکن۔ “

مہاجر تو ایم کیو ایم کے دعویٰ کردہ حقوق سے محروم ہی رہے لیکن اس ذہنی تربیت کے باعث الطاف حسین کو مطلق العنان شہنشاہ کے حقوق حاصل ہوگئے۔ وہ الُٹی سیدھی قلابازیاں کھاتے رہے اور کارکن اور حامی اندھے اعتماد کی ڈوری سے بندھے ان کے ہر کرتب میں ساتھ دیتے رہے۔ مگر میں بوزنے سے انسان بن چکا تھا، بہت سی حقیقتوں کا ادراک ہوا، اندھے اعتماد کی پَٹی کُھلی تو بہت سی سچائیاں سامنے تھیں، نئے تجربات نے قلب ونظر کو کشادگی دی۔ اور ایک دن میں نے اپنے دوست اور محلے کی حد تک ایم کیو ایم کے فعال کارکن شبیر سے جا کے کہہ دیا، ”مجھے اب تم لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرنا۔ “ طعنے ملے، طنز کیے گئے، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا، ہوتا بھی تو سوچ رکھا تھایہ جان تو آنی جانی ہے۔

شاید کچھ نہیں ہوا تو صرف اس لیے کہ میں اپنی تمام تر جذباتیت اور حماقتوں کے باوجود دوسری مصروفیات میں الجھ کر تنظیم میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کر رہا تھا، اور غیراہم تھا۔ آج مُڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اس لڑکے کو دیکھ کر شرمندگی ذرا بھی نہیں ہوتی جو اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے لوگوں کی خاطر جلسوں اور مظاہروں میں پورے جوش سے نعرے لگایا کرتا تھا۔ یہ اطمینان ہے کہ جب تک صحیح جانا ساتھ دیا، غلط سمجھا چھوڑ دیا، دل ودماغ میں ایک لمحہ بھی جنگ نہیں ہونے دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).