ابوالکلام آزاد: ناشائستہ حملہ، شائستہ جواب


سید عابد علی بخاری

\"Syed

چند دن قبل قیام پاکستان کا منظر نامہ سمجھنے کے حوالے سے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں میرا ایک مضمون ہم سب نے شائع کیا۔ بہت سے قارئین نے بے انتہا پسند کیا، چند احباب نے غلطیوں کی نشاند ہی کی اور چند ایک نے اس سے اختلاف کیا۔ ان سبھی احباب کا شکریہ۔ انہی قارئین میں سے شکیل چوہدری صاحب نے میرے مضمون کو موضوع سخن بناتے ہوئے جس شائستہ انداز میں ایک طویل جذباتی گفتگو لکھی میں اس کے لیے ان کا ممنون ہوں۔ اس سارے محسوسات اور خود ساختہ الہامات پر مبنی گفتگو نے چند غلط فہمیوں کو جنم دیا۔ کوشش ہے کہ اس تحریر کے ذریعے ان مغالطوں کو دور کیا جا سکے۔

جناب شکیل صاحب لکھتے ہیں کہ:

\”بخاری صاحب نے یہ فتویٰ صادر کردیا ہے۔\”

اس حوالے سے عرض ہے کہ میں نہ مفتی ہوں نہ لبرل فاشسٹ البتہ خیال رہنا چاہیے کہ فتویٰ دینا اور رائے کے اظہار میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ میری نظر میں برداشت سے عاری ملاّ ہو یا مرضی تھوپنے کی دھن میں مگن لبرل فاشسٹ دونوں ایک ہی منزل کے مسافر ہیں جن کا منتہا انتہاؤں کو چھونے کے خبط میں مبتلا ہے۔

تنقید نگار نے پوچھا ہے کہ اگر بادشاہت میں ہندو غلام نہیں تھے تو جمہوری دور میں مسلمان غلام کیسے سکتے ہیں؟ عرض ہے کہ بھارت کی جمہوریت جس کی مثالیں آپ نے دی ہیں اس کی ایک جھلک کشمیر میں بھی ملاحظہ فرما لیں تو غلامی کا تصور واضح ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

تنقید نگار ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ:

\”ایسا لگتا ہے کہ مولانا آزاد اور ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں بخاری صاحب کی معلومات سنی سنائی بلکہ خیالی باتوں پرمشتمل ہیں۔ انہیں چاہیئے کہ ہندوستان جاکر وہاں کے مسلمانوں سے ملیں۔ اگر فی الحال ایسا ممکن نہیں تو پھر فیس بک یا ای میل کے ذریعے ہی ان سے رابطہ کرلیں۔\”

اس باب میں بس اتنا ہی عرض خدمت ہے کہ آپ کے پسندیدہ مہا بھارت کے چالیس سے زیادہ مقامات پر گھومنے اور وہاں سینکڑوں مسلمانوں سے ملنے سے پہلے شائد میرا بھی یہی خیال تھا کہ ہم لوگ پاکستان میں بیٹھ کر بھارتی مسلمانوں کے بارے میں درست رائے قائم نہیں کرتے۔

تنقید نگار آگے رقم طراز ہیں:

\”انہیں کم از کم اسد الدین اویسی \’ ذاکر نائیک اور ایم جے اکبر سے ضرور رابط کرنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ بخاری صاحب کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔

اگر کسی ہندوستانی مسلمان نے پاکستانیوں کو غلام قرار دے دیا تو بخاری صاحب کیا جواب دیں گے؟\”

بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی اپنی بھارت یاترا کے دوران میں مذکورہ ہستیوں سے ملاقات سے محروم رہا۔ اول اور ثانی الذکر افراد سے ملنے کی اب بھی خواہش ہے، موقع ملا اور آپ کے ممدوح ملک نے تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کیا تو آپ کے مشورے پر ضرور عمل ہو گا۔ ہاں جن لوگوں سے ملنے کا موقع ملا وہ تو اپنی بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے بھی پریشان کن نظر آئے۔ ان کی بے چارگی اور بے بسی کی کہانیوں کے اظہار کے لیے شائد ہم سب کے لیے لکھا جانا والا یہ مختصر مضمون نا کافی ہو۔

اس کے بعد شکیل صاحب سوالات کا ایک طویل سلسلہ اس طرح شروع کرتے ہیں کہ

\”وہ (یعنی بھارتی) بخاری صاحب سے پوچھ سکتے ہیں\”

عرض خدمت ہے کہ وہ سوالات جو ابھی پوچھے ہی نہیں گئے ان کے بارے میں قبل از وقت اندازے تخمینے لگانا بے معنی۔ ہاں آپ کے ذہن میں اگر ایسے سوالات کا الجھاﺅ ہے تو اس کا سلجھانا آپ کا اپنا کام ہے۔ جب آپ کے خود ساختہ سوالات کے جوابات آپ کو مل جائیں تو استفادہ عام کے لیے ہمیں بھی ضرور بتائیے گا۔ اتنا عرض کر دوں کہ جن لوگوں سے میں ملا یہ محسوس کیا کہ وہ خود کو سیکولر اور لبرل کہلاتے اتنا نہیں شرماتے جتنا خود کو مسلمان کہتے ان کے چہروں پر خوف نظر آتا ہے۔ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ہمارے دیسی سیکولر اور لبرل فاشسٹ کی طرح وہ نہ تو فتووں کا بازار گرم کرتے ہیں اور نہ ہی فکری فسطائیت کا شکار ہیں۔

تنقید نگار مزید لکھتے ہیں:

\”بخاری صاحب نےصحیح کہا ہے کہ \’علم و تحقیق کا سفر ریاضت مانگتا ہے۔ ہنگامہ ہائے حیات میں یہ بہر طور ایک مشکل منزل ہے۔ میرے نزدیک یہ امر قابل افسوس ہے کہ کسی شخص کا علم و فضل یا احترامِ ذات ہمیں حق گوئی سے باز رکھے۔\’ بخاری صاحب کو چاہیئے کہ وہ اب علم و تحقیق کا سفر شروع کر ہی دیں۔ کوئی بات نہیں اگر یہ ریاضت مانگتا ہے۔ اور ہاں حق گوئی اور زبان درازی کا فرق ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔\”

اس بابت اتنا عرض کرنا کافی ہوگا کہ پہلے تو شکریہ کہ آپ کو کوئی ایک بات تو پسند آئی اور جہاں تک رہی آپ کی ذاتی رائے تو اپنے مضمون کے موضوع، الفاظ کے انتخاب اور جملوں کے تسلسل سے لے کر نفس مضمون تک کو ایک بار غور سے دوبارہ پڑھ لیں شائد آپ پر ہاں حق گوئی اور زبان درازی یہ فرق واضح ہو جائے۔

اس کے بعد متحدہ عرب امارات\’ ایران\’سعودی عرب\’ افغانستان اور بنگہ دیش کے بارے میں اندازوں اور تخمیوں پر مبنی شکیل صاحب کچھ ذاتی آرا ہیں جن کے قائم کرنے میں وہ پورا حق رکھتے ہیں۔ میں ان ممالک کا نہ ہی مداح ہوں اور نہ ترجمان۔

تنقید نگار لکھتے ہیں:

\”بخاری صاحب نے اکیس مارچ کو فیس بک پر یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارت عدم برداشت اور تشدد کی علامت بن چکا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورت حال کب پیدا ہوئی؟\”

میں اس کو دعوی نہیں حقیقت سمجھتا ہوں۔ میڈیا میں مثالیں بھری پڑی ہیں۔ ارون دھتی رائے، منور رانا، معروف کشمیری ادیب پروفیسر مرغوب بنہالی، اودے پرکاش، جواہر لال نہرو کی بھانجی نین تارا سہگل اور افسانہ نویس جی ایس بھلرن کی مانند دیگر کئی نامور ادیب، مصنف، آرمی آفیسر عدم برداشت اور تشدد کے باعث ہی اپنے اعزازات پر شرمندہ ہیں۔ میرے ایک جملے کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا درست نہیں اس طرح پورا موقف سمجھنا ناممکن ہے۔ جو احباب اس حوالے سے موقف جاننا چاہتے ہیں وہ فیس بک کے صفحے کے اس لنک سے براہ راست بھی ساری گفتگو ملاخطہ کر سکتے ہیں۔

شکیل صاحب نے یہاں تک تو موضوع کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ بعد کی کچھ سطروں میں پاکستان کے قیام کو برا بھلا کہنے اور ہندوستان کے بارے میں تعریفوں کے پل باندھنے پر ہی زور رہا۔ اس کے بعد وہ آزاد مرحوم کے حوالے سے میری تحریر کو ناپسندیدہ کہتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح کے ایک قول کو ناشائستہ ترین پھبتی قرار دیتے ہیں۔

میں قائد کے قول کو پھبتی نہیں حقیقت سمجھتا ہوں۔ آج کا بیانیہ آزاد کے منظرنامے کو سمجھنے اور قائد کے حوالے سے کیا بیان کرتا ہے وہ سب راز نہیں حقیقت ہے۔ ابوالکلام آزاد کا بیانیہ اگر درست ہوتا اور قائد کی جدوجہد فضول ہوتی تو آج شائد آپ میرے ساتھ آزادانہ گفتگو کی جگہ کشمیر کے مسلمانوں کی مانند آزادی کے متلاشی ہوتے یا شیو سینا سے جان بچانے کے باوجود عامر خان کے مانند راہ فرار تلاش کررہے ہوتے۔ رہی میری ناپسندیدہ تحریر تو آپ قائد کے قول کو جس نظر سے دیکھتے ہیں وہاں میری رائے کی کیا وقعت ہو گی اس کا میں اندازہ ہی لگا سکتا ہوں۔

آخر میں تنقید نگار لکھتے ہیں کہ:

     \”بخاری صاحب نے بڑے ذوق وشوق سےابو الاعلی مودودی کی اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ \’مولانا نے نماز کے لیے اذان کہی مگر اس کے بعد گہری نیند سو گئے۔\’ کیا مولانا آزاد کو مودودی صاحب کے راستہ پر چلنا چاہیئے تھا۔ بخاری صاحب مولانا مودودی کی باتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس لئے میں ان کی خدمت میں مودودی صاحب کا ایک اور ارشاد پیش کرنا چاہتاہوں۔\’لیگ کے قائدا عظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو۔\”

میری مکمل تحریر کو پڑھنے والوں کو ساری تحریر سے سید مودودی کا کہا صرف ایک جملہ ملے گا۔ اس میں قائد اعظم کے علاوہ کئی دیگرحوالے درج کیے گئے ہیں۔ اب سید مودودی کے بارے میں میرے ذوق و شوق کا الہام انہیں کیسے ہوا اور قائد اعظم نے شکیل صاحب کے خواب میں آنا کیوں پسند نہیں کیا؟ میں تو اس راز کی حقیقت کا شناسا نہیں۔

نقد و جرح اور مواخذہ کرتے وقت مناظرانہ گفتگو، آگے بڑھنے سے انکار اور پاکستان سے نفرت قوم کو ترقی کی جانب نہیں لے کر جا سکتی الٹا زوال کا شکار ہی کر سکتی ہے۔ تنقید نگار طلبہ اور ملکی تعلیمی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن بہتری کے لیے کوئی حل تلاش نہیں کرتے۔ تنقید نگار ایک قاری کو جو مشورہ دیتے ہیں ان ہی کے الفاظ میں عرض ہے کہ دلیل اورمتانت سے میرے مضمون کا جواب دیتے تو بہت بہتر ہوتا۔ لیکن اس کے لئے آپ کو محنت کرنا پڑتی اوراس کا ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔ آپ نے آسان راستے کا انتخا ب کیا اور مناظرانہ پھبتیوں پر اکتفا کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
13 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments