میرا شیونگ برش ، اک ہمدم دیرینہ


\"zahidانسان کے لیے اس کی زندگی میں بعض اشیاءاسے بے حد عزیز ہوتی ہیں۔ وہ انہیں عزیز از جان رکھتا ہے۔ وہ ان کے بارے میں ہر کسی کوبتاتا پھرتا ہے۔ یہ ہوتا مگر تب تک ہے جب تک وہ اپنے آپ سے محبت کرتا رہتا ہے۔ دیگر انسانوں سے محبت کے عوض ہی اسے اپنے آپ سے محبت کی سرشت حاصل ہوتی ہے۔ بات مگر ہو رہی تھی ان اشیاءکی، جنہیں انسان بہت اہمیت دیتا ہے۔ یقینا آپ میں سے بھی ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی ایک آدھ چیز ایسی ضرور ہو گی جس سے آپ کے بچپن، جوانی ، والدین یا پھر دوست احباب کی یادیں جڑی ہوں گی۔ یہ یادوں سے جڑی اشیاءہی تو بعد میں ’نشانی‘ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی شاعری اور لکھنے جانے والے فکشن نے ان نشانیوں سے اکثر اپنی بنیادیں اخذ کی ہیں۔ خاص طور پر پنجابی شاعری میں مجھے اس کی گونج سنائی دیتی ہے اور گابریل گارشیا مارکیز کے ناول ’وبا کے دنوں میں محبت‘ میں لکھے گئے محبت ناموں کو بھی ایسی ہی حیثیت حاصل ہے۔ بعض لوگوں کی انگلیوں سے ان کے چاہنے والوں کی طرف سے دیے گئے چھلے اور انگوٹھیاں تب اتاری جاتی ہیں جب بذات خود انہیں لحد میں اتارا جا رہا ہو۔ بعض دلہنیں پندرہ بیس برس بعد بھی وہ جوڑا پہن کر ، چھب دکھاتے، لجاتے، شرماتے اور کئی بار فخر سے بتا رہی ہوتی ہیں کہ یہ انہیں ان کے محبوب شوہر نے شادی کے بعد یا شادی کے موقع پر پہلا تحفہ دیا تھا۔ میرے پاس ایک ہی کپڑے سے ایک ہی ڈیزائن اور ایک ہی سائز کی بنی دو شرٹیں موجود ہیں جو والدہ مرحومہ نے بڑے چاﺅ سے ملتان سے لا کر بڑی ”ریجھ“ کے ساتھ سلوا کر دی تھیں۔ تاہم یہ سارا ذکر اذکار تو محض اور محض اس شیونگ برش کے حوالے سے ہے جس کی مٹھی چاہے میری بھانجی کے ہاتھ سے گرنے کے سبب ٹوٹ چکی ہے اور اب تو کبھی کبھار اس کا کوئی ریشہ بھی جھڑنے لگا ہے۔ لیکن اس شیونگ برش اور میرا ساتھ 1994 ءسے ہے۔ ہاں صاحبو ! کم نہ زیادہ بائیس برس ہونے کو آئے اس ساتھ کو۔ اس دوران کتنے گھر بدلے، کئی نئی اشیاءنے پرانی چیزوں کی جگہ لے لی لیکن کرشن نگر کی ایک عام سی دکان سے خریدا جانے والا یہ برش آج بھی میرے ساتھ ہے۔ اس وقت سے جب سے میں نے یہ طے کر لیا تھا کہ آج سے مجھے شیو خود ہی کرنا ہے۔ گرم سرد موسموں، دکھ سکھ کے دنوں، خوب صورت لبھاتی صبحوں اور تاریک راتوں میں، میں نے جب بھی شیو کرنا چاہی یا غسل خانے میں داخل ہوا یہ شیونگ برش ہمیشہ میری طرف دیکھتا، چمکتا، مسکراتا پایا گیا۔ اب سوچتا ہوں زندگی کا اتنا سفر اس کے ساتھ بسر کیا ہے۔ باقی کا اس کے ساتھ کیوں نہیں گزارا جا سکتا! ذرا یاد کیجئے! آپ کے پاس بھی ایسی ہی کوئی ایک شے موجود ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments