کیا اسی کو ماں کہتے ہیں؟


ماں کا نام سنتے ہی جو پھول دل میں مہکتے ہیں ان سے کون انجان ہے۔ لیکن ماں کا لفظ کیا صرف تقدس سے ہی عبارت ہو کر محترم قرار پاتا ہے! یقیناً نہیں! بلکہ اس کے پس پردہ وہ ساری قربانیاں ہیں جو ماں اپنی اولاد کے لیے دیتی ہے۔ نہ جانے کیوں آج ماں کی عظمت اور بلندی کا کلمہ پڑھنے کے بجائے ان کوتاہیوں کا ذکر کرنے کو الفاظ تڑپ رہے ہیں جن کی وجہ سے جانے کتنی ہی مائیں بچوں کی زندگیاں زہر آلود کرتی چلی آئی ہیں۔ اگر ماں کا سارا کردار بچے کو نو ماہ پیٹ میں رکھ کر تکلیف سے پیدا کرنا ہی ہے تو مان لیجیے دنیا کی ہر ماں اور جنت کے درمیان فقط سانسوں کی ڈور کا ہی فاصلہ ہے۔ لیکن پیدا ہونے والوں کا بھلا نصیب! کہ صرف اس بوجھ کو اٹھا کر عورت ماں کے مقام پر فائز نہیں ہوتی بلکہ ذمہ داری کے ساتھ پالنا ا ور اولاد کے درمیان مساوات رکھنا سب سے اہم ہے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک ماں عمر کے کسی بھی حصے میں اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کیسے ہوسکتی ہے؟ ماؤں کی غیرذمہ داری کے کچھ واقعات نے میرے دماغ کی چولیں ہلا دیں۔ اس غیر ذمے داری اور بے پروائی کا خمیازہ کس کس طرح اولاد بھگتتی ہے، یہ تو محض چند قصے ہیں اور کتنی دیواروں کے پیچھے کیا کیا کہانیاں یہ خدا ہی جانتا ہے!

میری ایک دوست چار بچوں کی ماں ہے۔ ایک دن وہ اپنے ماضی میں گم ہوئی تو مارے صدمے اور حیرت کے میں جہاں تھی وہیں جم کر رہ گئی۔ اس نے اشک بھری آنکھوں سے کہا، یار! اگر میرے نصیب میں اپنی ماں کے جیسی ماں بننا ہے تو اللہ کرے اس دن سے پہلے مجھے موت آجائے۔ اور پھر اس نے دل کھول کے میرے سامنے رکھ دیا۔ میں گنگ بیٹھی سنتی رہی۔ اس کی ماں نے بھی بہت ساری ماؤں کی طرح بچوں کی تعلیمی ذمے داریوں کا بوجھ ٹیوشن ٹیچر پر ڈال کر سکھ کا سانس بھرا اور پلٹ کر بچوں کی خبر ہی نہ لی۔ ماں اس بات سے مطمئن کہ ٹیچر ان کا رشتے کا ایک بھائی ہے، لہٰذا قابل اعتبار ہے اور وہ پانچوں بچوں کو ٹیوشن ٹیچر کے حوالے کر کے گھر کے کاموں کو نمٹانے کے نام پر ہر شام گھر سے کہیں نہ کہیں چلی جاتیں۔ ٹیوشن ٹیچر چھوٹے بھائیوں کو کام دے کر اسے پڑھائی کے نام پر الگ کمرے میں لے جاکر اس کا بچپن اور معصومیت پامال کرتا رہا۔ وہ اسے دوسری منزل پر واقع کمرے کی کھڑکی سے نیچے پھینکنے کی دھمکی دے کر خاموش رہنے کی نصیحت کرتا۔ میری دوست کا بچپن شدید خوف کا شکار رہا۔ اسی خوف کے زیراثر وہ دبے لفظوں میں اپنی ماں سے کہتی کہ اسے اس ٹیچر سے نہیں پڑھنا، لیکن ماں کے پاس اتنی فرصت کب تھی کہ وہ وجہ میں جاتیں یا کم از کم پڑھائی کے وقت گھر میں رہ کر صورت حال کا جائزہ لیتیں، ہمیشہ اسے ڈانٹ اور مار کر چپ کروا دیتیں۔ یوں چار سال وہ اپنے ہی رشتے دار ٹیچر کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار رہی۔ آخر اس نے اپنے ایک بھائی کو، جو اب کچھ سمجھ دار ہو چکا تھا، ساری صورت حال بتائی اور اپنے گھر کے قید خانے سے رہائی پائی۔

میرے اپارٹمنٹ کے ایک فلیٹ میں دو جوان کنواری بہنیں رہتی ہیں۔ مجھے سب کی طرح ان کے یوں تنہا رہنے پر حیرت بھی تھی اور تجسس بھی۔ ایک روز ان میں سے ایک بہن میرے پاس کسی کام سے آئی۔ باتوں باتوں میں میں نے اپنے تجسس کا اظہار کردیا تو وہ خاموشی سے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر آب دیدہ ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کی ماں بھی ہے اور شادی شدہ پانچ بھائی بھی ہیں۔ اب تو میرا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ میں نے کہا بھائی بھابیوں کی تو چلو اپنی زندگی ہے لیکن والدہ تم لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں۔ اس نے بتایا کہ امی بیٹیوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں، کہتی ہیں بیٹے جیسے بھی ہیں، میں انہیں کے ساتھ ہی رہوں گی۔ پھر افسردگی سے کہنے لگی کہ بھائی اپنی بیویوں کی وجہ سے دونوں بہنوں کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے لیکن والدہ کو تنگی میں نہیں رکھتے لہٰذا، والدہ نے جوان بیٹیوں کو تو تنہا تو کردیا لیکن اپنے آرام میں خلل ڈالنا گوارا نہ کیا۔ دونوں لڑکیاں ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر کام کر کے تنگی سے ہی سہی مگر صبر شکر کر کے اپنا خرچہ تو خود اٹھا لیتی ہیں لیکن خود کو اس صدمے سے نہیں سنبھال پاتیں۔ ماں کا رویہ ان کے لیے ایک روگ بن چکا ہے۔

میں اپنے اطراف ماں کا جو روپ دیکھ رہی ہوں افسوس! وہ کسی بھی طور قابل ستائش نہیں۔ بیٹیوں کو تو چھوڑیے وہ تو پیدا ہی شاید اس لیے ہوتی ہیں کہ ان کو جلد از جلد کسی کے حوالے کرکے جان چھڑا لی جائے مگر اب تو ایسی ماؤں کی بھی بھرمار ہو چکی ہے جن کا کم آمدنی والے بیٹوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک ہوتا ہے۔ صرف ان بیٹوں کو ہی پلکوں پر بٹھاتی ہیں اور ان کے ہی بچوں کے ناز اٹھاتی ہیں جو کمانے میں سب سے آگے ہوں اور جو بیٹے معاشی اعتبار سے کمزور ہوں ان کا جلد از جلد یا تو باورچی خانہ الگ کر دیا جاتا ہے یا پھر گھر سے ہی خدا حافظ کر دیا جاتا ہے۔ اولاد کے درمیان عدم مساوات کا برتاؤ صرف بیٹیوں کو ہی نہیں بیٹوں کو بھی جھلسارہا ہے۔

ایک صاحب نے والد کی وفات کے بعد اپنے معاشی مسائل سے تنگ آکر بھائی سے ترکے کا جائز مطالبہ کیا تو ماں آڑے آگئی اور کہا میرے جیتے جی تمہاری مجال کیسے ہوئی کہ باپ کی وراثت کا مطالبہ کرو میں مرجاؤں تو جو دل چاہے کرنا۔ لیکن تقدیر کی ستم ظریفی ماں تو ستر سال تک زندہ رہیں مگر، وہ صاحب خراب معاشی حالت سدھارنے کی انتھک تگ ودو میں جوانی میں ہی مر گئے۔

میں ذاتی طور پر ایسی خاتون کو جانتی ہوں جو اپنے چاروں بیٹوں کو ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھ پاتیں۔ انہوں نے معمولی معمولی باتوں پر سب بیٹوں کو گھر سے باہر کا رستہ دکھایا اور سب سے چھوٹا اور سب سے کماؤ پوت ان کا چہیتا بیٹا قرار پایا۔ وہ اس کو اپنے پروں میں چھپا کر رکھتی ہیں اور سارے بھائیوں کی طرف سے اس کا دل میلا کر دیا ہے، مبادا وہ کسی بھائی کی محبت میں اپنے وسائل وہاں منتقل نہ کرنے لگے۔ اپنے چہیتے کی دھوم دھام سے شادی کی۔ لیکن جو ماں، بیٹے کا دیگر بیٹوں سے ملنا جُلنا نہ سہہ سکی ہو وہ اس کی بیوی کو کیسے برداشت کر پاتی۔ اب اس کی بیوی دو بچوں کے ساتھ چار مہینے سے میکے میں بیٹھی اپنے فیصلہ ہوجانے کی گھڑیاں رو رو کر گن رہی ہے۔

ایک اور صاحبہ اپنے دین دار بیٹے کو مذہب کے ہی نام پر بلیک میل کرتی رہتی ہیں۔ جہاں بیٹے نے کسی معاملے پر سہولت دینے سے انکار کرنا یا سمجھانا چاہا، وہیں اڑ کر کہتی ہیں دیکھ! میں تجھے ایسی بد دعا دوں گی کہ کسی جہاں میں سکھ نہیں پائے گا۔ اور بیٹا اپنی عاقبت کے خوف سے روز ماں کے ہاتھوں زندگی خراب ہوتے دیکھتا ہے اور خون کے گھونٹ پیتا ہے۔

عالمی دن خواتین کا ہو یا ماؤں کا! منائیے، ضرور منائیے۔ عورت کے ہر روپ کی خوب صورتی کو نزاکت کے ساتھ اجاگر بھی کیجیے لیکن خدارا ان کوتاہیوں پر پردہ نہ ڈالیے جن کی وجہ سے عورت کا کوئی نہ کوئی روپ گھروں میں اور معاشرے میں زہر گھول رہا ہے۔ عورت اگر بہت سارے محاذوں پر ظلم کا شکار ہو رہی ہے تو بہت سارے معاملات میں اس کا اپنا کردار بھی تسلی بخش نہیں۔ خصوصاً ماں تو نام ہی محبت اور ایثار کا ہے اگر یہ رشتہ بھی خالص نہ رہا تو پھر رشتوں کے نام پر فریب ہی فریب رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).