آزادی نسواں کی گاڑی اور امریکی  فری وے


 میں جب ہیوسٹن تازہ تازہ وارد ہوئی تو یہ دیکھ کر سخت مرعوب ہوئی کہ یہاں کا گھسیارہ بھی ایک عدد ٹرک پر سوار ہو کر گھاس کاٹنے آتا ہے۔ دل میں کہا۔ سبحان اللہ۔ کیوں نہ ترقی کرے وہ قوم جس کے گھسیارے بھی اس قدر امیر کبیر ہیں۔ پھر جب یہاں رہتے ہوئے کچھ دن گزرے تو معلوم ہوا کہ موٹر ان کی مجبوری ہے۔ امریکہ کے چند شہروں کو چھوڑ کر سبھی جگہ کار کے بغیر آدمی بے کار ہے۔ میرے داہنے ہاتھ والے اپارٹمنٹ کی پڑوسن جو مجھے نو وارد سمجھ کر شروع شروع میں رائڈ دیا کرتی تھیں۔ بعد میں آنکھیں چرانے لگیں۔ میرے پاس ابھی گاڑی کا لائسنس نہیں تھا۔ یہاں مشکل یہ تھی کہ گاڑی بغیر لائسنس کے چلانے کی اجازت نہیں تھی اور لائسنس حاصل کرنے کے لئے امتحان بھی دینا پڑتا تھا۔ اس ٹیسٹ کی تیاری کی خاطر جو کتابچہ ہمیں ملا تھا اس میں قاعدے قانون کی اتنی باریکیاں تھیں کہ دل گھبرا گیا۔ افسوس ہوا کہ اپنے وطن میں اتنی محنت کر لیتے تو شاید قانون کی ڈگری مل جاتی۔ میں نے پڑوسن سے پوچھا کہ ہیوسٹن میں بسیں نہیں چلتیں۔ بولیں ڈاﺅن ٹاﺅن میں چلتی ہے۔ میں نے کہا کیا بس پکڑنے کے لئے لوگ ڈاﺅن ٹاﺅن جاتے ہیں۔ ہنسنے لگیں بولیں تمہیں امریکہ کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ میں نے کہا بھلا عام آدمی کیسے سفر کرتا ہے یہاں؟ اپنے یہاں تو پبلک احتجاج پر تل جاتی۔ خاتون بولیں ادھر لوگ امن پسند ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ دوسروں کے دھندے میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔ میں نے کہا کون سا دھندا۔ بولیں موٹرکار کا دھندا۔ اگر سب شہروں میں بسیں اور ٹرینیں چلنے لگیں تو آپ کے خیال میں موٹر کار فرشتے خریدیں گے۔ ان کے اس مبہم جواب کو نا سمجھتے ہوئے بھی میں نے اثبات میں گردن ہلا دی۔

آخر کوشش بسیار کے بعدہم بھی ڈرائیونگ ٹیسٹ دے کر لائسنس یافتہ ہو گئے۔ ہمیں اپنے یہاں کی عادت تھی جہاں صرف پرائیویٹ بسوں اور منی بسوں کے ڈرائیوروں کو تیز رفتاری کی اجازت تھی۔ خاص طور سے ہمیں سمجھانے کے لئے ان بسوں پر بڑا بڑا لکھا ہوتا تھا “روڈ کا بادشاہ “۔ چھوٹی گاڑیاں اور کاریں وغیرہ تو ڈری سہمی دب دبا کے نکلتی تھیں۔ یہاں اس کا الٹ تھا۔ یہاں پہلی بار امتحان میں ناکامی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ پیدل چلنے والوں کے حقوق موٹر چلانے والوں سے زیادہ ہیں۔ یہاں محلے ٹولے کی عام سڑکوں کی رفتار تیس پینتس میل تھی۔ جب کہ فری وے کی رفتار ساٹھ ستّر میل فی گھنٹہ تھی۔ ہم نے میاں سے کہا۔ یہاں فری وے پر ہم سے تو گاڑی نہیں چلائی جائے گی۔ وہ بولے بیگم ،یہ فری کنٹری ہے یہاں فری وے پر گاڑی نہیں چلا سکتیں تو وطن واپس چلئے۔ میں نے کہا یہاں بہت سی دیسی عورتیں ہیں جنہوں نے اب تک گاڑی چلانی سیکھی ہی نہیں۔ میاں نے کہا وہ حقوق نسواں کی علمبردار تھوڑی ہیں تمہاری طرح۔ میرے لئے یہ لمحہ فکریہ تھا۔ حقوق نسواں کی خاطر تو میں ہمالیہ کی چوٹی  سر کرنے کو تیار ہوسکتی تھی۔ لہذا کمر کسی، نیت باندھی اور فری کنٹری کے فری وے پر پہلی بار جی کڑا کرکے موٹر ڈال دی۔ سڑک پر غالباً نیا نیا کولتار ڈالا گیا تھا یا مجھے ہی ایسا نظر آ رہا تھا بہرحال ایسا محسوس ہوا کہ ہم کار میں نہیں کشتی میں سوار ہیں اور بہے چلے جارہے ہیں۔ پھر بھی ہم نے اسٹیرنگ کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ اس موقع پر علامہ اقبال کا وہ شعر”بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے۔۔۔ ” جسے ہم یونہی سرسری سا پڑھ کر گزر جایا کرتے تھے، اسے پہلی بار پوری روحانی کیفیت کے ساتھ محسوس کیا۔

گھر پہنچی تو ان پڑوسن کو جو ماضی میں رائڈ دیا کرتی تھیں اپنے کارنامے کی اطلاع دینے کے لئے گھنٹی بجائی۔ وہ نہیں نکلیں تومیں نے دائیں طرف والی پڑوسن کے بجائے بائیں ہاتھ والی پڑوسن سے رجوع کیا جو اکثر اپنے ذاتی گیس اسٹیشن کے قصے سنا سنا کر مجھے ڈراتی رہتی تھیں اور بچے گفتگو میں مخل ہوتے تو انہیں گجراتی میں ڈانٹتی تھیں۔ میں نے انہیں ایک سانس میں بتایا کہ آج میں نے جی کڑا کرکے فری وے پر گاڑی چلا ہی لی۔ میری بات سن کر پڑوسن نے توقف کیا پھرٹھنڈی آہ بھر کر بولیں۔ اتنی جلدی تو نے فری وے پر کیوں چلانا شروع کردیا۔ میں نے کہا میاں کہتے ہیں ہمت پکڑو ہمت۔ بولیں۔ اور تونے میاں کی بات مان بھی لی۔ میں نے کہا۔ ہاں آں۔۔ وہ بولیں۔ تیرے میاں نے تیرے کو فنسا (پھنسا) دیا۔ میں حیران۔۔ میں نے کہا۔ پھر سے کہو، میں سمجھی نہیں۔ بولیں۔ میرا آدمی بھی شروع میں بولتا تھا۔ شمیمہ تیرے کو اچھی والی گاڑی دلا دوں میری جان فری وے پر چلانا سیکھ لے۔ میں نے کہا میرے کو بے وکوف مت بنا۔ فر تو مجھ سے کہے گا شمیمہ مری جان جا بچوں کو اسکول سے پک اپ کر۔ جا گروسری کر۔ جا اشٹور کے لئے سامان لے کے آ۔ اور خود جاکے دیسی مارکیٹ پلیس کے نکڑ ہوٹل پر کیرم اور ڈبو کھیلے گا۔ دوستوں میں رات دیر تک بیٹھے گا۔ کرکٹ میچ دیکھے گا۔ اب تیرے کو پتہ ہے میرے کو اس کا فائدہ کیا ہوا۔۔۔ دیکھ اب میں اشٹور پر کھڑی ہوتی ہوں تو وہ بچوں کو اسکول سے اٹھاتا ہے۔ میں کھانا بناتی ہوں تو وہ بچوں کو لائبریری یا کراٹے لے جاتا ہے۔ میں نے کہا تم نے گاڑی چلانا بالکل نہیں سیکھا؟ بولی نیچے نیچے۔۔ فری وے کا چکر نئیں پالا۔ فر سارا کام میرے پر ہوتا۔ آپ صاحب بہادر ایک دم فری ہوجاتا۔ میں اس خاتون کی دانشمندی کی قائل ہوگئی۔ شام کو میاں آئے تو شکایت کی کہ آپ نے آزادی نسواں کا جھانسا دے کر مجھے پھنسا دیا۔ مجھ سے تو زیادہ عقلمند وہ ان پڑھ پڑوسن نکلی۔۔ وہ میری تاویلات کے جواب میں مسکرائے اور بولے۔ ” عورت بڑی ہی ناشکری ہوتی ہے۔ کسی حال میں خوش نہیں رہتی۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).