باتیں اندرون لاہور کی۔۔۔


کسی کی اندرون لاہور سے محبت کرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔۔۔ شاید کسی کو اندرون لاہور کے شکستہ در و دیوار کو دیکھنے سے اپنا شکست خوردہ دل یاد آ جاتا ہو، جابجا دکھتی ٹوٹی اینٹوں سے اپنی ریزہ ریزہ خواہشیں یاد آجاتی ہو ! یا گلی کے درمیان کھڑے گندے پانی میں اپنی حسرتوں کے پانی پانی ہو جانے کا عکس دکھے اور ۔۔۔ اور وہ تنگ گلیاں وہ اس نیم بند آنکھوں کی طرح ہیں جو دیکھ تو رہی ہیں مگر صرف پیا ملن کی آس کے لیے !

اندرون لاہور کو نہ جانے کس وجہ سے” اندرون “ کہا جانے لگا، مگر غالب امکان یہی ہے کہ چونکہ دروازوں نے اس شہر کی فصیل کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے اور ان دروازوں کا اندرونی شہر ”اندرون لاہور“ قرار پایا مگر یہ ”اندرون“ بے سبب نہیں ہے، یہ آپ کے بھی اندر اتر جاتا ہے اور روح میں سرایت کر جاتا ہے ۔

غیر مرئی چیزوں کا وجود نہیں ہوتا مگر ان کا احساس ہوتا ہے، انسان مادہ پرستی کے غلبے سے جب جان چھڑانا چاہتا ہے تو وہ اپنی روح کی پاکیزگی کے واسطے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اولیاءاللہ سے رجوع کرتا ہے، اب اسے حسن اتفا ق کہیے یا صوفیاء کا سوچا سمجھا منصوبہ، کہ اندرون لاہور کی فضا میں شاہ حسین کی کافی کے بول

                                                کہے حسین فقیر نمانا، دنیا چھڈ آخر مر جانا

رچ بس چکے ہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ ٹکسالی گیٹ میں بادشاہی مسجد سے ملحق چھوٹی سڑک کے آغاز پہ ایک مسجد واقع ہے، اسی مسجد میں مولوی ابراہیم سے شاہ حسین نے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور اسی مسجد سے متصل حجرے میں آزادی کے بعد استاد دامن نے قیام کیا اور کتابوں سے کمرہ سجا دیا ۔۔۔کمرے میں استاد دامن، کتابیں اور چند چوہے رہا کرتے تھے ۔ آج بھی استاد کا کمرہ ان کے شاگردوں نے آبادرکھاہوا ہے اور” استاد دامن اکیڈمی “ کے نام منسوب ہے۔ اس حجرے کی تلاش کا پہلا بیج شاہ حسین نے بویا، پھر استاد دامن نے اس کی آبیاری کی اور اب وہاں موجود اقبال صاحب باغبانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

لاہور نے بہت سے امراء کے عہد دیکھے، مسلمان فرماںروا بھی آئے اور غیر مسلم بھی ۔ اس لیے لاہور کا مزاج مذہب کی تفریق سے آزاد ہوگیا۔ یہاں مہاراجہ رنجیت کو ماتھا ٹیکنے سکھ آتے ہیں، اور چند قدم ساتھ بادشاہی مسجد میں مسلم خدا کے حضور سجدہ بھی کرنے آتے ہیں ۔ بابا گرونانک نے خدا کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ

                                ناں تس باپ نہ مائے کن تو جایا

                                ناں تس روپ نہ ریکھ ورن سبائیا

                                ناں تس بکھ پیاس رجا دھایا

(نہ ترا کوئی باپ ہے نہ ماں، تجھے کس نے پیدا کیا ؟ نہ ترا روپ ہے نہ ترا خدوخال، پھر بھی سب رنگ روپ ترے ہیں ۔نہ تجھے بھوک لگتی ہے نہ پیاس، پھر بھی تو شکم سیر ہے، قانع ہے )

لاہور کو صوفیوں کی دعا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اندرون لاہور میں صوفیوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے ۔ جب علی ہجویر ی کو مرشد نے لاہور جانے کا حکم دیا تو علی ہجویری نے مرشد کو کہا کہ وہاں تو ابھی پہلے سے حضور موجود ہیں مگر مرشد کے احکامات میں بہت حکمت ہوتی ہے جو طالب کچھ دیر بعد سمجھتا ہے۔ علی ہجویری یقینا حیرانی کے عالم میں لاہور کی جانب محو سفر ہوئے مگر لاہور کی داخلی شاہراہ پر یہ دیکھ کر مرشد کی حکمت و دانائی کے قائل ہوگئے کہ سامنے سے لاہور کے روحانی بزرگ ”حضرت حسین زنجانی“ کا جنازہ آ رہا ہے اور قدرت دیکھیں کہ ان کا جنازہ علی ہجویری نے پڑھایا اور پھر لاہور کو اپنے نور بصیرت سے چمکایا اور اتنا چمکایا کہ …. معین الدین چشتی نے جب دہلی و اجمیر میں اسلام کا پودا لگانا تھا تو اپنے سفر کی واپسی پر علی ہجویری کی درگاہ پہ حالت اعتکاف میں بیٹھے اور جاتے ہوئے یہ شعر کہہ گئے جو آج بھی لاہور میں علی ہجویری کی درگاہ کی بیرونی دیوار کے ماتھے کا جھومر ہے،

                                گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا                       ناقصاں راپیرکامل کاملاں را راہنما


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).