کیا اہلِ دانش کا دستور بننا چاہئے؟


کسی بھی معاشرے کی ڈھانچہ جاتی تبدیلی میں جہاں اداروں کی معروضی تعمیر کا کردار رہا ہے، وہاں پر ہم داخلی تبدیلی کے لئے علمی اور شعوری تعمیر کو نظر اندار نہیں کر سکتے۔ علمی ترقی اور شعور سازی میں ملک کے درس و تدریس سے وابستہ معلمین اور اہلِ دانش کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ جس وقت ملک کی پارلیمنٹ، آفیسر شاہی، عدلیہ، فوج اور دوسرے ادارے اپنے اپنے شعبہ جات میں ملک کی کثیرالجِہت تبدیلی کے منصوبوں میں مگن ہوتے ہیں، تو اس وقت اس زمان و مکان کی دانش عوام کے شعور و فکر کو ایک رُخ میں لے جانے کی اہل ہوتی ہے۔ اس علم و دانش میں اب میڈیا بھی ایک اکائی کی طرح شامل ہو چُکا ہے، اس طرح ملک کی دانش اور میڈیا کی کڑی نظر سماج کے سیاسی، معاشی داخلی اور معروضی ڈھانچوں میں تبدیلی کے مراحل پر ایک کڑی نظر رکھے ہوئے ہوتی ہے۔ کسی بھی سماج میں ایک ادیب اور دانشور کا کردار کیسا ہونا چاہیے، اس موضوع پر پچھلا مضمون ہم سب میں آ چُکا ہے، اُسی پس منظر میں اہلِ دانش کے دستور بنانے پر بات کریں گے۔ اس حوالے سے چند نِکات آپ کی خدمت میں پیش کیے ہیں، جو کہ اہلِ علم و دانش کے لازمی فرائض کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور اہلِ دانش کے دستور کا حصہ بن سکتے ہیں، ایک اہلِ عِلم و دانش:

1۔ تنقیدی شعور کا حامل ہو اور سماج کے اندر بھی حساسیت کے ساتھ ایسا ہی شعور پیدا کرے۔

تنقیدی سوچ/ شعور (کِرٹیکل تھِنکنگ) کا ہونا زندگی کی ہر پہلو کے لیے لازمی جز کی طرح اہم ہے۔ کسی قوم کا تنقیدی شعور اس قوم کے سیاسی و معاشرتی تصور کو ارتقا کی طرف لے جاتا ہے اور یوں ایک رول ماڈل قوم تیار ہوتی ہے۔ اس طرح کی سماج سازی میں مصنفین، ادیبوں اور دانشوروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ تنقیدی نقطہ نظر انسانی زندگی کے ہر پہلو کا بناؤ سنگھار کرکے ارتقا کی طرف لے جاتا ہے۔ جس طرح درختوں اور پودوں کی نشو و نما میں انہیں صاف ستھرا رکھنے اور آگے بڑھنے کے لیئے اضافی ٹھنیاں کاٹنے کا کردار ہے، اسی طرح تنقیدی شعور اور تنقیدی نقطہ نظر افراد، جماعتوں اور اداروں کی نشو نما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی ایک بہت ہی اہم مثال یہ ہے کہ سماج میں متروک تصورات اور پسماندہ ریتوں رسموں کو رد کر کے، ان کی جگہ جدید خیالات و تصورات کو لے کر آنا اسی تنقیدی شعور کا کام ہے۔ تنقیدی شعور سماج کی متروکیت کو اکھاڑ پھینکنے کا اہل ہوتا ہے۔

2۔ ہر قسم کے جبر کو علی الاعلان رد کر دے، چاہے وہ اپنی ہی قوم کے خلاف کیوں نہ ہو:

معلومات کا اضافہ بے عمل انسان کے پاس بغیر استعمال کردہ خزانے کی مانند تجوڑی میں بند ہی رہے گا۔ بے عمل انسان اس احمق کی طرح ہوگا جو دریاہ کنارے رہ کر بھی پیاسا رہے گا۔ سماج کو تبدیل کرنے کے لیئے نظریے اور عمل کا میلاپ لازمی ہے، صرف معلومات اور علم کا ہونا ہی کافی نہیں، اس کے ساتھ دانش، جرئت اور حق پسندی پسندی کے ساتھ اُس پر عمل کا ہونا بھی لازمی ہے۔ قوم کے شعور ساز کی حیثیت میں مصنفین، دانشور، چاہے وہ کسی بھی قوم، مذہب، عقیدے، مکتبہ فکر یا نسل سے وابستہ ہوں، اس کے دو بنیادی کام ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ سچ اور حق کی تقلید کریں اور دوسرا ریاستی جبر کو جرئت کے ساتھ عیاں کریں، اور اس کو ببانگِ دُہل رد کریں۔ کیا ہمارا دانشور اپنے ریاستی اداروں کو سچ کہنے کی جرئت کر سکتا ہے؟

باشعور اور ایماندار شخص کا قلم اور کتاب سے وابستہ رہنا اور قلم کے ذریعے علم پھیلانا تو آدھا کام ہوا، مظلوم عوام کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والے تنظیموں اور فریقین کے ساتھ کھڑا ہونا دوسرا آدھا کام ہے۔ ایک ایماندار اور سچی ساکھ کے حامل دانشور کے نقطہ نظر اور عمل کا سچا میلاپ یہ ہے کہ وہ سچ پر ڈٹ جائے، سچ کہے اور سچ کو ثابت کرے۔ اس سلسلے میں چاہے کتنی ہی پیچیدگیاں اور رکاوٹیں کیوں نہ آڑے آئیں۔ وہ سچ دشمن کے جبر کے خلاف ہو، اپنی ہی قوم کی داخلی کمزوریوں کے خلاف ہو، یا ادارتی بدعنوانی کے حوالے سے ہو، ان کو چھپانے سے طویل مدتی نقصانات مرتب ہونگے۔ اس کے ساتھ ایک سچے دانشور کا یہ بھی کام ہے کہ وہ ان مظلوموں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرے جو اپنے حقوق کے لیے لڑ نہیں سکتے اور عوام کے اندر بھی اس طرح کا جذبہ و حوصلہ پیدا کرے۔ وہ دانشور جو عوام کی نمائندگی نہیں کرتا، قوم حق کی طرف جانبدارانہ نہیں ہے وہ سماج پر بوجھ ہے۔ اس لیئے کو اہم مواقع پر عوام کی نمائندگی کے بجاءِ خاموش رہنا غیر اعلانیہ باطل کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔

3۔ باعلم و باخبر رہے اور عظیم خیالات و عوام دوست تصورات کو پھیلائے:

دانشور کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے معاشرے سے وابستہ ہر موضوع کے حوالے سے معلومات رکھے، چند موضوعات پر مہارت حاصل کرے، علمی سرگرمیوں کو خاصا وقت دے تا کہ حال کو تاریخ سے وابستہ کیا جا سکے۔ مستقبل کے بارے میں دوربینی سے تجاویز دے کر، نتائج اخذ کرے تاکہ حال کو پہلے سے ہی درست کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

ایک دانشور کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنا علم اپنے تک محدود رکھنے کے بجائے عوام میں پھیلائے، اعلیٰ آدرشوں کی معلومات کو بھی اسی طرح بانٹنا لازمے ہے جس طرح ملکیت اور یا چیزوں کو بانٹنا لازمی ہوتا ہے۔ جس طرح پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ شعور کے اندر بند علم تجوڑی کے اندر بند مال اور بے عمل عقل، ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

4۔ خیالات و واقعات میں موجود منطقی وابستگی کو سمجھے، اور لوگوں کو اپنے قلم و آواز سے سمجھائے:

تنقیدی سوچ و شعور سے خیالات، واقعات اور مظاہر میں موجود ربط اور سلسلہ سمجھ میں آئے گا۔ چیزوں، مظاہر، دؤروں میں میلاپ ہے، فطرت میں موجود مادہ میں فرق ہونے کے باوجود یکسانیت ہے۔ تضاد دو مختلف مراحل کے درمیان میلاپ رکھتا ہے، داخلی اور خارجی دو مختلف سمتیں ہونے کے باوجود آپس میں ربط رکھتی ہیں۔ ان کی کئی سائنسی مثالیں موجود ہیں۔ مگر اس سماجی مثال سے اس کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اہلِ دانش کی اکثریت اپنے تجزیات میں پاکستان کی داخلی سیاست کو معروضی سیاسی ماحول سے وابستہ کرکے نہیں دیکھتی۔ جس طرح ملک میں مذہبی انتہاپسندی کو صرف ملکی مظہر سمجھا جاتا رہا ہے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کے ماضی کے بیرونی وابستہ کردار کل اس معاملے سے کس قدر وابستہ تھے، اور آج ان کا کردار کیا ہے۔

دوسری مثال یہ ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ عراق میں کیمیائی اسلحے کی تلاش میں گیا تھا اور پھر وہاں پر اس لیے ٹھہر گیا کہ اسے عراق میں جمہوریت سازی سے عشق تھا، تنقیدی شعور سے عاری ذہن امریکہ اور اس سے وابستہ یورپی ممالک کے عراق کے بارے میں بیانات کو درست سمجھے گا اور اس کی توجہ اس اہم پہلو کی طرف جائے گی ہی نہیں کہ عراق دنیا کا دوسرا/ تیسرا بڑا تیل کے ذخائر کا حامل ملک ہے، جغرافیائی طور پر توانائی پیدا کرنے والے خطے کے مرکز میں ہے۔ اسی طرح بلوچستان، پختون خواہ اور سندھ کے بڑے شہر کراچی میں ہونے والے خونی کھیل کو عالمی سیاست سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ واقعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا پسِ پردہ جاری قصے کو داخلی اور خارجی حالت کے پیشِ نظر سمجھنا چاہیے۔

5۔ مخصوص اہمیت کے حامل خیالات، نظریات کو سمجھ کر ان کو سماج میں نافذ کرنے میں کردار ادا کرے:

تنقیدی سوچ کے حامل ادیب اور مصنف کا اہم ترین رجحان یہ ہونا چاہئے کہ وہ حال اور تاریخ کے ورقوں میں سے اہم سیاسی، سماجی اور سائنسی نظریات اور نقطہ نظر کو اپنے دؤر سے وابستہ کرکے دیکھے۔ اگر وہ اس دور سے ہم آہنگ ہوں تو ان کو مختلف پہلوؤں میں نافذ کرنے کے لیے تدابیر کی جائیں۔ مثلاَ حکمت عملی کے چینی دانشور سن زو کا نقطہ نظر خواہ قدیم اور قبل مسیحی نظریہ ہے مگر اس کے (تمام تر نہیں مگر اکثر) حکمت عملی کے نکات کو سیاسی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قدیم ہندستانی، چینی اور یونانی دیومالا سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ بشمول شاہ لطیف، غالب، اقبال اور دیگر اہل دانش بے شمار کلاسیکی (ہمیشہ شاداب رہنے والی) تصنیفات دے کر گئے ہیں، اس علم میں سے فرد خواہ گروہ استفادہ لے کر اپنی قسمت بدل سکتے ہیں۔ مادی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے لازمی ہے کہ پہلے وہ شعوری اور نظریاتی سطح لائی جائے! جو اہلِ علم اور دانشور لیکر آ سکتے ہیں۔

6۔ موجود موقف کو سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا، اور نئے موقف کا پیدا کرنا:

علم کا حصول لازمی طور پر انسان کی زندگی کو جب تک الٹ پلٹ کر نیا نہ کر دے، تب تک علم کا اصل مقصد سمجھ میں نہیں آئے گا۔ علم نئے خیالات اور موقف کو جنم دیتا ہے، کسی بھی زندہ سماج کو نئے خیالات اور موقف پیدا کرتے رہنا چاہئیں، مثلا سماج میں باشعور لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوان نسل ذہنی نشو نما کے لیے موجود سماجی حالات کے حوالے سے انہیں سائنسی اور فلسفیانہ شعور دے کر ان سے چھوٹے مسائل سے لیکر قومی مسائل تک مخاطب ہوکر موقف سازی کریں، پھر ان میں بچوں کی لازمی تعلیم کی بات ہو یا قومی خودمختاری کی، یہ موقف سازی بذریعہ اخبارات، ٹی وی، ریڈیو اور عوامی میل جول کی نشستون سے کی جا سکتی ہے۔

کیوں کہ میڈیا کی زیرِ اجارہ داری دنیا میں جو موقف سازی کی جا رہی ہے وہ انسانی شعورسازی اور سماجی تعمیر کے برعکس کام کر رہی ہے۔ مثلا ایک لڑکی کے لیے فیشن کی دلدل میں پھنسنے کو لازمی سمجھنا، اشتہارات میں ان کی تعلیم میں ترقی کی بجائے صرف نمائش میں برتری دکھانا! یا نوجوانوں کو کتابوں کے بجائے موبائل فونز میں اپنا مستقبل ڈھونڈھتے دکھانا۔ لہٰذا میڈیا کی اس سطحی موقف سازی کو روکنے کے لیے نئے موقف پیدا کرنے پڑیں گے، جو دانش، وجدان، سماجی سمجھ، سائنسی سوچ اور فلسفیانہ شعور پیدا کریں۔ یہ عالمگیریت کی دنیا موقف بنانے (یعنی ڈسکورس پیدا کرنے) کی دنیا ہے۔ شعور پر موقف حکمرانی کرتے ہیں، موقف میں کامیاب ہونا عملی طور پر کامیاب ہونے کی علامت ہے۔ ملک کے دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کو طاقتور موقف قائم کرتے رہنا چاہیے۔

7۔ خیالات میں منطقی غلطیاں اور کمزوریاں دیکھنا مسائل کو سائنسی فکر کے ساتھ حل کرنا:

تنقیدی سوچ کا تیسرا اہم پہلو منطق کی نظر سے خیالات کو دیکھنا ہے تا کہ ان میں سے غیرمنطقی اور غیرعقلی رجحانات کو نکال دیا جائے، کیونکہ غیرمنطقیت پس و پیش ناکامی کا سبب بنے گی۔ فرد ہو یا گروہ یا سیاسی و سماجی تنظیم، غیر منطقی رجحانات ان کی قسمت اور بدقسمتی کا تعین کرتے ہیں، جب کوئی ایک فرد منطقی غلطی کرے گا تو اس کا خمیازہ اس کی ذات کو بھگتنا پڑے گا۔ وہ اہم اور غیراہم میں فرق کو نہ سمجھتے ہوئے ان پہلوؤں پر کام کرتا اور سوچتا رہے گا جو نہ تو علم میں اضافے میں کوئی کردار ادا کریں گے اور نہ ہی قوم اس سے استفادہ حاصل کر سکے گی۔ ایک لڑکی علمی منصوبوں کو ترک کرکے پورا دن بناؤ سینگار کرے یا کوئی لڑکا علمی/فکری رجحانات کی بجائے فلموں کے پیدا کردہ موقف پر سوچے گا تو نتیجے میں اس کے پاس سطحیت ہی بچے گی اور اگر ملکی ریاست منطقی غلطی کرے تہ اس کے نتائج اقوام اور علاقے، حال اور مستقبل بھگتیں گے۔

8۔ سماج میں مثبت تنقید کے لیے عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیئے تگ و دو کرے:

ایک مصنف سچی تنقیدی سوچ، سطحی تنقید (جسے مذاق اُڑانا، شخصی جملے بازی، دورانِ بحث ذاتیات پر اُتر آنا) اور اصلاحی تنقید میں فرق کرکے جب تنقید پیش کرے گا تو وہ سطحی اور شخصی حسد محسوس نہیں ہوگی۔ اصلاحی تنقید اور ذاتی مذاق اڑانے میں فرق ہے۔ مذاق اُڑانا، بحث بازی اور عقلی گفتگو میں فرق ہے۔ اصلاحی اور مثبت تنقیدی سوچ دوربینی کی سمجھ عطا کرے گی، سماجی اور سیاسی اداروں کو جِلا بخشے گی۔ تنقید شعوری تربیت کا لازمی جُز ہے، اس کی اہمیت کو نہ سمجھنا کوتاہ نظری ہے۔ ہمارے ہاں مثبت تنقید پر بھی اناؤں کو رنجشیں پہنچتی ہیں۔

9- اپنے عقیدے اور اقدار کی منطقی اور سائنسی نظر سے درستی سے چھان بین کرے:

اہلِ دانش، کو اول تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایمان اور عقیدہ میں فرق ہے۔ ایمان اور قدر میں فرق ہے۔ عقیدے اور قدر میں فرق ہے۔ عقیدہ اور عقیلت میں فرق ہے۔ ان مظاہر میں فرق کو نہ سمجھنے سے نقصان ہوگا۔ یہ ہی سبب ہے کہ بے شمار جماعتیں یا گروہ نقطہ نظر کے نام پر عقیدے کی تقلید کرتے ہیں، عقلیت کے نام پر اندھے ایمان کی بات کرتے ہیں، عقیدے کو سائنسی اقدار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خیالات، نقطہ نظر اور نظریات کی مناسب چھان بین نہیں کی جائے گی تو غلطیوں کو غلطیاں تسلیم نہیں کیا جائے گا، جھوٹ کو سچ سمجھا جائے گا، دھوکے کو وفا اور غیرمنطقیت کو عقلیت سمجھا جائے گا، غیرسائنسیت کو رواں دؤر کا سچ اور عقل سمجھا جائے گا، عوام کی اجتماعیت بھی کئی صورتوں میں غلطیاں کر سکتی ہے۔ لہٰذا اہلِ دانش کا فرض ہے کہ تمام بیان کردہ موضوعات کے حوالے سے ایک دستور تیار کر کہ موقف سازی کی ابتدا کریں تاکہ سماج کی شعور سازی کا سلسلہ ایک منظم طریقے سے جاری رہے۔

ڈاکٹر سحر گل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سحر گل

سحر گل بینظیر بھٹو چیئر کراچی یونیورسٹی کی ڈائیریکٹر، محقق، کالم نگار، ناول نگار و افسانہ نگار اور اردو کی شاعرہ ہیں.

sahar-gul has 5 posts and counting.See all posts by sahar-gul